صدارتی انتخابات اورامریکہ سعودی عرب تعلقات

امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار اور سابق نائب صدر جوزف بائیڈن کے حوالے سے سعودی باشندوں میں تھوڑا تجسس پایا جاتا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر وہ امریکا کے صدر بنے تو سعودی عرب کے حوالے سے ان کی بنیادی پالیسیاں کیا ہوںگی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو گویا فری پاس ملا ہوا تھا، لیکن اگر آئندہ ماہ کے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار جوزف بائیڈن فتح یاب ہوئے یعنی امریکا کے صدر بنے تو محمد بن سلمان کو امریکا سے تعلقات کے حوالے سے غیر معمولی احتیاط کا دامن تھامنا پڑے گا۔ یمن میں جاری جنگ کے علاوہ سعودی عرب کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی سعودی امریکا تعلقات پر بہت حد تک اثر انداز ہوگا۔ واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور سعودی عرب میں خواتین سیاسی کارکنوں کا حراست میں لیا جانا بھی دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔
سعودی عرب نے ایران کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی دباؤ جاری رکھنے کی مہم کو جاری رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کے بیلیسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے اور ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے کے احیاء کی بات چیت آگے بڑھانے کے لیے ڈیموکریٹ صدر (اگر جیت گئے تو) کیا اقدامات کرتے ہیں۔ امریکا اس معاہدے سے 2018 میں الگ ہوگیا تھا۔ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات عشروں پر محیط ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے خلیجی حلیف چاہیں گے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوں کیونکہ انہوں نے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے کوئی خاص اعتراض نہیں کیا تھا۔ باخبر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر جو بائیڈن جیتے تو وہ سعودی عرب سے تعلقات یا اتحاد کو ختم کرنے کی طرف تو خیر نہیں جائیں گے تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ امریکا کی طرف سے بھرپور حمایت اور مدد جاری رکھنے کے حوالے سے چند شرائط بھی ضرور عائد کریں گے۔ خلیج کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ چند ایک بڑے چیلنج ضرور درپیش ہوں گے تاہم دونوں ممالک کے درمیان اداروں کی سطح پر اسٹریٹجک تعلقات استوار ہیں اس لیے کوئی بھی نہ چاہے گا کہ تعلقات داؤ پر لگیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ جو بائیڈن کی سربراہی میں ڈیموکریٹ انتظامیہ چند ایک معاملات پر واضح سمجھوتا چاہے گی۔
خلیج کے خطے میں ایک بیرونی سفارتی ذریعے کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے انتخاب کی صورت میں امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پر غیر معمولی اثر پڑے گا کیونکہ جو بائیڈن بنیادی حقوق اور چند دوسرے معاملات میں سعودی قیادت سے اہم اقدامات اور رعایتوں کے طالب ہوں گے۔ انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ بعض معاملات میں سعودی عرب سے غیر معمولی تفتیش کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں جمال خاشقجی کے قتل کی زیادہ واضح تحقیقات کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ امریکا یمن میں جاری جنگ سے ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔
ایک اور سفارتی ذریعے کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دنیا بھر میں مطلق العنان حکمرانوں کو بلینک چیک دیا گیا یعنی انہیں کچھ بھی کر گزرنے کی آزادی میسر تھی مگر جو بائیڈن یقیناً ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ وہ ممکنہ طور پر دشمنوں اور دوستوں سے یکساں طور پر چاہیں گے کہ وہ بنیادی حقوق کی پاس داری کریں۔ جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے ایک ترجمان نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ جو بائیڈن دنیا بھر میں جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر زور دیں گے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی طاقت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ یقینی بنانے کے لیے مخالفین کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ خاندان میں جو بھی انہیں اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا اسے راستے ہٹادیا گیا ہے۔ جب وہ منظر عام پر آئے تھے تب ایسا لگتا تھا کہ سعودی عرب میں اصلاحات کا دور شروع ہوگا اور اب ایک نیا سعودی عرب سامنے آئے گا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر ناپید سا ہوتا جارہا ہے۔
محمد بن سلمان نے ابتداء میں یہ کہا تھا کہ انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا مگر جب دنیا بھر میں ان پر تنقید ہوئی اور سعودی عرب کی معیشت بھی متاثر ہوئی تب محمد بن سلمان نے 2019 میں اتنا ضرور کہا کہ یہ قتل چونکہ اُن کے اقتدار میں رہتے ہوئے ہوا ہے اس لیے وہ ذمہ داری سے مکمل طور پر انکاری نہیں ہوسکتے۔ جمال خاشقجی کے قتل کی پاداش میں سعودی عرب نے آٹھ افراد کو سات سے بیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر قانون نے حال ہی میں ایک ویبنار میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں نظامِ انصاف کی بھی اصلاح کی جارہی ہے تاکہ آئندہ اس نوعیت کا کوئی قتل نہ ہو۔
