کیا حکومتی منظور شدہ نصاب متفقہ قومی نصاب کہلانے کا حق دار ہے؟
”ایک نصاب ایک قوم“ یقیناً اہلِ پاکستان کی دیرینہ خواہش ہے۔ یکساں قومی نصاب کی ضرورت قومی سطح پر شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ مسئلہ صرف نصاب کا بھی نہیں، تعلیمی نظام کا ہے۔ وہ ماحول، وہ افراد، وہ مضامین اور وہ مقاصد جن کے لیے یہ تعلیمی ادارے وجود میں لائے گئے ہیں اصل مسئلہ اس پورے نظام کو دیکھنے، اسے ازسرنو مرتب کرنے کا ہے۔۔ اور یہ کام کس کے حوالے کیا گیا ہے؟ نیز اس عمل میں کتنی شفافیت ہے؟ یہاں یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے ”سنگل نیشنل کریکولم“ یعنی یکساں قومی نصاب کے نام پر کیا اقدامات کیے ہیں؟ اس کریکولم کی بنیاد کیا ہے؟ اور کیا حکومتی منظور شدہ نصاب متفقہ قومی نصاب کہلانے کا حق دار ہے؟ نیشنل کریکولم کی بنیاد میں درج ذیل امور شامل ہیں: نمبر1۔۔۔ دستوری رہنمائی، نمبر2۔۔۔ عوامی معیارات کے مطابق قومی پالیسیاں، نمبر 3۔۔۔ ظہور پذیر عالمی رجحانات، نمبر4۔۔۔ نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد، نمبر5۔۔۔ اقدار اور مہارتوں کی نشوونما پر مبنی تعلیم، نمبر6۔۔ بچوں کی فکری، جذباتی، روحانی، جمالیاتی، سماجی، جسمانی نشوونما، نمبر7۔۔۔رٹہ فکیشن کے بجائے عملی بنیادوں پر حصولِ تعلیم کا رواج، نمبر 8۔۔۔۔علم کا عملی زندگی پر انطباق، نمبر 9۔۔۔ انفارمیشن، کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا استعمال، نمبر 10…جدید آزمائشی اور تدریسی طریقوں کی شمولیت، نمبر 11…ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات سے مطابقت۔
ماہرین تعلیم کی رائے یہ ہے کہ یہ 2006ء کا کریکولم ہے یعنی جنرل پرویزمشرف کے دور کا۔ اس پر اُس وقت بھی سخت تنقید کی گئی تھی اور اسلام پسند حلقوں نے اسے سیکولر اقدار کے فروغ سے تعبیر کیا تھا۔ موجودہ کریکولم بنانے والی ٹیم نے پہلے ”ہیومنزم“ کی اصطلاح استعمال کی تھی جس پر تنقید کے بعد انہوں نے یہ اصطلاح ہٹادی۔ لیکن اصطلاح ہٹانے سے کیا ہوتا ہے اگر روح وہی باقی رکھنی ہے! واضح رہے کہ نصاب سازی ایک ”سائنس“ ہے۔ ہر علم کے ماہرین رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں اُس فیلڈ کی۔ جب شہزاد رائے جیسے افراد کی قابلیت پر بھروسا کیا جائے، اور وہ اسکول سسٹم جو سیکولر سوچ کے حامل ہوں اُن کے کرتا دھرتا افراد کو یہ حساس کام سونپا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ قوم کے مستقبل کی کیا صورت گری کی جارہی ہے۔ اس وقت ہمارے اسکولوں سے فارغ التحصیل بچے ایمانیات، عبادات، اخلاقیات اور معاملات میں کہاں ہوتے ہیں؟ اسکول نے ان کی کتنی رہنمائی کی ہوتی ہے؟ نصاب ان کے نظریہ حیات کی کتنی ترجمانی کرتا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے یہاں اسلامیات کے مضمون کو شامل کرکے سمجھا جاتا ہے کہ اب پورا نصاب اسلامی ہوگیا، جبکہ دیگر تمام مضامین مکمل طور پر سیکولر رہیں، یعنی وہاں پر اسلام کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا جاتا۔ وہ مضامین ہمارے نظریات، تہذیب اور ثقافت کے آئینہ دار ہی نہیں ہوتے۔ سنگل نیشنل کریکولم میں نصابِ تعلیم کی موجودہ مشکلات کا جائزہ لیا گیا، نہ ہی مستقبل کی ضروریات کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ رٹّے بازی کو ختم کیا جائے گا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ شاخوں کو تراشنے سے پہلے جڑوں کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ اس کے لیے اساتذہ کی تربیت کرنا پڑے گی۔ تدریس کے نئے طریقے، نئی مہارتیں بروئے کار لانا ہوں گی، نیز امتحان کے نظام کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں 70 فیصد آبادی گاؤں، دیہات میں رہتی ہے، آپ 73 سال میں ان کو بجلی اور سڑکوں کی سہولت تو مہیا کر نہ سکے، مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کی سطح پر آن کی آن میں ان کو کیسے لاسکتے ہیں! گاؤں دیہات کے اسکولوں، دینی مدرسوں، گلی محلے کے اسکولوں کو کیسے ایک سطح پر لا سکتے ہیں؟ اس کا طریقہ کار اور دورانیہ طے ہونا چاہیے۔ یہ پہلو مدنظر رہے کہ یہ قوموں کی زندگی اور بقا کا معاملہ ہے، اور نظامِ تعلیم ہی سے قوم و ملت کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ قومی اہمیت کا یہ کام خفیہ طریقے سے نہیں ہونا چاہیے، کریکولم کو منظرعام پر لایا جائے، ماہرینِ تعلیم کے فورم ہوں، ہر جہت سے اس کا جائزہ ہو۔ فروری 2020ء میں تین روزہ ورکشاپ کی گئی جو ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ ان کمیٹیوں نے جو تجاویز دیں کیا مسودے میں انھیں جگہ دی گئی؟ تین روزہ ورکشاپ کے بعد عجلت میں عمران خان سے اس کی منظوری لے لی گئی۔ قومی نصاب کے طور پر اسے اپریل 2021ء سے نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ نصابِ تعلیم پوری قوم کا اثاثہ ہوتا ہے۔ قومی سطح پر ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان کی کسی بڑی یونیورسٹی یا ہائر ایجوکیشن کے ماہرین میں سے کسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ شعبہ تعلیم و نصابِ تعلیم میں مہارت رکھنے والے افراد و اداروں کو مکمل نظرانداز کیا گیا۔ دینی مدارس کے کچھ نمائندوں کو صرف اسلامیات کے نصاب کے سلسلے میں مشاورت کے لیے بلایا گیا۔ باقی نصاب میں ان کی شمولیت نہیں کرائی گئی۔
قابلِ توجہ امور: سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد فرد اور قوم کو اس کے مقصدِ حیات سے روشناس کرانا اور ان کے ملّی مقاصد، تاریخی اقدار، تہذیب اور ثقافت کا شعور دلانا ہوتا ہے۔ تعلیمی، فکری اور ثقافتی سرمائے امانت ہوتے ہیں اور تعلیم کے ذریعے ثقافت نئی نسل کی طرف منتقل کی جاتی ہے۔ تعلیم کا کام وہ معلومات فراہم کرنا ہے جو جدید ترین معلومات سے نئی نسلوں کو آراستہ کرے، سوچنے کا صحیح اسلوب اور ذوقِ نظر پیدا کرے۔ ان میں فنی تعلیم اور مہارتیں پیدا کی جائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ نظام تعلیم کا کام یہ ہے کہ جہاں مائیکرو لیول پر علم اور ہنرمندی پیدا کرے وہیں بحیثیتِ مجموعی قوم کے اندر نئی روح، نیا ولولہ، سوچنے کا نیا انداز بھی پیدا کرے، تاکہ وہ اپنی بہترین روایات کی امین بن سکے اور ان روایات کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرسکے۔ جو تعلیمی نظام دور سامراج میں قائم ہوا اس نظام نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہمارے تاریخی اور روایتی نظام تعلیم کو تباہ کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے رہنے والے اپنی روایات کو بھول جائیں، وہ ”ان“ کی آنکھوں سے دیکھنے، ان کے دماغ سے سوچنے، ان کی زبان بولنے لگیں۔ دراصل پاکستان کا قیام دنیا کے معروف نظریات کے برخلاف ایک چیلنج تھا، کیونکہ اب تک دنیا یہ جانتی تھی کہ قومیں جغرافیائی اور معاشی مفادات سے بنتی ہیں، لیکن تحریکِ پاکستان نے اس تصور کو چیلنج کیا اور کہا کہ قومیں عقیدے اور دین سے بنتی ہیں ۔ اس نظریاتی انقلاب کے بعد نظامِ تعلیم کا انقلاب آنا چاہیے تھا جو نہیں آسکا، اور آج 73سال بعد بھی ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کس سمت جانا ہے۔
٭دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم دو مستقل، متوازی اور ایک دوسرے سے الگ تعلیمی نظام ہیں، اور یہ قوم کی بڑی بدقسمتی ہے کہ جس نے دنیا کو یہ نظریہ دیا کہ دین اور دنیا کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے، اور جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ساری زمین مسجد ہے۔ جہاں یہ انقلابی تصورِ مذہب انسانیت دیا گیا کہ نماز روزہ ہی مذہب نہیں ہے بلکہ حلال روزی کمانا بھی فرض ہے، مشین بنانا، ایجادات واختراعات کرنا یہ سب عبادت ہے۔ جس دین نے یہ انقلابی تصور دیا، اس دین کے پیروکار ایسے نظامِ تعلیم پر مطمئن ہوگئے کہ جہاں ایک طرف دینی تعلیم ہے لیکن دنیاوی تعلیم کا نہیں پتا… جو اہلِ دین ہیں وہ دنیا کے معاملات میں رہنمائی نہیں کرسکتے۔ جن کو دنیاوی امور میں درک حاصل ہے اُن کا دینی علم اور اُن کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ یکساں تعلیمی نصاب میں اہم ان دو متوازی سسٹمز کو ایک سلسلے میں جوڑیں۔
