حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا آغاز
اتوار کو باجوڑ میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کے دوران امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ جھوٹ کا اگر ورلڈ کپ ہوتا تو سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان یہ ورلڈ کپ جیت لیتے، موجودہ حکومت میں مدرسہ اور مسجد محفوظ نہیں، معیشت تباہ ہوگئی ہے، حکومت میں صرف چند افراد کے مفادات محفوظ ہیں، جماعت اسلامی ملک میں سودی نظام کے بجائے اسلام کا نظام لانا چاہتی ہے، ہم حکومت مخالف دھرنا دینے کے بعد مولانا فضل الرحمان کی طرح اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس نہیں آئیں گے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے قبائلی عوام کا بہت زیادہ نقصان ہوا، پچھلے الیکشن میں جبر سے عوام کا راستہ روکا گیا جس کی وجہ سے آج عوام کا نقصان ہورہا ہے۔ امریکہ اور بھارت نے الیکشن میں ہماری ہار پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے 22 کروڑ عوام اور قبائلیوں سے دھوکا کیا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں جو ہوتا تھا وہ سلیکٹڈ کی حکومت میں بھی ہورہا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی نے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تباہ کردیا۔ میں سرمایہ داروں کے لیے نہیں بلکہ غریب عوام اور سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کے لیے میدان میں نکل آیا ہوں، میرے ساتھ مافیا نہیں بلکہ دیانت دار اور ایمان دار لوگ ہیں، میں عدالتوں میں انگریز کے نظام کے بجائے قرآن کریم کا نظام دیکھنا چاہتا ہوں، میں اس ملک میں سودی نظام کے بجائے اسلام کا نظام لانا چاہتا ہوں، میں وہ نظام لانا چاہتا ہوں جس میں غریب کسان حکمرانوں سے اپنا حق پوچھ سکے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ فرانس کو جواب دینے کے لیے بہادر قیادت درکار ہے، عمران خان پریشان ہیں کہ عوام کے ساتھ کھڑا ہوا جائے یا امریکہ اور یورپ کے ساتھ؟ ہم چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ہم بہت جلد پشاور اور اسلام آباد کا بھی رخ کریں گے۔ سراج الحق نے کہا کہ پی ڈی ایم کا پی ٹی آئی کے ساتھ اختلاف اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کو دیئے جانے والے دودھ کے فیڈر پر ہے، ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے دباؤ میں جو قوانین بنائے گئے ان میں پی ڈی ایم نے حکومت کا ساتھ دیا، اب وہ کس منہ سے پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت کررہے ہیں؟ سراج الحق نے کہا کہ حکومت کی سونامی گزر گئی، اب آپ عوامی سونامی دیکھیں گے اور آپ کو اسلام آباد میں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اپنا کام کرے ہم اپنا کام کریں گے۔ قیمتوں میں کمی نہیں کرو گے تو ہم آگے بڑھ کر گریبان میں ہاتھ ڈالیں گے۔ کرکٹ کھیلنا کچھ اور کام ہے اور حکومت کرنا کچھ اور کام۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکی نظام کے لیے نہیں اسلامی نظام کے لیے بنا تھا۔ سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سونامی کی وجہ سے آٹا، چینی مہنگے ہوگئے ہیں، روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے، آٹا اور چینی جو ہماری اپنی پیداوار ہیں،کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سونامی کی وجہ سے ہماری قوم بھوکی سوتی ہے، تبدیلی کی اس سونامی سے لوگ شیطان کی طرح پناہ مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں ناموسِ رسالتؐ، شانِ صحابہؓ اور سنتِ رسولؐ محفوظ نہیں۔ میکرون نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، پاکستانی حکمران تمام اسلامی ملکوں کے ساتھ رابطہ کریں اور عالم اسلام فرانس کے سفیروں کو اپنے ملکوں سے نکالے، فرانس کے ساتھ تمام تجارتی معاہدے ختم کیے جائیں اورفرانسیسی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے توہینِ رسالت کی مرتکب آسیہ کو ملک سے فرار کرادیا اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ممتاز قادری کو شہید کیا۔ ایک نے ریمنڈ ڈیوس اور دوسرے نے ابھی نندن کو رہا کیا، حالانکہ آئین و قانون حملہ آور کو رہا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ’اسٹیٹس کو‘ کے نظام کو بدلنا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ باجوڑ کے عوام نے تمام تکلیفوں اور پریشانیوں کے باوجود اسلامی قوتوں کا ساتھ دیا ہے، انہوں نے پرویزمشرف کے ظلم و جبر کو برداشت کیا۔ باجوڑ کے عوام اب موجودہ حکومت کے سوتیلی ماں جیسے سلوک کو برداشت کررہے ہیں۔ باجوڑ بھی اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور کی طرح پاکستان کا حصہ ہے، قبائل کے جذبوں کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں قرآن پڑھنے والے غریب بچے شہید ہوئے تو صدر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نہیں آئے، حکمرانوں کے سینے میں پتھر کا دل ہے۔ پہلے پی پی، نواز لیگ اور اب پی ٹی آئی دور میں بھی لوگوں کو اٹھا کر غائب کردیا جاتا ہے، کراچی میں نقیب اللہ محسود سمیت چار سو انسانوں کے قاتل پولیس افسر کو کسی نے نہیں پوچھا۔ اس حکومت نے حیات اللہ بلوچ کو شہید کیا۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی ناکام ہے، چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے بھی دوریاں بڑھ رہی ہیں، کشمیر کا مسئلہ دب گیا ہے،کشمیر کی آزادی اور ٹیپو سلطان بننے کے دعویدار وزیراعظم نے اقوام متحدہ سے واپس آکر فتویٰ دیا کہ کشمیر کی طرف جانے والے غدار ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ کل تک وزیراعظم قوم کو ریاست مدینہ کے خواب دکھا رہے تھے اور آج کہتے ہیں کہ میں پاکستان میں چائنا کا نظام لانا چاہتا ہوں۔ پاکستان چینی، امریکی یا برطانوی نظام کے لیے نہیں، اسلامی نظام کے لیے بنا ہے۔ وزیراعظم چین، امریکہ یا جہاں جانا چاہتے ہیں چلے جائیں، پاکستان کی جان چھوڑ دیں، حکمرانی بچوں کا نہیں، سنجیدہ لوگوں کا کام ہے۔ وزیراعظم کی سونامی بدنامی بن کر گزر گئی، اب ان کے خلاف عوامی سونامی آئے گی، سونامی سے لوگ شیطان کی طرح پناہ مانگتے ہیں، سونامی کی وجہ سے مہنگائی اور تباہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ہر مشکل میں حکومت کے ساتھ کھڑی رہیں، دونوں سابقہ حکمران پارٹیاں پی ٹی آئی حکومت کی سہولت کار ہیں، FATF کے کہنے پر مساجد اور مدارس کے خلاف قوانین بنانے میں دونوں پارٹیوں نے حکومت کا ساتھ دیا، ان کے درمیان پالیسیوں پر اختلاف نہیں۔ جماعت اسلامی ظلم و جبر اور استحصال کے اس نظام کو بدلنا چاہتی ہے،ہم ملک میں قرآن و سنت کا نظام اور حقیقی جمہوریت کا قیام چاہتے ہیں۔ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ پاکستان چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی نے قومی اداروں کو متنازع بنایا،عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاہے،اب اسلام آباد کی طرف مارچ کا وقت قریب آن پہنچاہے۔جب جماعت اسلامی دھرنا دے گی تومطالبات کی منظوری تک واپس نہیں آئے گی۔ جلسہ عام سے خیبر پختون خواکے امیر سینیٹر مشتاق احمدخان،صاحبزادہ ہارون الرشید،سراج الدین خان اور دیگرقائدینِ جماعت نے بھی خطاب کیا۔
جماعت اسلامی کی جانب سے سولو فلائٹ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک باجوڑ سے شروع کرنے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے حلقوں میں تو کافی جوش اور ولولہ نظر آرہا ہے، البتہ جماعت اسلامی کے مخالف حلقے بالخصوص پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں جماعت اسلامی کی شروع کی جانے والی احتجاجی تحریک کو اپنی عینک سے دیکھ رہی ہیں۔ جماعت کے مخالف حلقوں کا جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک کے خلاف سب سے بڑا اعتراض جہاں اس کا پی ڈی ایم سے اپنی راہیں جدا کرتے ہوئے اپنے زورِ بازو پرتن تہا حکومت مخالف تحریک چلانا ہے، وہیں اس اعتراض کا دوسرا پہلو جماعت کا کسی بڑے شہری علاقے کے بجائے اپنی احتجایج تحریک دور دراز قبائلی علاقے سے شروع کرنا ہے، جس پر جماعت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ایک دوردراز قبائلی ضلع میں جماعت کے احتجاجی جلسہ عام کا فائدہ جماعت کو مقامی سطح پر اپنے کارکنان کو متحرک کرکے اپنی طاقت کے مظاہرے کی شکل میں سیاسی طور پر تو مل سکتا ہے البتہ باجوڑ جیسے دور دراز علاقے میں منعقد کیے جانے والے جلسہ عام کا نہ تو حکومت پرکوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی اس کے ذریعے حکومت پرکوئی دبائو ڈالا جاسکے گا۔ جماعت اسلامی کے ناقدین جماعت کے باجوڑ میں ایک بڑے جلسہ عام کے انعقاد پر تنقید میں کتنے حق بجانب ہیں، اور آیا ان کی اس تنقید میں کتنا دم خم ہے اس کے بارے میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ ان کے پیٹوں میں اٹھنے والے اس مروڑ کا تعلق حکومت کے خلاف کسی دوردراز علاقے میں جلسہ عام کے حق بجانب ہونے یا نہ ہونے سے نہیں ہے بلکہ اعتراضات کی یہ برچھیاں جماعت کی خیبر پختون خوا اور خاص کر ملاکنڈ ڈویژن میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذ اور 2018ء کے عام انتخابات میں اس کی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کی بحالی کے تناظر میں چلائی جارہی ہیں۔ ان حلقوں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ جماعت جس بیانیے کے ساتھ میدان میں نکل آئی ہے اور اس کی جانب سے موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت (موجودہ اپوزیشن) کے خلاف جو چارج شیٹ ان کی ناکام پالیسیوں اور پاکستان کو غربت، مہنگائی، قرضوں اور ناانصافی کی جس دلدل میں دھکیلا گیا ہے کے خلاف عوامی عدالت میں پیش کررہی ہے اس پر حکومت کی پریشانی تو یقیناً قابلِ فہم ہے لیکن اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے اس کی مخالفت میں جو لعن طعن کی جارہی ہے وہ بجائے خود اس بات پر دال ہے کہ اگر جماعت کی شروع کردہ احتجاجی تحریک اسی رفتار سے مقبولیت کے جھنڈے گاڑتی رہی تو آئندہ عام انتخابات میں حکومت سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔ جماعت اسلامی چونکہ برملا حکومت اور اپوزیشن کو ایک ہی سکے کے دورخ قرار دے کر دونوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے قوم کو ان دونوں سے نجات دلانے کا بیانیہ لے کر اٹھی ہے اس لیے پوری قوم نہ صرف جماعت کی جانب متوجہ ہو رہی ہے بلکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ جماعت کے بیانیے کو نئی پذیرائی بھی مل رہی ہے جس کا واضح ثبوت باجوڑ کے جلسہ عام میں بڑے پیمانے پر عوام کی جوق درجوق شرکت ہے۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی اپنی شروع کردہ احتجاجی مہم کے دوران باجوڑ کے بعد8نومبر کو بونیر میں اپنی سیاسی قوت کے مظاہرے کا پہلے ہی سے اعلان کرچکی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ باجوڑ کی نسبت بونیر جماعت کا زیادہ مضبوط سیاسی گڑھ ہے جہاں سے ماضی میں جماعت کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی متعدد نشستوں پر کامیابی ملتی رہی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کی سیاست میں چونکہ بونیر کا ایک خاص مقام ہے اس لیے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر جماعت بونیر میں 8 نومبر کو باجوڑ کی طرح کوئی بڑا پاور شو کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اسے جماعت کے مخالف سیاسی حلقے خاص کر اے این پی اور جمعیت(ف) یقیناً اپنے لیے ایک بڑے سیاسی خطرے کے تناظر میں دیکھیں گے۔ دراصل جماعت کی اس کامیاب حکمت عملی اور اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز اپنے مخصوص سیاسی پاکٹس سے کرنے کے پیچھے اگر ایک طرف ان پاکٹس میں اپنی افرادی قوت کو فعال اور متحرک کرنا ہے تو دوسری جانب جماعت اپنی ان سرگرمیوں کے ذریعے مقامی آبادی کو متحرک کرکے ان اضلاع کے ووٹرز کو بڑے پیمانے پر اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی ہے، جس کا نتیجہ یقیناً جماعت کے حق میں آئندہ انتخابات میں برآمد ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی جماعت سے زیادہ اپوزیشن کی جماعتیں جماعت اسلامی کی شروع کردہ احتجاجی تحریک پر نہ صرف ناک بھوں چڑھا رہی ہیں بلکہ حکومت سے زیادہ جماعت اسلامی کو اپنی تنقید کے نشتروں کی زد میں لیے ہوئے ہیں۔ جماعت اپنی شروع کردہ احتجاجی تحریک کے ثمرات کس شکل میں اور کس حد تک سمیٹ پائے گی گو اس حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ یہ بات یقینی ہے کہ اس کا دارومدار ملک کے آئندہ دو تین ماہ میں بننے والے سیاسی منظرنامے پر ہوگا، لیکن اس حوالے سے کم از کم یہ بات واضح ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں جماعت کچھ کھوئے گی ہرگز نہیں بلکہ ہر زاویہ نگاہ اور نقطہ نظر سے وہ فائدے ہی میں رہے گی، اور یہی وہ اصل غم ہے جس میں اپوزیشن جماعتیں گھل رہی ہیں۔