صوبہ بنانے کے اعلانات کا مقابلہ
گلگت بلتستان اور اس کی صوبائی حیثیت علاقے کے لوگوں کے لیے خواب اور سراب کی مانند ہے۔ مدتوں گلگت بلتستان کے عوام اس سراب کا تعاقب کرتے رہے ہیں، مگر اب بھی وہ اس منزل کے قریب نہیں پہنچے۔ ہر انتخاب میں وفاقی سیاسی جماعتوں نے اس خطے کے عوام کو صوبہ بنانے کا خواب دکھایا، مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے 2009ء میں گلگت بلتستان امپاورمنٹ ایکٹ منظور کرکے اس علاقے کے صوبائی خدوخال اُبھارے۔ مسلم لیگ (ن) نے سینیٹر سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کرکے اس سمت میں مزید پیش رفت کی کوشش کی۔ ہر دو کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بالترتیب پہلے پیپلزپارٹی اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئیں۔
اب گلگت بلتستان کے انتخابات سر پر ہیں اور انتخانی گہما گہمی پورے عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بنفسِ نفیس یہ اعلان کرنے گلگت کے دورے پر گئے، اور انہوں نے انتخابی ضابطوں کی مجبوریوں کے باعث ترقیاتی پیکیج کا اعلان تو نہ کیا مگر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کردیا۔ یوں نہ کہتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ گئے۔
بلاول بھٹو زرداری جو اسلام آباد میں وفاقی حکومت پر تقسیمِ کشمیر کی سازش کرنے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی سازش کا دبے لفظوں میں اعلان کررہے تھے، گلگت پہنچے تو انہیں اندازہ ہوا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا آزادکشمیر کے ووٹروں کی مخالفت مول لینے کے مترادف تو ہوسکتا ہے، مگر گلگت میں یہ مقبول لہر پر سوار ہونے کا آسان طریقہ ہے۔ اس لہر پر پی ٹی آئی سوار ہورہی تھی کہ بلاول نے دو قدم آگے بڑھ کر گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے کا اعلان کردیا۔
اب گلگت میں انتخابی مہم عبوری اور مستقل صوبے کے دعووں کے سائے تلے جاری ہے، اور انتخابات میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان متوقع ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مضبوط الیکٹ ایبلز کا ایک دھڑا پی ٹی آئی میں شامل ہوچکا ہے جس سے پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوچکی ہے۔
وفاقی وزیر امورِ کشمیر وگلگت بلتستان علی امین گنڈا پور بھی گلگت میں ڈیرے ڈالے رہے۔ ان کے جلسوں کے پہلو بہ پہلو بلاول بھٹو بھی طوفانی مہم چلائے ہوئے تھے، اور اس رنگِ محفل کو جمتا دیکھ کر بعد میں مریم نواز نے بھی گلگت بلتستان کا رخ کیا، اور مجموعی طور پر تینوں جماعتوں کے درمیان جہاں گلگت بلتستان کو صوبہ اور عبوری صوبہ بنانے کے اعلانات کا مقابلہ رہا، وہیں بڑے جلسوں کا مقابلہ بھی زوروں پر رہا۔ گلگت بلتستان کے عوام نے تینوں جماعتوں کے انتخابی جلسوں کو بھرپور رونق بخش کر سب کو خوش کردیا۔
گلگت بلتستان کی آبادی پندرہ لاکھ ہے، اوراس کے دس اضلاع میں سات لاکھ افراد حقِ رائے دہی کے اہل ہیں۔ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مجلس وحدت المسلمین، جمعیت العلمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ (ق) یہاں انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کررہی ہیں۔ 15 نومبر کو ان جماعتوں کے درمیان اگلے پانچ سال کے لیے انتخابی معرکہ ہونا ہے۔ گلگت بلتستان کی کُل 33 نشستیں ہیں جن میں سے 24 پر براہِ راست انتخابات ہورہے ہیں، جبکہ 6 نشستیں خواتین اور 3 ٹینکوکریٹس کے لیے مختص ہیں۔
