سیرتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم

جلد دوم

جناب حافظ محمد سجاد ایسوسی ایٹ پروفیسر، چیئرمین شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے ایک گراں قدر مقالہ بعنوان ’’دعوتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم… مراحل و منہاج‘‘ (سیرت نگاری کا اہم عصری رجحان) تحریر فرمایا جس میں انہوں نے مختلف کتب ِسیرت کا تجزیہ تحریر کیا۔ اسی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’سیرت سرورِ عالمؐ‘‘ کی جلد دوم کا تعارف کرایا ہے۔ اس تحریر کو ہم قارئین کرام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (1903ء۔ 1979ء) کی ’’سیرتِ سرورِ عالمؐ‘‘ جلد دوم مکی عہدِ نبوت پر لکھی گئی ہے۔ سیرت کے دعوتی رجحان پر اردو میں سب سے عمدہ کتاب ہے۔ یہ کتاب چودہ ابواب پر مشتمل ہے، یعنی قرآن اپنے لانے والے کو کس حیثیت سے یپش کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان: پیدائش سے آغازِ نبوت تک، آغازِ رسالت اور خفیہ دعوت کے ابتدائی تین سال، دعوتِ حق کے لیے ہدایات جو نبیؐ کو دی گئیں، دعوتِ اسلامی کی حقیقی نوعیت، دعوتِ عام کی ابتدا، دعوتِ اسلامی کو روکنے کے لیے قریش کی تدبیریں، ہجرتِ حبشہ۔ باب چار سے لے کر نو تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ باب بارہ مکہ میں قبائلِ عرب کو دعوتِ اسلام کی روداد پر مشتمل ہے، جبکہ چودھویں اور آخری باب میں مکی دور کا مجموعی جائزہ لیا گیا ہے۔
باب چہارم آغازِ رسالت اور خفیہ دعوت کے ابتدائی تین سال (ص 129 تا 162) کے جائزے پر مشتمل ہے۔ سید مودودیؒ کے بقول:
’’سورہ اقرا کی ابتدائی پانچ آیاتِ کریمہ کے نزول سے نبوتِ محمدی کا آغاز ہوا، اور فترہ کے بعد سورہ مدثر کی ابتدائی سات آیات ِکریمہ کی تنزیل سے رسالتِ محمدی کا۔ ان آیات میں آپؐ کو دعوتِ دین کا حکم دیا گیا اور اس سے متعلق ہدایات دی گئیں۔‘‘
سید مودودیؒ نے ان ہدایاتِ ربانی کا مفصل تجزیہ فرمایا ہے جو کہ مؤلفِ گرامی کے تجزیاتی مطالعے کا شاہکار ہے، جبکہ دوسرے سیرت نگاروں کے ہاں اس کا ذکر بہت کم پایا جاتا ہے۔ مولانا نے بھی مکی عہدِ نبوت کو دعوتی مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ ’’خفیہ تبلیغ کا تین سالہ دور‘‘ پر روایاتِ سیرت و حدیث و تفسیر کی روشنی میں عمدہ تحلیل و تجزیہ پیش کیا ہے۔ خفیہ دعوت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو تبلیغ رسالت کی جو حکمت سکھائی تھی اس کے مطابق آپؐ نے اپنا کام، چھوٹتے ہی اعلانِ نبوت کردینے اور لوگوں کو دعوتِ عام دینے سے نہیں کیا، بلکہ ابتدائی تین سال تک آپؐ خفیہ طریقے سے اسلام کو اُن سعید روحوں تک پہنچاتے رہے جو محض دلیل و برہان اور تفہیم و تذکیر سے توحید کو قبول کرنے اور شرک چھوڑنے پر آمادہ ہوسکتی تھیں، اور اس کے ساتھ جن پر یہ اعتماد بھی کیا جاسکتا تھا کہ وہ اس تحریک کو اُس وقت تک راز میں رکھیں گی جب تک اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہادیِ برحق، اعلانِ عام اور واشگاف دعوتِ الی اللہ شروع کردینے کا فیصلہ نہ فرمائیں۔‘‘
ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی کی رائے ہے کہ:۔
مولانا مودودیؒ غالباً واحد جدید اردو سیرت نگار ہیں جنہوں نے روایات کے تجزیے اور تحلیل کی بنیاد پر دارِ ارقم میں مرکز تبلیغ و اجتماع کا قیام ثابت کرنے کے علاوہ، اس کے اسباب اور تاریخی تناظر اور زمانی توقیت سے بحث کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دارِ ارقم کو مرکزِ تبلیغ و تعلیم ڈھائی سال کی مدت کے بعد اس لیے بنایا گیا تھا کہ مسلمانوں اور کافروں میں تصادم کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن اس توقیت سے حضرت ابوذر غفاریؓ کے اسلام قبول کرنے کی صحیح روایت میل نہیں کھاتی، انہوں نے آغازِ نبوت ہی میں اسلام قبول کیا تھا اور دارِ ارقم میں ہی کیا تھا جب مسلمان تھوڑے تھے۔ غالباً یہ مرکزِ اسلام ابتدا ہی میں وجود میں آگیا تھا اور پھر وہ بقول مولانا مودودی خفیہ و علانیہ دعوت کے زمانے میں سب سے بڑا مرکزِ اسلام بنا رہا۔ مولانا مودودی کے تحلیل و تجزیے کی ایک شاہکار بحث وہ ہے، جس کا سوالیہ عنوان ہے: ’’تین سال کی خفیہ دعوت میں کتنا کام ہوا؟‘‘ مولانا مودودی نے بڑی تلاش و تجسس کے بعد اس سہ سالہ دورِ تبلیغ کے دوران مسلمان ہونے والوں کی ایک فہرست تیار کی ہے، جو خاندانوں کے اعتبار سے تیار کی گئی ہے وہ بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو عبدشمس، بنوامیہ اور ان کے خلفاء۔ بنو تمیم اور ان کے خلفاء۔ بنو اسد، بنو عبدالعزی، بنو زہرہ اور ان کے خلفاء۔ بنوعدی اور ان کے خلفا۔ بنو عبدالدار، بنو جمح، بنو سہم اور ان کے خلفا۔ بنو مخزوم اور ان کے خلفا۔ بنو عامر بن لوی، بنو فہربن مالک، بنو عبدقصی کے علاوہ غلام و باندی مسلمانوں اور کم از کم دو غیر قریشی/ غیر ملکی 129 افراد پر مشتمل ہے، اور اولین چار مسلمانوںکو شامل کرکے ان کی تعداد 133 ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ تحلیل و تجزیہ، روایات اور تجزیاتی مطالعہ سیرت کی یہ نادر مثال ہے، جو صرف مولانا مودودی جیسے مفکر و عبقری کے قلم سے نکل سکتی تھی۔ تمام قدیم و جدید سیرت نگار ’’دعوتِ عام کی ابتدا‘‘ کا باب بالعموم قریب ترین اعزہ کی دعوت کے باب سے شروع کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے سب سے ہٹ کر روایات کے تجزیے و تحلیل کے بعد، دلائل و براہین کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام کا اولین اظہار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم کعبہ میں نماز پڑھ کر کیا تھا۔ یہ قریشِ مکہ کی نماز سے مختلف تھی اور خالص اسلامی نماز تھی۔ اس نماز نے ابوجہل جیسے دشمنِ دین میں شدید ردعمل پیدا کیا تھا، جس کا ذکر سورہ اقرا آیات کریمہ 6، 19 میں ملتا ہے۔ مولانا مودودی نے اسی واقعے سے متعلق ان روایات کو نقل کیا ہے جو کتبِ حدیث و سیرت میں ابوجہل مخزومی کی حرکات، بالخصوص نماز سے روکنے سے متعلق ملتی ہیں۔ ان کی یہ بحث بہت وقیع اور عمدہ تجزیے پر مبنی ہے۔ اپنے قریب ترین خاندان والوںکو دعوت، مولانا مودودی کے نزدیک دعوتِ عام کا دوسرا قدم ہے، اوّلین نہیں۔