عین ممکن ہے کہ ماہِ رواں کے آخر تک حکومت اور اپوزیشن اتحاد مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانے کا کوئی فیصلہ کریں
ملک میں آج تک کی سیاسی صورت حال ایسی نہیں کہ اسے کسی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکے، تاہم حالات ریت کی طرح حکومت کی مٹھی سے نکل رہے ہیں۔ بلاشبہ اپوزیشن اتحاد اپنے بیانیے کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکومت کو پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں چیلنج دے چکا ہے، اپوزیشن اتحاد اس لیے کامیاب نظر آرہا ہے کہ حکومت کے پَلّے کچھ نہیں ہے، اپوزیشن سمجھتی ہے کہ پشاور کا جلسہ سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ اس رائے میں وزن ہے، کیونکہ وزیراعظم عمران خان اگرچہ پنجاب سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں، تاہم وہ کے پی کے کو اپنا بیس کیمپ سمجھتے ہیں، لہٰذا پشاور کا جلسہ اسی لیے کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔ اس جلسے کی تیاری کے لیے پی ڈی ایم نے اپنا سربراہی اجلاس 8 نومبر کو طلب کیا ہے اور دو روز کے بعد جے یو آئی کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہوگا، یہ دونوں اجلاس مستقبل کے لیے اپوزیشن اتحاد کی سیاست کا رخ بھی متعین کریں گے۔ یہاں ہمارے سامنے دو راستے ہیں، ایک تلخی بڑھنے کا اور دوسرا بات چیت کا۔ عین ممکن ہے کہ ماہِ رواں کے آخر تک حکومت اور اپوزیشن اتحاد مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانے کا کوئی فیصلہ کریں، اور اُس وقت تک امریکی صدارتی انتخاب کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ صدارتی انتخاب کے نتائج آجانے کے بعد سیاسی شطرنج کی بساط نئے سرے سے بچھائی جاسکتی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن پر دبائو بڑھانے کے لیے اپنی طے شدہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، نوازشریف کی وطن واپسی کی کوشش کا دعویٰ دبائو بڑھانے کا ہی حربہ ہے۔ حکومت کو یہ معاملہ مقامی سیاسی ضرورت نہیں بلکہ برطانیہ کے قانون کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ برطانیہ حتمی طور پر اس بات کی وضاحت کرچکا ہے کہ وہ ’’ملزموں کی حوالگی پر کبھی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا جس میں سیاسی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات کا شائبہ ہو‘‘۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین اب ملزموں کی حوالگی کا معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ کبھی تھا، حکومت اصل صورتِ حال سے آگاہ ہے ۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین ایک معاہدہ تھا کہ اگر کسی پاکستانی کو برطانیہ میں سزا ہوئی ہو تو اسے بقیہ سزا جیل میں بھگتنے کے لیے پاکستان بھجوا دیا جاتا تھا، تاہم یہاں سفارش اور رشوت کی وجہ سے ایسے ملزموں کی رہائی کے واقعات ہوئے تو برطانیہ نے یہ معاہدہ بھی ختم کردیا تھا ، لیکن نوازشریف حکومت کی کوششوں سے یہ معاہدہ دوبارہ کرلیا گیا تھا۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں نوازشریف کو پاکستان لانے کی بحث لاحاصل ہے۔ حکومت کا اصل امتحان گڈ گورننس ہے جس میں یہ ناکام ہوچکی ہے۔ بلاشبہ اس وقت ملک میںگورننس کا شدید بحران ہے… مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی صوبائی حکومتوں کی اہلیت کھول کھول کر بیان کررہی ہے۔ کابینہ میں وزراء نے مؤقف اپنایا کہ قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی ذمہ دار بیوروکریسی ہے۔ کابینہ کے اس اجلاس میں ہی وزرا کو اس کا جواب بھی مل گیا، ایک بیوروکریٹ نے ادھار اسی وقت چکایا اور کابینہ میں کھل کر بات کی، اور گند حکومت کی گڈ گورننس کے کورٹ میں پھینک دی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک بیوروکریسی اعتماد کے ساتھ کام نہیں کرسکی، اسے اکھاڑ پچھاڑ کا سامنا ہے، احتساب بیورو نے انہیں خوف زدہ کرر کھا ہے، کوئی افسر فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں، دستخط سے قبل وہ ہزار بار سوچتا ہے۔ کسی بھی ملک کی بیوروکریسی اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، ایمان دار اور انتظامی امور کی ماہر بیوروکریسی کسی ملک کے لیے ترقی کی علامت ہوتی ہے۔ حکومت کو صائب اور بروقت مشاورت اسی کو دینا ہوتی ہے، بلکہ یہ بات اس کے فرائض میں شامل ہے۔ بطور ادارہ بھی بیوروکریسی کو دوام حاصل رہتا ہے، حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ ملکی بیوروکریسی کی اپنی ایک تاریخ ہے، ہمیں قیام پاکستان سے لے کر ایوب خان تک بہترین دماغ ملے، ایوب خان ہی کے دور میں بیوروکریسی زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی، اور خوشامد، خاندانی اثر رسوخ، شہرت، سفارش نے میرٹ کی جگہ لے لی۔ ملکی سول سروس پر پہلا وار ایوب خان نے کیا، دوسرا یحییٰ خان نے، اور تیسرا وار بھٹو نے کیا۔ ان تینوں ادوار میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار بیوروکریٹ گھر بھیجے گئے، اور سول سروس کی آئینی ضمانت ختم کردی گئی۔ اس کے بعد خوشامد سول سرونٹ کے مزاج کا حصہ بننے لگی۔ ہر کوئی اپنی بقا کے لیے چھتری تلاش کرنے لگا۔ ترقی پانے اور تنزلی، تبادلے سے بچنے کے لیے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹس لکھی جانے لگیں۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ سول سرونٹ کی صلاحیت و اہلیت بھی کم ہوتی چلی گئی۔ اب سب تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہورہی ہیں، پنجاب میں دو سال میں پانچ آئی جی پولیس تبدیل کیے گئے ہیں۔ جس افسرکو آٹے کی بلیک میلنگ کی وجہ سے تبدیل کیا گیا اسی ہفتے اُسے دوبارہ لگا دیا گیا ہے۔ نسیم صادق پنجاب سول سروس کے بہت باصلاحیت، ایمان دار اور نیک نام افسر ہیں۔ گندم کے بحران کے آخری دنوں میں لاہور میں سیکرٹری فوڈ تھے، سارا ملبہ اُن پر ڈال دیا گیا، حالانکہ سب کیا دھرا اُن کے پیشرو کا تھا۔ نسیم صادق نے آٹے کے بحران پر جو رپورٹ لکھی اُس میں آٹا مافیا اور سرکاری نظامِ خرید اور تقسیم کے بخیے ادھیڑ دیئے۔ یہ نڈر اور نیک نام افسر آج کل OSD ہے اور مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی ایمان دار اور نیک نام افسر کام کرنے کو تیار نہیں ہے، مرکز میں بھی یہی حالات ہیں۔ وزارتِ خارجہ میں اس وقت ہنگامہ مچا ہوا ہے کہ نوازشریف حکومت کو ہر حال میں نیب کے سپرد کرنے کا تہیہ ہے اور ایک سابق سیکرٹری خارجہ کے خلاف ایک ایسا کیس سامنے لایا جارہا ہے جس کے بعد بیوروکریسی کا یہ شعبہ بھی شکنجے میں آجائے گا۔
اسلام آباد میں ان دنوں بہت کچھ کہا اور سوچا جارہا ہے ، عین ممکن ہے کہ پنجاب کی طرح وفاقی کابینہ میں بھی اکھاڑ پچھاڑ ہوجائے۔ حکومت کی معاشی ٹیم میں بھی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ حکومت کو فنانس کے لیے ایک نئے گوہر نایاب کی تلاش ہے، جسے معیشت کی درستی کے لیے جوہری اختیارات دیے جائیں گے۔ حالات اس قدر گمبھیر ہیں کہ اگر دو ماہ خیریت سے گزر گئے تو ٹھیک، ورنہ سب کچھ لپٹ سکتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے آج کل سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے، اب تک تین بڑے جلسے ہوچکے ہیں، اور ان جلسوں میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ تاہم کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں اویس نورانی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کردیا۔ اویس نورانی نے اپنے اس ایکٹ پر معافی مانگتے ہوئے غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ ’’سلپ آف ٹنگ‘‘ تھا۔ اسی موضوع پر قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے اختر جان مینگل نے اپنا حصہ ڈالا کہ اگر ایسی باتوں پر سزا دینی ہے تو پھر وزیراعظم عمران خان کو سب سے پہلے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے کیونکہ جب لندن میں یوکے کی عدالتوں میں حیربیار مری پر دہشت گردی اور غداری کے علاوہ آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے کا کیس چل رہا تھا تو اُس وقت ان کی بے گناہی کے لیے آج کے وزیراعظم عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے حیربیار مری کے حق میں گواہی دی تھی کہ یہ بے گناہ ہے اور حق کی آواز بلند کررہا ہے۔ اگر حیربیار مری کی جگہ میں عمران خان ہوتا تو میں بھی یہی کرتا، کیونکہ یہ آوازیں اُن مظالم کا نتیجہ ہیں جو ان پر کیے جاتے ہیں۔