مغربی حکومتوں اور میڈیا کی جانب سے سعودی عرب میں بنیادی حقوق کی کارکنوں کو حراست میں رکھے جانے پر کی جانے والی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے سعودی وزیر قانون شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ یہ تنقید سنگین نوعیت کی ہے۔ خواتین کارکنان کو حراست میں ضرور لیا گیا ہے تاہم ان میں چند ایک ہی کے بارے میں الزامات عوام تک آسکے ہیں۔ ان پر غیر ملکی سفارت کاروں، میڈیا کے نمائندوں اور تنظیموں سے روابط رکھنے اور ملک کے خلاف جانے کا الزام ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بنیادی حقوق کو بہانہ بناکر سعودی عرب کے خلاف انتہائی نوعیت کے اقدامات اور پابندیوں کی مخالفت کی ہے تاہم اپریل میں انہوں نے سعودی عرب کے لیے عسکری حمایت امداد روکنے کا انتباہ کیا۔ اگست 2019 میں سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکاخاشقجی نے سعودی عرب کا دفاع یقینی بنانے کے حوالے سے غیر معمولی پیش رفت کی تھی تاہم بعد میں سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی جنگ چھڑگئی جس نے تیل کی عالمی منڈی کو خطرناک حد تک متاثر کیا۔ اس چپقلش سے امریکا میں تیل کی صنعت بھی خطرات سے دوچار ہوگئی تھی۔
شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے یہ بھی کہا ہے کہ دنیا کچھ بھی کہے یا اندازے لگاتی رہے، سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کسی بادشاہ یا صدر کے ہونے نہ ہونے پر منحصر نہیں۔
سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادیوں نے 2015 میں ایران سے بین الاقوامی جوہری معاہدے اور اس سے قبل عرب دنیا میں بیداری کی لہر ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے حوالے سے اوباما انتظامیہ سے شدید اختلافِ رائے کیا تھا۔ انہوں نے واشنگٹن پر روایتی حلیفوں کو نظر انداز کرنے اور اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سرکاری میڈیا نے حال ہی میں سابق امریکی خاتون اول و سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور اخوان المسلمون کے درمیان ای میلنگ کا انکشاف کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ڈیموکریٹس کی ایک بڑی غلطی تھی اور ایسی ہی غلطی وہ دوبارہ بھی کرسکتے ہیں۔
ریاض میں قائم گلف ریسرچ سینٹر کے عبدالعزیز سجر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ اگر جو بائیڈن صدر منتخب ہوگئے تو امریکا مشرقِ وسطٰی پر خاطر خواہ توجہ دینا چھوڑ دے گا۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب سمیت پورے خطے کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہو کہ جو بائیڈن صدر بنے تو سعودی عرب اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے حوالے سے امریکا کی پالیسی کیا ہوگی۔ خلیجی ریاستیں امریکا سے دفاعی ساز و سامان کے معاہدوں کو تیزی سے حتمی شکل دینا چاہتی ہیں۔ یو اے ای اور قطر کو امریکا سے F-35 لڑاکا طیارے چاہئیں۔
متحدہ عرب امارات نے معاملات درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے یمن میں اپنے آپ کو سمیٹا ہے۔ دوسری طرف وہ ربع صدی کے دوران پہلا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل سے معمول کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ ایسا کرکے اس نے ایران اور اس کے ہم خیال ممالک کے خلاف ایک ایسا گٹھ جوڑ قائم کرنے کی طرف پیش رفت کی ہے جسے وہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یو اے ای کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کو قابلِ قبول بنانے سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو بارآور بناکر ان کے لیے انتخابی مہم میں قدرے آسانی پیدا کی ہے۔
ایک اور اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا پر ہر حال میں بھروسا نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ اسرائیل فطری پارٹنر ہے۔ سعودی کالم نویس محمد الشیخ نے الجزیرہ کے لیے ایک کالم میں لکھا ہے کہ یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اور سفارتی تعلقات قائم کرکے ایک ایسی نئی حقیقت کو جنم دیا ہے جسے ایران کے حوالے سے نظر انداز کرنا اب امریکا کے لیے ممکن نہیں رہا۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر گزشتہ برس اگست میں ہونے والے حملوں پر امریکا نے غیر معمولی تشویش ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ اس اپنے خلاف حملے کے طور پر دیکھ رہا ہے مگر خیر، ایران پر بہت زیادہ شک کرنے کے باوجود اس کے خلاف کسی فوجی اقدام کی راہ ہموار نہ ہوسکی۔ جنگ کو ٹالنے سے متعلق امریکا اور یورپ کی کوششوں کو خلیج میں پوری توجہ سے دیکھا گیا۔
سعودی عرب نے یو اے ای اور بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مجموعی طور پر خاموش خیر مقدم کیا ہے تاہم وہ خود ایسا کرنے سے مجتنب رہا ہے کیونکہ وہ حرمین شریفین کا پاسبان و سرپرست ہے۔ اس نے 2002 میں اسرائیل کو فلسطین کے لیے ریاست کے درجے کے عوض معمول کے تعلقات کی پیش کش کی تھی۔ ریاض میں امریکی سفارت خانے کے سابق چیف آف دی مشن ڈیوڈ رنڈل کہتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات تک سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سمت نہیں بڑھ سکتا۔ وہ تمام معاملات کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور کوئی بھی قدم غیر معمولی احتیاط کے ساتھ اٹھائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے دباؤ ڈالے جانے پر سعودی عرب اور قطر باہمی اختلافات اور کشیدگی ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ پھر جیت گئے تو سعودی عرب خلیجی حلیفوں کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف محاذ کھڑا کرسکتا ہے۔