( بلاذری، ابن اثیر، سورۃ الشعرا، 26: 214) اور دوسری معتبر روایات سے انہوں نے اس کا مواد تیار کیا ہے۔ ’’قریش کے تمام خاندانوں کو دعوت‘‘ تیسرا قدم تھا اور اس کا آغاز کوہ صفا کے خطبے سے ہوا تھا۔ مولانا مودودی کی یہ بحث جامع، احادیث پر مبنی اور متعدد روایات سے بحث کرتی ہے اور خطبے کا متن دیتی ہے۔ اسی طرح دعوتِ عام میں روڑے اٹکانے والے دو بدترین دشمنانِ اسلام ابولہب ہاشمی اور ابوجہل مخزومی کے کرتوتوں، سازشوں اور بدباطنیوں کی بالخصوص، اور عام دشمنانِ رسولؐ کی حرکات پر مبنی بحث ان کی تحلیل و تجزیے کی شاندار شہادتیں ہیں، جس میں ان دونوں دشمنوں کی تصویر سی کھینچ دی ہے اور ان کو پورے تاریخی اسلام کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ حضورؐ کی تبلیغی مساعی اور آپؐ کے کردار، دعوت و نبوت کے حق ہونے کوخوب ثابت کیا ہے۔
پانچویں باب میں سید مودودیؒ نے ان ربانی ہدایات کی تفصیل بیان کی ہے جو دعوتِ حق کے لیے نبیؐ کو دی گئیں۔ یعنی دعوت میں حکمت و موعظت کا لحاظ، دعوتِ حق کے لیے ٹھنڈا اور سنجیدہ اسلوب، داعی کا منصب اور اس کی ذمہ داری، تبلیغ کا آسان طریقہ، مجادلہ و مباحثہ کے اصول، سخت مخالفانہ ماحول میں دعوتِ الی اللہ، بدی کا مقابلہ بہترین نیکی سے کرنا، دعوت میں صبر کی اہیت جیسے عنوانات کو قرآن مجید اور واقعاتِ سیرت کی روشنی میں رقم کیا ہے۔
مولانا لکھتے ہیں:۔
’’آغاز میں جن ہدایات کی ضرورت تھی صرف وہی دی گئیں، اور وہ زیادہ تر تین مضمونوں پر مشتمل تھیں۔ ایک، پیغمبرؐ کو اس امر کی تعلیم کہ وہ خود اپنے آپ کو اس عظیم الشان کام کے لیے کس طرح تیار کریں اور کس طرز پر کام کریں۔ دوسرے، حقیقتِ نفس الامری کے متعلق ابتدائی معلومات اور حقیقت کے بارے میں ان غلط فہمیوں کی مجمل تردید جو گردو پیش کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں، جن کی وجہ سے ان کا رویہ غلط ہورہا تھا۔ تیسرے، صحیح رویّے کی دعوت اور ہدایاتِ الٰہی کے ان بنیادی اصولِ اخلاق کا بیان جن کی پیروی میں انسان کی فلاح و سعادت ہے۔‘‘
چھٹے باب (ص 191 تا 512) میں دعوتِ اسلامی کی حقیقی نوعیت، مشرکین کی عداوت کے اسباب اور ان کی ناکامی کی وجوہ پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ پیغام دعوت میں توحید کی تعلیم اور شرک کی تردید، رسالتِ محمدیہ پر ایمان کی دعوت، قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان کی دعوت، آخرت پر ایمان کی دعوت، اخلاقی تعلیمات، عالمگیر امتِ مسلمہ کی تاسیس، نبی اور غیر نبی کے طریقِ کار میں فرق… ان عنوانات کے تحت بھرپور تجزیہ پیش کیا ہے۔ ساتویں باب میں دعوتِ عام کی روداد بیان کی ہے، جبکہ آٹھواں باب ’’دعوتِ اسلامی کو روکنے کے لیے قریش کی تدبیریں‘‘ اور ان کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ مولانا مودودی کی رائے یہ ہے کہ دعوت ِاسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے باب میں تمام اکابرِ قریش اور عوام کا رویہ یکساں نہ تھا۔ آپ نے اکابر ِقریش کو دو طبقات میں تقسیم کیا ہے:۔
-1 شدید ترین مخالفین،-2 نرم رو مخالفین
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:۔
