اگر انسان کی اپنی عقل، اُس کی اپنی زندگی خوشگوار نہ بناسکے، تو اُسے زعمِ آگہی سے توبہ کرنی چاہیے۔
اگر اپنا گھر اپنے سکون کا باعث نہ ہو، تو توبہ کا وقت ہے۔
اگر انسان کو اپنا حال اور حالات درست کرنے کا شعور نہ ہو، تو دانشور کہلانے سے توبہ کرنی چاہیے۔
اگر مستقبل کا خیال، ماضی کی یاد سے پریشان ہو، تو توبہ کرلینا ہی مناسب ہے۔
اگر انسان کو تلاش کے باوجود ہمیشہ غلط رہبر یا رہنما ملیں تو اُسے اپنی اطاعت شعاری کے دعوے سے توبہ کرنی چاہیے۔
اگر انسان اپنے آپ کو غم، پریشانی، غریبی، غریب الوطنی یا موت سے نہ بچا سکے، تو اُسے اپنے خودمختار ہونے کے بیان سے توبہ کرنی چاہیے۔
اگر انسان ایک ہی پتھر سے دو دفعہ ٹھوکر کھائے، تو اُسے اپنی صحیح روی کی ضد سے توبہ کرنی چاہیے۔
اگر انسان اپنی جوانی اور روپ سے پریشان ہو، تو اُسے اپنے بنائو سنگھار سے توبہ کرنی چاہیے۔
اگر انسان میں اپنی کامیابی کا سرور ختم ہوجائے اور انسان کو یاد آجائے کہ کامیاب ہونے کے لیے اس نے کتنے جھوٹ بولے، تو اُسے ضرور توبہ کرلینی چاہیے۔
اگر انسان کو اپنے خطاکار یا گنہگار ہونے کا احساس ہوجائے تو اُسے جان لینا چاہیے کہ توبہ کا وقت آگیا ہے۔ اپنے گناہوں کا احساس ہی توبہ کی ابتدا ہے۔ اگر گناہ کا کوئی گواہ نہ ہو، تو توبہ تنہائی میں ہونی چاہیے، اور اگر گناہ پوری قوم کے سامنے سرزد ہوا ہو، تو توبہ بھی پوری قوم کے سامنے ہونی چاہیے۔
دراصل توبہ کا خیال خوش بختی کی علامت ہے۔ جو اپنے گناہ کو گناہ نہ سمجھے، وہ بدقسمت ہے۔ شیطان کو اپنی غلطی پر توبہ کا خیال نہ آیا، ہمیشہ کے لیے لعین و رجیم ہوگیا۔ انسان حکم عدولیوں پر توبہ کرتا رہتا ہے، اس لیے اشرف المخلوقات ہے۔ کافر اپنے کفر کو دین سمجھتا ہے، اپنی عبرت کو پہنچے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنے ضمیر اور اپنے مزاج کے خلاف عمل کرنا گناہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ گناہ اپنے مزاج کے خلاف عمل کرنے کا نام نہیں، اللہ کے حکم کے خلاف عمل کا نام ہے۔
گناہ اخلاقیات کے حوالے سے نہیں، دین کے حوالے سے ہے۔ اخلاقیات کا دین اور ہے، دین کی اخلاقیات اور!۔
سچ بولنا اخلاقی فریضہ بھی ہے اور دینی بھی، لیکن دین نے ایسی صداقتیں بھی بیان کی ہیں، جو اخلاقی صداقتوں سے بہت مختلف اور ماورا ہیں۔ اللہ، فرشتے، رسول، مابعد اور روح ایسی صداقتیں ہیں جنہیں اخلاقیات سمجھنے سے قاصر ہے۔ اخلاقیات، انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطہ حیات کا نام ہے، اور دین اللہ کے عطا کیے ہوئے ضابطہ حیات کا نام ہے۔ گناہ، اللہ کے فرمان سے انکار کا نام ہے۔
ایک پیغمبر اور اخلاقی مفکر میں فرق صرف یہی ہے کہ پیغمبر کسی اور دنیا کی صداقت بھی بیان کرتا ہے، جبکہ مفکر اِسی دنیا اور اِسی معاشرے کی اصلاح کی بات کرتا ہے۔ اخلاقیات دین کا حصہ ہے، لیکن دینیات، اخلاقیات سے بہت بلند ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دینیات، اخلاقیات اور الٰہیات کے مجموعے کا نام ہے۔
