فکریات

منتخب دانش افروز مضامین کے اردو تراجم

ایک زمانہ تھا فکری کتابیں کثرت سے پڑھی جاتی تھیں، اہلِ علم مختلف زبانوں سے اردو میں تراجم کرکے اردوداں حضرات کی آگاہی کے لیے پیش کرتے تھے۔ موجودہ دور میں اس کی بہت کمی ہوگئی ہے، اس طرف توجہ ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی کا اصل نام منظور اختر ہے۔ وہ 17 ستمبر 1950ء کو اپنے ننھیال (پتوکی ضلع قصور) میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی علاقہ بصیرپور (تحصیل دیپالپور) ہے۔ 1966ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بصیرپور سے میٹرک، اور 1968ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے انٹرمیڈیٹ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے 1970ء میں گریجویشن اور 1972ء میں ایم اے اردو کیا، پھر اسی یونیورسٹی سے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی، جبکہ 1986ء میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی زیر نگرانی مولانا عبدالماجد دریابادی، احوال و آثار کے موضوع پر پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ مکمل کیا۔
1976ء سے ایم اے او کالج لاہور میں لیکچرر مقرر ہوئے، 1984ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں لیکچرر، 1988ء میں اسسٹنٹ پروفیسر، 1995ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، اور 2002ء سے پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ علاوہ ازیں 2001ء سے صدر شعبۂ اردو کے منصب پر فائز رہے۔ اس دوران 2005ء میں تہران یونیورسٹی ایران میں اردو زبان و ادب کی تدریس کے لیے منتخب ہوئے اور وہاں 2008ء تک قیام کیا۔ 16 ستمبر 2010ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو پنجاب یونیورسٹی کے اردو دائرہ معارف اسلامیہ نے بطور پروفیسر ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ مارچ 2013ء سے مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں، اس کے علاوہ ’’صحیفہ‘‘، ’’مباحث‘‘ اور ’’مخزن‘‘ جیسے گراں قدر مجلات ان کی ادارت میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کی تصانیف و تالیفات و ترجمہ میں درج ذیل تحریریں ہیں:۔
جستجو (تنقید)، کربلا سے کابل تک (ترتیب)، سلطانِ ما محمدؐ از عبدالماجد دریابادی (ترتیبِ نو)، عجائباتِ فرنگ از یوسف کمبل پوش (تدوین و ترتیب)، مغربی جمہوریت اہلِ مغرب کی نظر میں، کتابیات تنقید و تاریخ ادب (1973ء تا 1982ء)، مطالعہ بیدل فکرِ برگساں کی روشنی میں، نقشِ اوّل (شاعری)، مولانا عبدالماجد دریا بادی، احوال و آثار، جہاتِ اقبال (تنقید)، اقبال چند نئے مباحث، معاصر اردو ادب (نثری مطالعات)، شوقِ آخرت، دیوانِ غالب نسخۂ خواجہ، اصل حقائق، یاد نامہ دائودی (ترتیب بہ اشتراک)، افاداتِ شعری (شعری مطالعات)، فکریات (ترجمہ) بہارِ اردو، ارمغان ڈاکٹر سید عبداللہ، بے زبانوں کی زبانی حکمت بھری کہانیاں، نہضتِ تشکیل پاکستان، لبِ خند ظفر مند، حسن کوزہ گر (ترتیب)، کس دھنک سے مرے رنگ آئے، آزاد صدی مقالات (بہ اشتراک)، میر تقی میرؔ منتخب مقالات (بہ اشتراک)، شاخ زریاب (شعری مجموعہ)، غالب، فکر و فرہنگ، میر اثر انتخابِ کلام، رنگیلا گیدڑ اور دوسری کہانیاں، تنقیدات تحسین فراقی مرتبہ اشتیاق احمد، چلا آرہا ہوں سمندروں کے وصال سے، دیوانِ فارسی امیر مینائی، اقبال دیدہ بینائے قوم، باتیں مشفق خواجہ کی، نکات، (ڈاکٹر خالد ندیم اردو میں ارمغانِ علمی کی روایت)۔
اس طول بیانی کی وجہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک بزرگ اللہ کو پیارے ہوئے تو میرے ایک دوست نے بہت ماتم کیا کہ ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ اتنے بڑے عالم ہیں، اگر پہلے معلوم ہوجاتا تو ان سے علمی استفادہ کرتے۔ تو ہم نے عرض کیا: زندگی میں تو ان کو جائز مقام نہ ملا، اب ان کا ماتم کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ فیصلہ کیا کہ جو حضرات حیات ہیں ان کا تعارف کرا دینا چاہیے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’تراجم کی پیش نظر کتاب جو ’’فکریات‘‘ کے زیر عنوان اِس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اصل میں اُن منتخب متفرق مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً میں نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرکے بعض اہم ادبی رسائل و جرائد میں شائع کیے۔ ’’اختصاص کا وحشی پن‘‘ 1979ء میں شائع ہوا۔ ’’تعریفوں کا تصادم‘‘ اسی سال کے آغاز میں۔ اس مجموعے میں ایسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا موضوع اسلام، عالمِ اسلام، سیرتِ سرورِ عالم اور تعلیم، ادب اور مذہبی اقدار ہیں، اور ایسے بھی جن کا تعلق یورپ کی تہذیبی صورتِ حال اور معاصر عالمی تہذیبی منظرنامے سے ہے۔ بظاہر مختلف مگر بباطن متجانس اور مربوط یہ سلسلۂ مضامین اصل میں اپنے اندر ایسے مباحث سمیٹے ہوئے ہے جو وسیع معنوں میں علم، تاریخ، تخلیق اور تہذیب کے مباحث ہیں۔ ایسے مباحث جو سمت نما بھی ہیں اور فکر کشا بھی۔ اگر ایک طرف اس مجموعے میں ابن اسحقؒ کی رقم کردہ سیرتِ سرورِ عالم، اور شیخ عبدالواحد یحییٰ (رینے گینوں) کی سوانح اور ان کے علمی کارناموں کا تذکرہ ہے، تو دوسری طرف کافکا کی تحریروں اور ہن ٹنگٹن کی تہذیبوں کے تصادم کا بھی فکر افروز تجزیہ ہے۔ یہ مضامین ان مختلف مصنفین کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہیں جن میں سے بعض کے مابین سالہا سال کا زمانی فاصلہ حائل ہے، مگر ان کی فکر کے بعض پہلو اپنے اندر گہری مماثلت لیے ہوئے ہیں۔ گینوں، حسین نصر اور سید علی اشرف کے مابین تو گہری مماثلت سمجھ میں آنے والی چیز ہے کہ تینوں کا تعلق اسلام کی ابدی سچائیوں سے ہے، لیکن ہسپانوی دانش ور گاست اور چیکو سلاویکی نقاد اور ناول نگار میلان کنڈیرا کے ہاں وطنی، زمانی اور تہذیبی بُعد کے باوجود متعدد مماثل فکری پہلو ملتے ہیں۔ بہرحال وہ گائی ایٹن (حسن الشاذلی) ہوں یا حسین نصر، سید علی اشرف ہوں یا ایڈورڈ سعید، گاست ہوں یا میلان کنڈیرا… ان سب کا بنیادی مسئلہ ایک ہے: معاصر تہذیبی صورتِ حال کا تجزیہ و تحلیل اور اس کو لاحق عوارض کا علاج۔ اس اعتبار سے زیر نظر کتاب اعلیٰ اور وسیع زاویۂ نظر کے حامل مذکورہ دانش وروں کے تصوراتِ تہذیب و تقدیر کی خوبی سے نشاندہی کرتی ہے اور ہمیں سوچنے اور کچھ کر گزرنے پر اکساتی ہے۔ گویا جرمن فلسفی تھیوڈور اڈورنو (1903ء۔ 1969ء) کے ایک مشہور قول کے مصداق ہمارے اندر ایک اضطراب اور بے چینی کو جنم دیتی ہے۔ ایڈورنو نے کس قدر سچ کہا تھا:
’’اپنے گھر میں ہونے کے باوجود اپنے گھر میں نہ ہونے کا احساس، اخلاقیات کا حصہ ہے‘‘۔
بے محل نہ ہوگا اگر آئندہ اوراق میں پیش نظر مضامین کے مرکزی مباحث کو اجمالاً بیان کردیا جائے، مگر اس سے پہلے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اردو ترجمے کی صورت میں یہ مضامین پہلی بار کب اور کن پرچوں میں شائع ہوئے۔ تفصیل ملاحظہ فرمایئے:۔
-1 اختصاص کا وحشی پن (گاست)، معاصر، لاہور جلد اول، شمارہ اول 1979ء
-2 عقیقیت اور تاریخ (گاست)، ماہِ نو لاہور، اکتوبر 1980ء
-3 ابنِ اسحق اور سیرتِ رسول اللہ (الفریڈ گیوم)، نقوش رسولؐ نمبر، جلد اول، دسمبر 1982ء
-4 روایت کا ایک ترجمان… رینے گینوں (گائی ایٹن)، ’’روایت‘‘1، 1983ء
-5 مغربی دنیا کے چیلنج اور عالم اسلام (سید حسین نصر)، ’’روایت‘‘ 2، 1985ء
-6 تعلیم الادب اور مذہبی اقدار اسلامی زاویہ نگاہ (سید علی اشرف)، المعارف لاہور مارچ۔ اپریل 1986ء نیز کتاب نما، دہلی، ستمبر 1986ء
-7 کہیں اوٹ میں (میلان کنڈیرا)، معاصر، لاہور، 1997ء
-8 تعریفوں کا تصادم (ایڈورڈ سعید)، سویرا، لاہور، جنوری۔ فروری 2004ء۔
اوپر دی گئی فہرستِ مشمولات اگرچہ زمانی ترتیب سے ہے، مگر ’’فکریات‘‘ میں زمانی کے بجائے معنوی ترتیب و ارتباط کا خیال رکھتے ہوئے ’’ابن اسحق اور سیرتِ رسولؐ اللہ‘‘ کو اولیت دی گئی ہے اور اسی نسبت سے اگلے مضامین مرتب کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ان تمام مضامین پر کلیتہً نظرثانی کی گئی ہے۔ بعض میں تو ’’رفو‘‘ کا بہت سا کام نکلا!‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’فکریات‘‘ اردو ادب و زبان میں ایک اہم اضافہ ہے۔ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ گراں قدر موضوعات پر یہ کتاب300روپے میں بالکل مفت ہے۔