برصغیر اور اردو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی نعتیہ کتاب
برصغیر پاک و ہند میں میلاد ناموں کی تاریخ بڑی طویل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت اور آپؐ کی سیرتِ طیبہ پر منظوم کلام عربی، فارسی، سنسکرت، بنگالی، مراٹھی، سندھی، پشتو، پوربی و برصغیر کی علاقائی زبانوں کے علاوہ اب دنیا کی ہر زبان کے ادب میں موجود ہے۔ برصغیر کی تہذیبی ثقافت، یہاں کے سماجی رویّے، معاشرتی اقدار اور رہن سہن کے تناظر میں اردو میں متعدد میلاد نامے لکھے گئے، جن میں ’’مولود سعدی‘‘، ’’میلاد محمود‘‘، ’’میلاد نامہ‘‘، ’’میلادِ گوہر‘‘ اور ’’میلادِ اکبر‘‘ معروف ہیں۔ ان میلاد ناموں میں جو پذیرائی اور قبولیت ’’میلادِ اکبر‘‘ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور میلاد نامے کے حصے میں نہیں آئی۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق اردو میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا سلام
’’یا نبی سلام علیک، یا رسول سلام علیک‘‘
’’میلادِ اکبر‘‘ میں درج اکبر وارثی کا ہے۔ اکبر وارثی کے کئی اور نعتیہ مجموعے بھی موجود ہیں۔ 1955ء میں آپ کا انتقال کراچی میں ہوا، میوہ شاہ قبرستان میں خانقاہِ وارثیہ کے عقب میں مدفون ہیں۔
برصغیر کے گھرانوں میں خصوصاً خواتین کی محافل میں ’’میلادِ اکبر‘‘ ترنم سے پڑھا جاتا ہے اور اس کا ایک مخصوص لحن ہے جو برسوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے، ایسی ہی ایک محفل کا احوال:۔
روشن لمحے، سنہری یادیں
گھر کے کچے صحن میں بچھی دریوں پہ سفید چاندنیاں، سرخ و سبز گائو تکیوں پہ کشیدہ کاری کے بڑے بڑے پھول، اگردان میں سلگتی، مہکتی اگربتیاں، گلدان میں سجے تازہ گلاب، تھال میں رکھے بڑے بڑے سفید بتاشے اور کیوڑہ ملے آبِ سادہ سے بھرے نقشین کٹورے رات کو ہنڈوں کی روشنی میں نور بھرے دکھائی دیتے۔ گھر میں یہ اہتمام ’’میلادِ اکبر‘‘ کے انعقاد کے موقع پر کیا جاتا۔ محلے کے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی خاتون اپنے کسی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی کے ساتھ سر ڈھانپے محفل میں ضرور حاضر ہوتی۔ خالہ بی محلے کی خوش الحان شخصیت ہونے کے ناتے چوکی پر درمیان میں تشریف فرما ہوتیں۔ خالہ بی کی خوش الحانی، اللہ اللہ، پڑھو مومنو درود پڑھو، درود سے کبھی غافل نہ ہو، درود پڑھو، صل علیٰ نبینا صل علیٰ محمد… درود و سلام سے گونجتی، خوشبو سے مہکتی فضا میں عشا کی نماز کے بعد ’’میلادِ اکبر‘‘ شروع ہوتا:۔
کس سے توحید کبریا ہو رقم
سر قلم ہیں یہاں قلم کے قلم
فرش سے تا بہ عالمِ بالا
غل ہے سبحان رب العالیٰ
روح قالب میں ڈالنے والا
دامِ غم سے نکالنے والا
بیٹھو آ کر ادب سے یہاں
جہاں اکبرؔ درود ہوتا ہے
رحمتوں کا ورود ہوتا ہے
میں ماں کے پلو سے سر ڈھانپے خالہ بی کے منہ سے جھڑتے مدح کے پھول چنتا رہتا اور انتظار کرتا، خالہ بی کب پڑھیں گی جب میں خوشبو، پھولوں، رنگوں کی سرسبز دنیا میں کھو جائوں گا۔ انتظار جلد ختم ہوتا اور خالہ بی ’’میلاد اکبر‘‘ کی اس منزل پہ آجاتیں:۔
آمدِ مصطفیؐ سے ہے پھولا پھلا چمن چمن
آئی بہار ہر طرف کھلنے لگا چمن چمن
شادی ہے ہر مقام میں نخل ہیں سب قیام میں
ڈالیاں سلام میں، سر ہے جھکا چمن چمن
خالہ بی کی خوش الحانی کانوں میں رس گھولتی، میرا سر ماں کے زانو پر ڈھلک جاتا، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا۔ رنگے برنگے پھول، فوارے۔ میں ڈھلواں سطح پہ بنی پتلی پتلی کیاریوں میں لگے بیلے کے خوشبودار پودوں کے درمیان دوڑتا رہتا۔ خالہ بی کی مدح اس وادیٔ رنگ و نور میں گونجتی رہتی:۔
آئی بہار ہر طرف کھلنے لگا چمن چمن
میلادِ اکبر میں یہ ساعت میرے لیے نہایت اہم ہوگئی، جب پڑھنے کی منزل میں داخل ہوا۔ خالہ بی پھولوں کے دیس جاچکی تھیں، گھر کا صحن پختہ ہوگیا تھا اور اسے کئی دیواروں نے تقسیم کردیا تھا۔ روایتوں نے سسکیاں لینی شروع کردی تھیں، دن جلدی اور راتیں تیزی سے گزرنے لگیں، میلاد شریف گھر کے صحن سے محلے کی کشادہ جگہ منتقل ہوگیا، لوگ مولوی صاحبان کے جوشِ خطابت سے مستفید ہونے لگے، میری پسندیدہ کتاب نعت خواں اصحاب میں منتخب اشعار کی صورت رہ گئی، میرے پھول، تتلیاں، رنگ دھندلانے لگے۔
ایک دن مجھے جزدان میں لپٹی چند کتابوں میں سے ایک کتاب ملی جس میں بھینی بھینی خوشبو مہک رہی تھی، میں نے بڑے شوق سے پڑھنا شروع کی اور جلد ہی یہ منزل آگئی:۔
بادِ خزاں کو چھانٹتی خوشبو سے سب کو آنٹتی
پھرتی ہے عطر بانٹتی بادِ صبا چمن چمن
نعت میں قیل و قال ہو، مدحتِ ذوالجلال ہو
اکبرؔ خوش مقال ہو، نغمہ سرا چمن چمن
آئی بہار ہر طرف کھلنے لگا چمن چمن
کتاب میرے ہاتھ سے کس نے لی مجھے یاد نہیں۔ خوشبو، پھولوں، تتلیوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ اکبر وارثی سے یہ پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے، میں گاہِ بگاہ ’’میلادِ اکبر‘‘ کے توسط سے آپ سے فیض یاب ہوتا رہتا ہوں۔