٭ تیسرا بڑا مسئلہ تعلیم کے معیار کا ہے۔ ہم نے تعلیم کو ذہن کو جِلا بخشنے والی قوت نہیں بنایا، اور اس کا سب سے بڑا سبب قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم نہ بنانا ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ یہ قوم کبھی خود سوچنے کے لائق نہ بنے، اور ساری توجہ بیرونی زبان کو سیکھنے اور سمجھنے میں صرف کردے، اور کانٹینٹ کے بجائے زبان پر ہی الجھی رہے۔ تقلیدی ذہن اور تقلیدی مزاج سے تعلیم کا نہ معیار قائم ہوسکتا ہے، نہ نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اور یہی سامراجی قوتیں چاہتی تھیں کہ ہم کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم بڑی بڑی ڈگریاں تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن علوم و فنون میں مہارت اور قدرت حاصل نہیں کرپاتے۔
٭چوتھا بڑا مسئلہ یہ کہ تعلیم کا تعلق معاشرے اور زندگی سے منقطع ہوگیا ہے۔ جو ہم پڑھ رہے ہیں، جن موضوعات پر ہمارے ملکوں میں ریسرچ ہوتی ہے، ان کا ہمارے معاشرے اور اس کی ضروریات کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ،اسلام کا تصورِ تعلیم یہ نہیں ہے کہ ناظرہ یا ترجمہ پڑھا دیا جائے۔ اسلام جس تعلیم کی تلقین کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جس دائرے میں کام کررہے ہوں، جو ذہن، جو فکر، جو سوچ، جو انداز وہاں پیدا ہو وہ اسلام کی اقدار سے مطابقت رکھتا ہو۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے:۔
نہیں کچھ اس کی پرسش الفتِ اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
ہم معرفت کے بجائے ایک طالب علم کو تنخواہ پر لے آئے ہیں۔ مادہ پرستانہ ذہنیت کے نتیجے میں بچے کو کیریئر کے نام پر یہ سکھایا جائے کہ اس کا زیادہ کمانا زیادہ کامیابی کی ضمانت ہے۔ کریکولم کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں قومی نصابِ تعلیم کی بنیاد ریسرچ رپورٹس پر نہ رکھی جاتی ہو۔ جس میں پہلے سے رائج نصاب کی کمزوریاں، خامیاں اور نفاذ کے مرحلے میں آنے والی مشکلات اور قومی مقاصد کی تکمیل میں ناکامیوں کا جائزہ نہ لیا جاتا ہو۔ حکومت نے ایسے کسی تکلف کا اہتمام نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ملک کے تعلیمی ادارے جن میں سنگل نیشنل کریکولم نافذ ہونا ہے ان میں 30 ہزار دینی مدارس، ایک لاکھ پرائیویٹ تعلیمی ادارے، لاکھوں سرکاری اسکول اور تیس ہزار غیر رسمی اسکول ہیں۔ کوئی ذی ہوش یہ تصور کرسکتا ہے کہ آغا خان اور بیکن لائٹ، سٹی اسکول، کانوینٹ اداروں میں پڑھنے والے اشرافیہ کے نورِ نظر، اور مدارس میں فرش پر بیٹھ کر پڑھنے والے بچے، او لیول اور درسِ نظامی کے طلبہ یکساں نصاب کے تحت ایک جیسی ذہنی سطح پر آجائیں گے؟ اسی طرح بلوچستان کے دور دراز غیرترقی یافتہ علاقے۔۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد کے پوش اسکولوں کی مشکلات کا نصاب سازی میں خیال رکھا گیا ہے؟ کیا اس طرح طبقاتی فرق نہیں بڑھے گا گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی اقدار میں کوئی کمی اور خلا تھا جو ہیومنزم کی اصطلاح کو پسند کیا جائے؟ ہمیں تو اسلامی اقدار کی رحمت اور حکمت سے غیر مسلموں کو مستفید کرنا چاہیے۔ تعلیم کے ساتھ تزکیہ و تربیت پاکستانی معاشرے کی ضرورت ہے۔ یکساں نصابِ تعلیم میں قرآن و حدیث کی اقدار کو یکسر نظرانداز کرکے سیکولر اور لبرل معاشروں آسٹریلیا، بھارت وغیرہ کی نصابی اقدار کو بنیاد بنا کر جو ڈھانچہ ترتیب دیا گیا ہے اس سے کیسے ایک اسلامی نظریاتی مملکت کی کوئی ضرورت پوری ہوگی؟