عبدالغفار عزیز صاحب

ہم سب کے عزیز محترم جناب عبدالغفار عزیز رب کریم کے مقرر کردہ ضابطے کے مطابق حیاتِ مستعار کی سانسیں پوری کرکے داعی اجل کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون (ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے)۔ ہم سب کا پختہ یقین ہے کہ اس جہانِ فانی سے ایک دن ہم سب کو اس جہانِ ابدی میں منتقل ہونا ہے۔ وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جو اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے کے باوجود اپنے نیک اعمال کی وجہ سے دنیا والوں کے دلوں میں موجود رہتے ہیں۔ ان کے نیک اعمال کا دفتر تا قیامت کھلا رہتا ہے اور ان کی ذات سے انجام پانے والے خیر و بھلائی کے سارے کاموں کا صلہ و اجر ان کے نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہتا ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے اور عبدالغفار عزیز صاحب انہی سعادت مند لوگوں میں سے تھے۔ اگرچہ انہیں حیاتِ مستعار کی بہت کم ساعتیں نصیب ہوئیں لیکن انہوں نے اِس عارضی زندگی کی ایک ایک ساعت کو اپنی دائمی اور ابدی زندگی سنوارنے کے لیے وقف کیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور موت کے بعد کے لیے کام کیا۔ عبدالغفار عزیز اپنی پوری زندگی اس حدیثِ مبارکہ اور قرآن کی سورۃ النازعات کی ان آیات کی تصویر بنے رہے: ۔
(ترجمہ)’’اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی۔‘‘
عبدالغفار عزیز بھائی کے اس عمل کی گواہی دنیا بھر میں اُن سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے دی۔ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد نے اُن کے ایمان و اخلاص، تقویٰ، للہیت اور فنا فی التحریک ہونے کے حوالے سے نہایت ہی اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کریمانہ اخلاق کے مالک تھے۔ ان کا ظاہر باطن کا عکس تھا۔ نمود و نمائش اور ریاکاری سے وہ کوسوں دور تھے۔ عمل و کردار کی یکسانیت ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ ان کی عبادت قابلِ رشک تھی۔ ذکرِ الٰہی حرزِ جاں تھا۔ دوست احباب کو بھی وہ اذکارِ مسنونہ کی تلقین کیا کرتے تھے۔ عبدالغفار بھائی معاملات میں بھی بالکل صاف شفاف انسان تھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق تھے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فرمایا تھا کہ اللہ نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اس پر قناعت کرلو، اللہ کے محبوب بن جائو گے، اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اپنے آپ کو اس سے بے نیاز کرلو تو لوگ بھی تم سے محبت کریںگے۔
محترم عبدالغفار عزیز کے ساتھ میری 30 سالہ رفاقت رہی ہے۔ میں نے ان کے شب و روز کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ اللہ اور اس کے بندوں کے محبوب تھے۔ عبدالغفار عزیز بھائی نے ضرورت کی حد تک تو اِس دنیا کو استعمال کیا لیکن بے شمار مواقع حاصل ہونے کے باوجود یہ دنیا ان کو اپنا گرویدہ نہ بنا سکی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ والوں کی نشانی یہ بتلائی ہے کہ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔ یقین جانیے عبدالغفار عزیز اللہ کے انہی بندوں میں سے ایک تھے۔ میں جب بھی ان سے ملا اور ان کی گفتگو سنی تو دل میں دنیا کی بے رغبتی، دنیا کی بے ثباتی کا احساس مزید پختہ ہوا، اور آخرت پر ایمان و یقین میں اضافہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ صحیح معنوں میں داعیِ توحید، داعیِ اسلام اور عاشقِ رسولؐ تھے۔ ان کے بڑے بیٹے احمد فوزان نے ان کے تعزیتی ریفرنس میں جب یہ بات شرکا کو بتائی کہ میرے بابا کو 2005ء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، لیکن بابا نے یہ بات ہمیں نہیں بتائی، اس جان لیوا بیماری میں بابا نے مجھے یہ بات بتائی۔ بہرحال حاضرین نے جب ان کے بیٹے سے یہ بات سنی تو ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے اور عبدالغفار عزیز کا مقام و مرتبہ ان کے دلوں میں اور بھی بڑھ گیا۔
عبدالغفار عزیز بھائی کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ان تمام کی تفصیلات کے لیے تو ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہے۔ میرے ان سے تعارف اور دوستی کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ 6 ستمبر 1988ء کو ضلع اٹک برہان میں میرا ولیمہ تھا۔ اُن دنوں جہادِ افغانستان عروج پر تھا۔ اللہ کی توفیقِ خاص سے مجھے بھی کئی دفعہ اس میں عملاً شرکت کا موقع ملا۔ اس جہاد میں افغان قوم نے ایک سپر پاور کا غرور خاک میں ملا دیا اور اسے شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ اس جہاد کی برکت سے امتِ مسلمہ میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی اور دنیا بھر سے مسلمان ایک بڑی تعداد میں اس فرض کی ادائیگی کے لیے افغانستان پہنچے۔ جو عملاً نہیں پہنچ سکے انہوں نے دینی، اخلاقی اور مالی لحاظ سے افغانیوں کی مدد جاری رکھی۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان میں عرب مجاہدین کی بہت زیادہ قربانیاں ہیں۔ ہم نے عرب مجاہدین سے بہت کچھ سیکھا۔ ان میں کئی بڑے بڑے اساتذہ کرام تھے جنہوں نے بعد میں پشاور کے مختلف مہاجر کیمپوں میں تعلیمی ادارے کھولے اور مہاجرین کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ جمعیت طلبہ عربیہ کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے میرا ان اساتذہ سے اچھا رابطہ تھا، اس لیے میں نے انہیں اپنے ولیمہ کی تقریب میں بھی مدعو کیا اور انہیں یہ بتایا کہ اس تقریب میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مجاہد کبیر قاضی حسین احمد صاحب بھی خصوصی طور پر شریک ہوں گے۔ یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور دعوتِ ولیمہ میں عرب اساتذہ اور مجاہدین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، اور یہ ولیمہ بین الاقوامی شخصیات کا اجتماع بن گیا۔ محترم قاضی حسین احمد اُس وقت جہادِ افغانستان کے ہیرو سمجھے جاتے تھے، اس لیے اُن کی شرکت سے اس تقریبِ ولیمہ کو چار چاند لگ گئے اور دعوتِ ولیمہ کی یہ تقریب جماعت کے ایک بڑے اجتماع میں تبدیل ہو ئی۔ ہمارے گائوں کے بہت سے لوگ تو صرف قاضی صاحب اور دیگر عرب مجاہدین کو دیکھنے اور ان کا خطاب سننے کے لیے ولیمہ میں شریک ہوگئے تھے۔ قاضی صاحب نے اس موقع پر تقریباً ایک گھنٹہ دس منٹ تک انتہائی پُرمغز خطاب فرمایا جس کا سارے گائوں والوں پر بہت اثر ہوا اور ہمارے خاندان والوں پر بھی اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
میں یہاں پر ضمنی طور پر عرض کرتا چلوں کہ ہمارے آبا و اجداد کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے، اور وہ تحصیل بھلوال کے مشہور گائوں آنگہ سے برہان آئے تھے۔ ہمارے والد کے پڑدادا پیر چراغ علی حضرت سلطان باہوؒ کے خاص مریدوں میں سے تھے اور ان ہی کے حکم سے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں برہان آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے، ان کا مزار بھی برہان شریف میں ہی ہے۔ ان کے بعد ہمارے والد صاحب تک پیری مریدی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ میرے والد صاحب پیر ہدایت علی مرحوم اس علاقے کے مشہور پیر تھے اور اپنے خیالات و عقائد کی وجہ سے جماعت اسلامی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ میرے والد صاحب میری جماعتی وابستگی سے بھی خوش نہیں تھے۔ لیکن قاضی صاحب کی آمد کا اُن پر بہت اچھا اثر ہوا۔ قاضی صاحب کی خدمات اور عشقِ رسولؐ کا تذکرہ ہم اکثر ان کے سامنے کرتے رہتے تھے۔ اللہ کے فضل و کرم سے جماعت کے بارے میں ان کے خیالات میں بہت بہتری آ گئی اور 1993ء کے الیکشن میں انہوں نے خود بھی اسلامک فرنٹ کو ووٹ دیا اور اپنے مریدوں کو بھی اس کی تاکید کی۔
ضمنی بات کچھ طویل ہوگئی۔ عبدالغفار بھائی میرے ولیمہ میں میرے کوئٹہ کے ایک دوست عبداللہ ہاشمی کے ساتھ افغانستان سے تشریف لائے تھے اور ولیمہ میں ہی ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ میں عبدالغفار بھائی کو خصوصی مہمانان کے پاس لے گیا جہاں قاضی صاحب سے بہت سے سوالات پوچھے اور قاضی صاحب ان کے جوابات دیتے رہے۔ لیکن قاضی صاحب کو زبان کے حوالے سے کچھ دشواری پیش آرہی تھی، تو اس موقع پر محترم عبدالغفار عزیز نے محترم قاضی صاحب کی خاصی معاونت کی۔ ایسے خوب صورت انداز میں ترجمانی کی کہ وہ قاضی صاحب کی آنکھوں کا تارہ بن گئے اور قاضی صاحب نے ان کو اس پہلی ملاقات میں ہی کہا کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی آپ منصورہ آجائیں۔ اور عبدالغفار صاحب قطر یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرتے ہی منصورہ تشریف لے آئے اور جماعت کے شعبہ امورِ خارجہ میں جماعت کی طرف سے تفویض کی ہوئی ذمہ داریوں کو تادمِ مرگ۔
عبدالغفار عزیز صاحب مرکزی تربیت گاہ کے ایک انتہائی اہم مربی تھے۔ تمام شرکاء ان کے پروگرام کے منتظر رہتے تھے اور بڑے ذوق و شوق سے ان کے پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔
وہ جب پوری دنیا میں طاغوتی طاقتوں سے برسر پیکار اسلامی تحریکوں کا تذکرہ کرتے تھے تو مایوسیوں کے سائے چھٹ جاتے تھے اور شرکاء کو ایک نیا جوش و جذبہ ملتا تھا۔ جب وہ اسلامی تحریکوں کے کارکنان کی ایمان افروز قربانیوں کا تذکرہ کرتے تھے تو ہر آنکھ پُرنم ہوجاتی تھی اور ہر شخص قربانی کے جذبے سے سرشار ہوجاتا تھا۔ وہ شرکائے تربیت گاہ کی محبتوں کا مرکز و محور تھے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کی انتہائی پُرخلوص و پُراثر گفتگو نے بے شمار نوجوانوں کی زندگیاں بدلیں۔ لوگ ان کے علم و عمل سے متاثر ہوکر تحریک کے دست وبازو بنے، اور یہ سب لوگ ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