ملکیت زمین کا قانون یا ’’کشمیر برائے فروخت‘‘ کا اشتہار؟۔

قانون کا اصل مقصد کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے

بھارتی حکومت نے کشمیر کے ملکیتِ زمین کے قانون ’’جموں و کشمیر لینڈ ریونیو ایکٹ 1996‘‘ میں ترمیم کرکے سرمایہ داروں، ساہوکاروں اور جرنیلوں کے لیے آخرکار ’’کشمیر برائے فروخت‘‘ کا اشتہار آویزاں کردیا۔ یہ بھارت کے ان مقاصد میں سب سے اہم تھا جس کی جانب 73 برس قبل آہستہ روی کے ساتھ پیش قدمی کا آغاز کردیا گیا تھا۔ وہ مقصد آبادی کے تناسب کی تبدیلی تھا جس کا حتمی نتیجہ کشمیر کی مسلم شناخت کی تحلیل کی صورت میں برآمد کیا جانا تھا۔
بھارت کی ماضی کی حکومتیں اس جانب پیش قدمی میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی رہیں، مگر ایسا نہیں کہ کسی بھی حکومت نے یہ مقصد نظروں سے اوجھل ہونے دیا ہو۔ 1987ء میں کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں 9 جماعتی مسلم متحدہ محاذ نے کشمیر کے اسلامی تشخص کی حفاظت کے نام پر ہی زوردار انداز میں حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات میں دھاندلی نے کشمیری نوجوانوں کو بیلٹ کا راستہ چھوڑ کر بُلٹ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا۔
بھارتی حکومت نے ملکیتِ زمین کا قانون اُس دن نافذ کیا جب کشمیری بھارت کے قبضے کے خلاف یومِ سیاہ منا رہے تھے۔ اس قانون کی رو سے کشمیر کی زمین پر مقامی لوگوں کے خصوصی حقوق کا خاتمہ ہوگیا۔ اب کشمیر سے باہر کے لوگ بھی یہاں مختلف مقاصد کے لیے زمین خریدنے کے اہل ہوں گے۔ زرعی زمینیں غیر کشمیریوں کو فروخت نہیں کی جا سکیں گی۔ حکومت کسی فرد یا ادارے کو ہیلتھ کیئر اور اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے لیے زمین منتقل کرنے کی مجاز ہوگی۔ فوج کا کور کمانڈر سطح کا افسر کسی بھی قطعۂ زمین کو اسٹرے ٹیجک قرار دے کر اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا اہل ہوگا۔ بھارت نے قوانین میں ترمیم کو کشمیر کی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
حیرت انگیز بات یہ کہ زمین کی ملکیت کے نئے قوانین صرف جموں اور کشمیر کے لیے منظور کیے گئے اور لداخ کو فی الحال اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ لداخ کے سیاست دانوں کی طرف سے نئے قوانین کی مخالفت اور لداخ ہل ڈویلپمنٹ کونسل کے انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی ہے۔ اس دھمکی کے بعد لداخی لیڈروں کو ایک خصوصی طیارے میں دہلی بلواکر اُن سے مذاکرات کیے گئے، جہاں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس علاقے کو نئے قوانین سے مستثنیٰ قرار دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لداخی لیڈروں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 371 کا اطلاق اس علاقے پر بھی کیا جائے۔ یہ شق بھارت کی گیارہ ریاستوں کو مخصوص ثقافت اور تہذیب کی وجہ سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ان میں بھارت کی 6 شمال مشرقی ریاستیں اور ہماچل اور اتراکھنڈ بھی شامل ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت لداخ کو ان خطوط پر خصوصی حیثیت دینے پر غور کررہی ہے۔ لداخ کی آواز سننے کی ایک وجہ چین کی سرحد سے قربت اور اس علاقے پر چین کی نظر ہونا بھی ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں اس وقت آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ اس کے برعکس مقبوضہ جموں وکشمیر پر پاکستان زیادہ شد ومد کے ساتھ بات کرتا ہے، اس لیے بھارت جہاں چین کے آگے نظریں جھکاتا ہے وہیں پاکستان کو آنکھیں دکھانا بھی ضروری سمجھتا ہے۔
جموں وکشمیر اور لداخ کے معاملات میں دورُخی پالیسی بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے راہنمائوں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی ملکیتِ زمین کے قانون کو مسترد کیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے یہ سوال اُٹھایا کہ اگر یہ قوانین کشمیر کی ترقی اور فلاح کے لیے ضروری تھے تو لداخ کو اس نوازش سے محروم کیوں رکھا گیا؟
حریت کانفرنس کی اپیل پر اس قانون کے خلاف ہڑتال کی گئی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے بھی اس قانون کو مسترد کیا گیا اور اسے آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے عزائم کا آئینہ دار قرار دیا گیا۔ اس قانو ن کی تشریح اور تعبیر کچھ بھی ہو، اور بھارت اس کی حمایت میں لاکھ دلائل اور تاویلات پیش کرے، مگر اس کا اصل مقصد کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔ اب بھارت میں ٹاٹا اور برلا جیسے بڑے سرمایہ کار ادارے اور این جی اوز فلاحی اور تجارتی مقاصد کے تحت کشمیر کی زمینوں کو خرید کر ایسٹ انڈیا کمپنی کا کھیل شروع کریں گے۔ رہی سہی کسر فوجی مقاصد کے نام پر زمینوں پر قبضے سے پوری ہوجائے گی۔ اس سے کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی غیر مسلم آبادی کے حصار میں پھنس کر رہ جائے گی۔ ایک طرف زمینوں کو ہتھیانے کا عمل جاری رہے گا، تو دوسری طرف سے بھارت کے باشندے وادی میں شہریت کے حق دار قرار پاتے رہیں گے، جس کے بعد کسی بھی مرحلے پر بھارت کشمیر میں علامتی رائے شماری کراتے ہوئے تنازعے کو ختم کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ یہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر فلسطین ماڈل کا اطلاق اور بھارت کا حتمی مقصد ہے۔ بھارت کسی اور طریقے سے کشمیریوں کو اپنا بنانے میں کامیاب نہیں ہوا تو آخری چارۂ کار کے طور پر آبادی کا تناسب تبدیل کرکے تنازعے کی نوعیت کو بدلنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