بہرحال توبہ اپنی پسند اور ناپسند کے حوالے سے نہیں۔ یہ اللہ کی پسند اور ناپسند کے حوالے سے ہے۔ ہم اُس شے سے توبہ کرتے ہیں جو ہمارے عمل میں اللہ کی ناپسند کا باعث ہو۔ اس میں برائی بھی شامل ہوسکتی ہے اور وہ عبادت بھی جسے ریا کاری کہا جاتا ہے، اور وہ منافقت بھی جسے فیشن کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ ہمارا ہر وہ عمل جو اللہ کو ناپسند ہو، گناہ ہے۔ اور ایسے عمل سے توبہ کرنا ہی عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
اللہ اور انسان کے مزاج میں بڑا فرق ہے۔ خالق اور مخلوق کے درجات کے علاوہ بھی فرق ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے کسی مُلّا کو دنیا کی خدائی دے دی جائے تو وہ اِس دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں کردے گا۔ کافروں کو نیست و نابود کردے گا، یہودیوں کو فی النار کردے گا، غیر اسلامی معاشروں کو تباہ کردے گا، غرضیکہ اِس دنیا کو اپنے جیسا مسلمان کردے گا۔
یہ انسان کی خدائی ہوگی۔ اللہ کی خدائی وہ ہے، جو ہے۔ اللہ کے ہاں پسندیدہ دین اسلام ہی ہے لیکن کافروں کو پیدا کرنا، انہیں طاقت اور قوت دیتے رہنا، مسلمانوں کی جو حالت ہے اسے خاموشی سے دیکھتے رہنا، اللہ ہی کا کام ہے۔ انسان اور خدا کے عمل میں جو فرق ہے، اس پر غور کرنا چاہیے۔ ہماری جو مرضی اللہ کے سوا ہے، غلطی ہوسکتی ہے اور اس غلطی سے توبہ کرنا لازم ہے۔ ہم اپنے لیے ایک زندگی چاہتے ہیں، ایک انداز کی زندگی۔ اللہ ہمارے لیے ایک زندگی چاہتا ہے، ایک اور انداز کی زندگی۔ اگر ان دونوں میں فرق ہے تو غلطی موجود ہے۔ اللہ کی پسند کے سوا کسی انداز کی زندگی کو پسند کرنا گناہ ہے۔ اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
پیغمبر خطا سے معصوم ہوتا ہے۔ کسی پیغمبر کا استغفار پڑھنا عجب ہے۔ نئے مقامات حاصل ہونے پر پرانے مقامات سے استغفار ہے۔ عروج کی منزل، استغفار اور الحمد کی منزل ہے۔ نئی بلندی کا شکر… اور پہلے درجے پر استغفار۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک مکمل نیک اور وحی الٰہی کے مطابق چلنے والی زندگی کے لیے بھی استغفار کا عمل منشائے الٰہی کے عین مطابق ہے۔ توبہ، اللہ کی رضا کا حصول ہے۔
بار بار غلطی کرنے اور بار بار توبہ کرنے کے بارے میں اکثر پوچھا جاتا ہے۔ اگر انسان کو گناہ سے شرمندگی نہیں، تو توبہ سے کیا شرمندگی! توبہ کا عمل ترک نہ ہونا چاہیے۔ اگر انسان کو موت آجائے، تو اُسے حالتِ گناہ میں نہ آئے، بلکہ حالتِ توبہ میں آئے۔ اور کچھ خبر نہیں موت کس وقت آجائے۔
گناہ کا احساس پیدا ہوجائے تو گناہ سے نفرت ضرور پیدا ہوگی۔ نفرت ہوجائے، تو دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم پیدا ہوگا۔ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ ہی توبہ ہے۔ اللہ کو گواہ بناکر اپنی غلطی پر معذرت اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ، توبہ کہلاتا ہے۔
(”قطرہ قطرہ قلزم“)
بیادِ مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبالؒ اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جِلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