ایاز صادق کیس سے لے کر فواد چودھری کے بیان تک، سب کچھ ’’سلپ آف ٹنگ‘‘ قرار دیا جارہا ہے، لیکن ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ کا اصول کسی بھی سطح پر نظر نہیں آرہا، ہر جانب اپنے اپنے بیانیے کی دوڑ ہے، کوئی نہیں سوچ رہا کہ ملک کس بحران میں گھرا ہوا ہے۔ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اور خصوصاً اس خطے میں پاکستان کے لیے بہت حساس صورتِ حال ہے، ہمیں ایک جانب بھارت، دوسری جانب افغانستان اور تیسری جانب امریکہ سے خطرناک حد تک چیلنج درپیش ہے، امریکہ اور بھارت نے مل کر یہاں ایسی سرمایہ کاری کی ہے جس کے ذریعے ان کو اس خطے میں پاکستان کے طے شدہ تزویراتی اہداف کی راہ روکنا آسان بنا ہوا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ملکی سیاست میں سیاسی اختلافات ایک حد میں رہیں اور یہی ہماری داخلی سالمیت کی ضمانت ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں اس خطے پر توجہ دی، کابل سے اپنی فوج کا انخلاء کرایا، اس کے لیے اسلام آباد سے مدد لی، اور اس کے بدلے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد کا وعدہ کیا، ساتھ ہی امریکہ دبائو میں لانے کے لیے بھارت کو شہہ بھی دیتا رہا، اسی شہہ کے نتیجے میں اس نے پانچ اگست کو اقدام اٹھایا۔ دنیا کے کسی بھی سیاسی رہنماء کا امتحان لینا ہو تو اُسے اعصابی طور پر آزمایا جاتا ہے، اور اس کی ذہنی اپروچ سامنے رکھی جاتی ہے۔ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف ہماری حکومت پیشگی اقدام کرسکی اور نہ عوامی جذبات کے مطابق درست ردعمل دے سکی، وجہ صرف یہ تھی کہ اسلام آباد کو صدر ٹرمپ سے کچھ امیدیں وابستہ تھیں، مگر اب حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ماضی کی طرح پاکستان کو استعمال کرنے والے صدر ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ وقت نہایت تحمل سے گزارنا ہوگا، لیکن حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کی کارکردگی ناقص رہی۔حزبِ اختلاف نے امریکی انتخابات، اور حکومت کی ناقص کارکردگی کے گرم لوہے پر ضرب لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اتحاد تشکیل دیا۔ حزبِ اختلاف کے اتحاد نے بلاشبہ کامیاب جلسے کیے، تاہم نوازشریف کے جارحانہ بیانات اپوزیشن کے لیے عوامی حمایت برقرار رکھنے اور اسے بڑھانے میں مددگار ہونے کے بجائے رکاوٹ بن سکتے ہیں، البتہ وہ عالمی قوت جو ملک کی سالمیت کے ذمہ دار اداروں کو دبائو میں رکھنا چاہتی ہے، اسے ضرور یہ موقع ملے گا کہ وہ متحرک حزبِ اختلاف کو تھپکی دے، لیکن راولپنڈی میں بھی ایک فیصلہ ہوا ہے کہ ملک میں اقتدار کے لیے وہی اہل ہوگا جو پیا من بھائے گا۔ پیپلزپارٹی کے لیے بھی یہی سبق ہے۔ آصف علی زرداری سیانے نکلے ہیں، وہ یہ پھنکار سمجھ چکے ہیں، اسی لیے انہوں نے بلاول کو گلگت بھیج دیا جہاں انہیں گلگت بلتستان کی چوبیس نشستوں میں سے چھ یا سات نشستیں دے کر وہاںکی مخلوط حکومت میں شامل کرایا جائے گا۔
مولانا سمیع الحق کی دوسری برسی کی تقریب:سینیٹر سراج الحق کا خطاب
جمعیت علمائے اسلام (س) کے مقتول سربراہ مولانا سمیع الحق کی دوسری برسی کی تقریب ہوئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق سمیت متعدد رہنماء شریک ہوئے۔ سینیٹر سراج الحق نے برسی کی تقریب سے خطاب کیا اور کچھ سوال اٹھائے کہ علماء اور سیاسی قائدین کو شہید کردیا جاتا ہے مگر ان کے قاتل نہیں ملتے، مولانا سمیع الحق کی شہادت کو 2سال ہوگئے لیکن تحریک انصاف کی حکومت آج تک قاتلوں کو نہیں پکڑ سکی۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر آج تک کئی رہنماء قتل ہوئے لیکن ان کے قاتل نہیں پکڑے گئے، وزیراعظم عمران خان خود کہتے تھے کہ جب تک کسی کے قاتلوں کا پتا نہ چلے تو اس کی حکومت ہی ذمہ دار ہوتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا اختلاف اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیئے جانے والے فیڈر پر ہے۔ مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگا کر اب چین اور امریکہ کے نظام کی باتیں ہورہی ہیں۔ وزیراعظم کا بیانیہ لوگ مسترد کرچکے ہیں۔ میڈیا نے تین بڑی پارٹیوں کے منہ سے پردہ ہٹایا ہے۔ ملک کی تینوں بڑی پارٹیاں اپنی اپنی باریوں کے انتظار میں ہیں۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ گلگت اور کشمیر کے عوام آزاد ہیں، اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا انہیں اختیار ہے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام اپنے فیصلے خود کریں گے۔ بہتر ہوتا کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتی۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت کسی مینڈیٹ کے بغیر اقدامات کررہی ہے۔ کشمیر اور گلگت کو صوبہ بنانے کا حق وہاں کے عوام کو ملنا چاہیے۔ عمران خان حکومت کی پالیسیوں نے مقبوضہ کشمیر کو انڈیا کے لیے تر نوالہ بنادیا ہے۔ ملک دشمن سازشوں کا سرغنہ انڈیا ہے۔ انڈیا کسی صورت نہیں چاہتا کہ پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہو۔ وہ افغانستان میں انارکی پھیلا رہا ہے، جبکہ ہمارے وزیراعظم اپنی الیکشن مہم میں مودی کی کامیابی کی دعائیں کرتے رہے۔ آج حکومت آئی ایم ایف کے سامنے جھک گئی ہے۔ عوام حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ حکومت مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ملک معاشی طور پر آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہا ہے اور وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم نے معیشت کو سنبھال لیا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوںکی حفاظت وہی کرسکتے ہیں جو اس کے نظریے پر ایمان رکھتے ہوں۔ قوم نے 73سال میں طرح طرح کے رنگ کے جھنڈوں اور لوگوں کو آزمالیا ہے، سب نے ان کی امیدوں اور آرزوئوں کا خون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا مستقبل لا الٰہ الا اللہ کے نظام سے ہی محفوظ ہوسکتا ہے۔ قوم کو پوری دلجمعی سے اس نظام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے حکومتی رابطہ
وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور قانون دان سینیٹر بابر اعوان نے وقفہ سوالات کے دوران سینیٹ کے ایوان میں بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی رحم کی اپیل پر دستخط کردیے ہیں۔ سینیٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ رحم کی اپیل امریکی صدر کو بھجوائی جائے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فون کے ذریعے سفارت خانے سے رابطے کی سہولت فراہم کی گئی تھی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ای میل کی سہولت بھی تھی، ان کے فیملی سے رابطے سے آگاہ نہیں۔ سینیٹ کو آگاہ کیا گیا کہ عافیہ صدیقی کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا ہے،ڈاکٹر عافیہ صدیقی ملاقات کے دوران بات چیت میں چوکنا تھیں،ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ ماہر نفسیات نے ان کا حال میں ہی معائنہ کیا تھا،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ماہر نفسیات نے ذہنی حوالے سے صحت مند قرار دیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹرسراج الحق نے اظہارِ خیال کیا کہ عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے حکومتی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں،عافیہ صدیقی کی واپسی کی کوششوں کی نگرانی کے لیے ارکانِ سینیٹ کا وفد امریکہ جائے گا۔ جس کے جواب میں مشیربابر اعوان نے کہاکہ حکومت ٹیلی فون پر عافیہ صدیقی کی اُن کے اہلِ خانہ سے بات چیت کی سہولت کے انتظام کے لیے تیار ہے، ارکانِ سینیٹ اپنے خرچ پر امریکہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