ایک طرف گلگت میں صوبے کا رومانس پورے زوروں پر ہے تو دوسری طرف آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں علاقے کے صوبائی اسٹیٹس کی مخالفت کررہی ہیں۔ آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں اس علاقے کے لیے آزادکشمیر طرز کے سیٹ اَپ کا مطالبہ کررہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہونے والی ریاست کے دوحصے تھے۔ جس وقت گلگت بلتستان آزاد ہوا پورے کشمیر کی طرح اُس وقت یہ ڈوگرہ حکمرانی کا حصہ تھا اور مہاراجا ہری سنگھ اس ریاست کے سربراہ تھے، اور ریاست کا پورا نام’’ریاست جموں وکشمیر تبت ہا‘‘ تھا، اور ’’تبت ہا‘‘ کا مطلب گلگت بلتستان اور لداخ کے شمالی علاقہ جات تھا۔ تقسیم کے وقت یہاں مہاراجا کا مقرر کردہ گورنر بریگیڈیئر گھنساراسنگھ تھا۔ آزاد کشمیر اور گلگت میں شروع ہونے والی الل ٹپ اور الگ الگ مزاحمت نے دونوں مقامات پر ڈوگرہ حکمرانی کا خاتمہ کیا اور یہاں آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے نام سے ایک متوازی اور انقلابی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومت کب قائم ہوئی اور کس کی سربراہی میں قائم ہوئی، تاریخ میں اس حوالے سے دو آرا موجود ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ حکومت 4 اکتوبر کو وادیِ کشمیر سے تعلق رکھنے والے محمد انور نامی شخص کی قیادت میں قائم ہوئی۔ محمد انور غلام نبی گلکار کا کوڈ نام بتایا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ حکومت 24اکتوبر کو آزاد علاقے راولاکوٹ کے رہائشی سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ محمد انور کی قیادت میں شاید ایک ہوائی اور کاغذی متوازی اور جلاوطن حکومت کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کی گئی تھی، اور جب واقعی حریت پسندوں نے کچھ رقبہ آزاد کرایا تو اس علاقے پر اصل متوازی اور انقلابی حکومت کا قیام سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں ہی عمل میں لایا گیا۔ پاکستان کی عظیم اکثریت اسی دن کو یوم تاسیس سمجھتی ہے اورسردار محمد ابراہیم خان کو ہی اس حکومت کا بانی صدر تسلیم کرتی ہے۔
اس ابتدائی دور میں فاصلوں اور دوریوں کے باعث آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت گلگت بلتستان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں کرسکی، اس لیے کچھ ہی عرصے بعد گلگت بلتستان کا کنٹرول عبوری طور پر ایک معاہدے کے تحت حکومتِ پاکستان کو سونپا گیا۔ اس کے بعد سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر ایک دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے لیے جس بات کو تریاق سمجھتے ہیں آزادکشمیر کے عوام کے نزدیک یہ زہر ہے۔ بیانیوں کی اس خلیج کی وجہ دونوں علاقوں کے درمیان طویل مدت سے چلا آنے والا رابطوں کا فقدان ہے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے انتخابات کے بارے میں روایت بھی یہی ہے اور کہاوت بھی کہ ان کے انتخابی نتائج وفاق کی حکمران جماعت کے زیراثر ہوتے ہیں۔ وفاق میں جو جماعت برسراقتدار ہو، ان دونوں علاقوں میں یہی شاخ حکومت بناتی ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات آزاد کشمیر کے انتخابات کا رخ بھی متعین کرتے ہیں۔ ماضی میں گلگت میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ایک سال بعد آزادکشمیر میں بھی پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی گلگت بلتستان میں حکومت قائم ہوئی تو ایک سال بعد آزادکشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی۔ اب اس ’’مسلمہ‘‘ اصول کے خلاف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں سراپا احتجاج ہیں۔