’’رہے عام اہلِ مکہ، تو ان میں سے کچھ غیر جانبدار تھے، کچھ دنوں میں اسلام کے قائل ہوگئے تھے مگر اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے۔ کچھ اسلام قبول کرتے جارہے تھے، اور ایک بڑی تعداد اپنے سرداروں کے بھڑکانے سے دینِ آبائی کی حمیت میں مبتلا ہوکر ان کی شرارتوں میں شریک ہوجاتی تھی جو اسلام کے خلاف کی جاتی تھیں۔‘‘
مولانا مودودی نے تدابیر قریش کو مختلف فصول میں تقسیم کیا ہے اور ان کا ایک عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ پہلی بحث ہے: حضورؐ سے مصالحت کی کوششیں۔ اس میں مختلف مآخذ میں مذکورہ اکابر قریش جیسے عتبہ بن ربیعہ، اول وفدِ قریش اور دوسرے وفودِ قریش کے جناب ابو طالب ہاشمی اور رسول اکرمؐ سے ملاقاتوں اور مصالحانہ تجویزوں کا عمدہ ذکر و تجزیہ ہے۔ دوسری بحث یا تدبیر قریش کا عنوان ہے: جناب ابوطالب پر دبائو ڈالنے کی کوششیں… اس باب میں ان وفودِ قریش و تجاویز اکابر کا مفصل ذکر ہے، جو سماجی اور معاشرتی دبائو ڈالنے کے لیے منظم و مرتب کیے گئے تھے۔ چار مختلف وفود کے علاوہ ابوجہل مخزومی کی قتلِ نبوی کی سازش اور قریش کی مجموعی دھمکی کا بیان پیش کیا ہے۔ قریش کی چھچھوری اور ذلیل حرکات، تیسری بحث کا عنوان ہے۔ اس کے تحت بعض سماجی گھنائونے ہتھکنڈوں کے ذریعے رسول اکرمؐ کو دعوتِ دین سے روکنے کی کوششیں بیان کی ہیں، جیسے حضرت زینبؓ کو طلاق دلوانے کی کوشش، فرزندِ نبوی حضرت قاسمؓ کی وفات پر اظہارِ مسرت اور اکابر کی طعنہ زنی، قرآن کی تلاوت سنتے ہی شور مچا دینا، تحریفِ قرآن کی سعی، فضول بحثوں کے ذریعے مسلمانوں کو الجھانا، مسلمانوں کی عام تذلیل و تضحیک، ناواقفوں کو ورغلانا ۔
دعوتِ حق کو روکنے اور آپؐ کے خلاف قریش کی ان ساری تدابیر کا الٹا اثر ہوا۔ مکہ سے باہر اسلام کی اشاعت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’قریش اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ محمدؐ اور قرآن کو زک دے دیں گے، لیکن دراصل اس طرح انہوں نے خود ہی عرب کے گوشے گوشے تک آپؐ کا اسم گرامی پہنچا دیا۔ آپؐ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہوسکی تھی وہ قریش کی اس مہم سے تھوڑی مدت ہی میں ہوگئی، عام لوگ چاہے اس سے بدگمان ہی ہوگئے ہوں، مگر بہت سے دلوں میں آپ سے آپ یہ سوال پیدا ہوگیا کہ آخر معلوم تو ہو وہ کون سا ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہورہا ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ وہ بات سنی توجائے جس سے ہم کو اتنا خوف دلایا جارہا ہے۔
اس طرح مکہ سے باہر عرب کے دوسرے علاقوں میں اسلام کے پہنچنے کا راستہ کھل گیا۔‘‘
سیرتِ سرورِ عالمؐ کی دوسری جلد کے بارہویں باب کا عنوان ’’مکی دور کے آخری تین سال‘‘ ہے۔ جس میں مکہ کے آس پاس بسنے والے تیرہ قبائل کو دعوتِ حق کی روداد قلم بند کی ہے اور مکی عہدِ نبوت کا بڑا بصیرت افروز تجزیہ کیا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی، مولانا مودودیؒ جدید اردو سیرت نگاروں میں وہ واحد صاحبِ بصیرت انسان ہیں، جنہوں نے مکی دور کے آخری تین برسوں پر پورا ایک باب (نمبر12) قائم کیا اور ترتیب و تنظیم کے ساتھ تجزیاتی مطالعے پرمبنی اس دور آخر کے واقعات و حالات کو بے مثال تایخی فہم و بصیرت اور بے نظیر واقعیت کے ساتھ بحسن و خوبی بیان کیا ہے۔
