قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:۔
’’ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کا یہ ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے (بلاتحقیق) اسے کہتا پھرے‘‘۔ (مسلم)۔
’’حضرت عبداللہؓ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔ ”علاج کے اچھے طریقوں میں ناک اور منہ سے دوا ڈالنا، پچھنے لگوانا اور چلنے کی عادت ہے۔‘‘
اس حدیث کا آخری ٹکڑا اس وقت ہمارا موضوع ہے۔ بالعموم شارحین اور مترجمینِ حدیث نے لفظ ’’مشیٔ‘‘ کا ترجمہ جلاب آور اور قبض کشا بیان کیا ہے۔
۔ [دیکھیے: تحفہ الاحوذی170/6۔ فیض القدیر: 660/3]۔
مشئی عربی زبان میں چونکہ چلنے چلانے کو کہتے ہیں، اس لیے دست آور دوائوں کو مشیٔ کہنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ دوا کھانے سے انسان بار بار بیت الخلاء کی جانب چلنے پر مجبور ہوتا ہے، چنانچہ یہ کیفیت پیدا کرنے والی دوا کو مشئی کہہ دیا گیا ہے۔
حضرت اسماء بنتِ عمیسؓ کی ایک حدیث سے بھی یہی معنی حاصل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اسی لفظ کے ذریعے جلاب کی دوا کے بارے میں پوچھا تھا۔ (سنن ترمذی: 2081۔ مسند اسحاق بن راھویہ:2040)۔
لفظ مشئی کے اس مذکورہ مفہوم کو درست جاننے کے باوجود اس لفظ کی لغوی وسعت اور اصلی معنی اپنی جگہ پر قائم ہے اور جسے اختیار کرنے میں قواعدِ لغت کی رو سے کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے پاس کوئی ایسی محکم دلیل ہے جس کے باعث ہم کلامِ نبوی کی معنویت کو کسی ایک مفہوم تک محدود کردیں۔
لفظ مشئی کا مطلب پیدل چلنا تو بالکل واضح ہے، البتہ پیدل چلنے کا بطور علاج استعمال آج کے جدید طرزِ زندگی میں سامنے آیا ہے، اس سے قبل اس جانب توجہ اس لیے نہیں ہوسکی کہ پہلے زمانوں میں پیدل چلنا کوئی انوکھی چیز نہیں تھی، بلکہ زندگی کا ایک عام معمول تھا۔ سواریاں کمیاب اور فاصلے محدود تھے۔ لیکن طویل فاصلوں کے لیے بھی پیدل چلنا کوئی منفرد بات نہیں تھی۔ آج کل کی زندگی میں سائیکل سے لے کر موٹر کار تک سواریوں کی کئی اقسام ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ ان ذرائع کے کثرتِ استعمال سے پیدل چلنا ایک منفرد اور قابلِ ذکر چیز بن گئی ہے۔ عام حالات میں تیز رفتار زندگی کے باعث اور وقت بچانے کی خاطر پیدل چلنا تقریباً متروک ہوتا جارہا ہے، چنانچہ بعض تجربات سے پیدل چلنے کے متعدد فوائد اطباء کے سامنے آئے ہیں اور انہوں نے اسے کئی امراض میں بطور علاج اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے، جن میں قبض کے خاتمے سمیت بدن سے فاضل چربی میں کمی، ذیابیطس پر کنٹرول، بلڈ پریشر میں اعتدال، پُرسکون نیند، دماغی قوت میں اضافہ، مٹاپے کا خاتمہ، امراضِ دل پر قابو اور ہڈیوں اور جوڑوں کی فعالیت کا برقرار رہنا شامل ہیں۔
(خواتین میگزین، صفحہ طب و صحت، 06 مارچ/ 2013ء)
یہ حدیثِ نبوی کا علمی اعجاز ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اوپر سے معانی اور فوائد کی پرتیں اٹھ رہی ہیں اور انسانیت نئے منافع سے روشناس ہورہی ہے۔ پیدل چلنا دراصل ایک جسمانی حرکت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات، نیز شریعت کے فرائض و واجبات میں جسمانی حرکت کے ذریعے ادائیگی کو بہت اہمیت حاصل ہے، اور سخت مجبوری میں بھی اس سے کوئی چھوٹ نہیں دی گئی ہے۔ اسی طرح عبادات کے طبی فوائد کی ساری بحث انہی حرکات و سکنات کے اردگرد گھومتی ہے۔
۔ [حدیثِ نبویؐ اور سائنسی علوم… صفحہ نمبر 39-37]۔