(بشکریہ مجلہ ’’جہات الاسلام‘‘ لاہور)

اپنے موضوع پر ایک نایاب اور غیر معروف تصنیف
۔’’تاریخ و آثارِ دہلی‘‘۔

کتاب عنوان : تاریخ و آثار دہلی
مصنف : رام جی داس
مرتبہ : ڈاکٹر معین الدین عقیل
شائع کردہ : فضلی سنز ، اردو بازار کراچی
قیمت : ـ 500 روپے
مسلم عہد کی ہر اس تاریخ میں، جو شمالی ہندکا کسی طور پربھی احاطہ کرتی ہے، ان میں دہلی کا حوالہ یا اس کی تاریخ و تہذیب اور سیاست و معاشرت کا احوال ضرور مل جاتاہے، جب کہ متعدد تاریخیں تو محض اس شہر کی تاریخ و سیاست کے احوال پریا معاشرت و ثقافت کے تعارف پر لکھی گئیں۔
زیرِ نظر تصنیف دراصل ’’ذکر اموراتِ عام ضلع دہلی‘‘ ہے جسے ’رام جی داس‘ نے1854ء میں تحریر کیاتھا۔مصنف رام جی داس دہلی کے محکمۂ کلکٹری میں نائب سرشتہ دار رہا اور غالباً ملازمت سے اپنی سبک دوشی کے بعد اس نے یہ کتاب تحریر کی ، جس کی ہدایت اسے اس کے افسر یا اس کے محکمے کے انگریز سربراہ کرنل جورج ولیم ہیملٹن نے دی تھی۔چناں چہ اس نے کتاب کو لکھتے ہوئے جہاں معاصر تاریخوں سے مدد لی ہے، وہیں گاہے گاہے دہلی کی عمارات اور ماحول کے تذکروں میں لگتا ہے اپنے ذاتی مشاہدات کی مدد سے بھی وہ احوال بیان کررہاہے۔خاص طور پر اختتامی باب میں، جہاں وہ دہلی کے رقبے اور مساحتی تفصیلات وغیرہ کوبیان کررہاہے، جو عام طور پر سابقہ تصانیف کے موضوعات نہیں رہے،وہ یہاں اس کی منصبی معلومات کا بیان معلوم ہوتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تصنیف کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کے مصنف نے دہلی کے آثار قدیمہ اور شہری و معاشرتی زندگی کے احوال کو اپنے ذاتی علم و مشاہدے پر منحصر رکھا، جس کی وجہ سے یہ تصنیف دہلی پر قدیم وجدید تصانیف کے مقابلے میںایک منفرد اور بنیادی ماخذ کہی جاسکتی ہے۔یقیناً’’سیر المنازل‘‘ (مصنفہ: مرزا سنگین بیگ)اور ’’آثار الصنادید‘‘(مصنفہ: سید احمد خاں)دہلی کی تاریخ و تہذیب پر بہت مستند اور معلوماتی تصانیف ہیں لیکن زیرِ نظر تصنیف ان کے مقابلے میں ایسی معلومات و تفصیلات پر بھی مشتمل ہے جو ان دونوں تصانیف میں موجود نہیں، لہٰذا ان معلومات کے لیے یہ تصنیف بہت مستند اورواحد دست یاب ماخذ قراردی جاسکتی ہے ۔
چوں کہ دہلی کی تاریخ و تہذیب پر مشتمل سینکڑوں کتابوں کی موجودگی کے باوجود ، زیرِ نظر تصنیف غیرمعروف رہی اوراس کا واحد قلمی نسخہ برطانیہ میںمانچسٹر کے معروف کتب خانے :’’جون ریلینڈ لائبریری‘‘ (John Ryland Library)کے اردو مخطوطات کے گوشے میں بہ ذیل 23/37 اس تصنیف کے فاضل مرتب کودست یاب ہوا، جسے نہایت معلوماتی مقدمے اور ضروری حواشی کے ساتھ ’’تاریخ و آثار ِ دہلی‘‘ کے عنوان سے انھوں نے پیش کیاہے اور اس تصنیف کو دہلی کی تاریخ اور آثار کے بارے میں ایک منفرد اور نادر و نایاب تصنیف کے طور پر پیش کیاہے جسے قبل ازیں کوئی جانتا بھی نہ تھا، اب یہ سب کی رسائی میں آگئی ہے۔