ریاض احمد چودھری صاحب کو اللہ تعالیٰ عمر دراز عطا فرمائے، گزشتہ کم و بیش پینسٹھ ستّر برس سے صحافت سے وابستہ اور آج بھی بفضل ربی پوری طرح متحرک اور فعال ہیں۔ ضعیف العمری کو آڑے آنے دیتے ہیں نہ دیگر مسائل و مشکلات کو۔ صحافت ان کے نزدیک اب بھی صنعت یا کاروبار سے زیادہ ایک مشن ہی کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس مقصد کے پیش نظر وہ جوانوں سے بڑھ کر مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ چند برس قبل پنجاب حکومت کی زیر نگرانی کام کرنے والے ادارے ’’بزم اقبال‘‘ کے ڈائریکٹر اور سیکرٹری بورڈ آف گورنرز کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی تو انہوں نے اپنی شب و روز کی توجہ اور محنت سے اس کے تنِ مُردہ میں جان ڈال دی۔ ’’بزمِ اقبال‘‘ کے زیراہتمام نوجوان نسل کو اسلام، نظریہ پاکستان، اور علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ اور حیات و خدمات سے روشناس کرانے کے لیے بہت سے منصوبے ریاض احمد چودھری صاحب کے پیش نظر ہیں جن میں سے ایک پہلے سے شائع شدہ نایاب کتب اور نئی تصنیفات کی اشاعت بھی ہے، اس منصوبے کے تحت وہ اب تک کئی کتب کو زیورِ طباعت سے آراستہ کرچکے ہیں جن میں سے تازہ ترین پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری صاحب کی انگریزی تصنیف ’’قرآن مقدس۔ ایک دائمی معجزہ‘‘ “THE HOLY QURAN- Acontinuous Mirocle” ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری معروف دانشور، ممتاز ماہرِ تعلیم اور علمی دنیا کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ دینی اور دنیاوی دونوں طرز کے اسلوبِ تعلیم سے استفادہ کرچکے ہیں۔ ریاض احمد چودھری صاحب نے کتاب کے سرورق کے اندرونی جانب شائع شدہ ان کے تعارف میں بتایا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے سعودی عرب کی ریاض یونیورسٹی سے عربی اور فلسفہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ پھر گلاسگو یونیورسٹی برطانیہ اور ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے پی ایچ ڈی کیا اور تعلیم و تعلم کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ فلسفہ، عربی زبان و ادب اور قرآنی سائنس ان کے خصوصی موضوعات رہے۔ انگریزی، عربی اور اردو میں یکساں مہارت رکھتے ہیں، سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد چند سال قبل ریٹائر ہوئے ہیں اور ’’فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں بھی جنوں میرا‘‘ کے مصداق آج کل جامعہ پنجاب سے بطور پروفیسر امریطس وابستہ ہیں اور تحقیق و تصنیف پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ عربی، اردو اور انگریزی میں ان کی کئی تصنیفات شائع ہوچکی ہیں، جب کہ ’’قرآن مقدس۔ ایک دائمی معجزہ‘‘ ان کی تازہ انگریزی تصنیف ہے جسے ’بزم اقبال‘ نے موضوع کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر شایانِ شان اہتمام سے شائع کیا ہے۔
’’قرآن مقدس… ایک دائمی معجزہ‘‘ کے آغاز میں حروفِ تشکر اور تعارف، مصنف کے اپنے قلم سے ہیں۔ جب کہ ’پیش لفظ‘ رئیس الجامعہ پنجاب لاہور پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر صاحب نے تحریر کیا ہے، جس کے اختتام پر انہوں نے کتاب اور صاحبِ کتاب کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:
’’کتاب انگریزی زبان میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ موضوع اور مواد کے لحاظ سے اس کا کوئی مقابل و متبادل موجود نہیں۔ یہ عام قاری کے ساتھ ساتھ زبان اور قرآنی علوم کے ماہرین کے لیے یکساں مفید ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کو ہر طرح کی کامیابیوں سے نوازے اور ان کی شب و روز کی محنتِ شاقہ کو قبول فرمائے اور دنیا و آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے…‘‘
’’کتاب کو مجموعی طور پر 13 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو ذیلی عنوانات کے تحت قرآن کی قرأت، اس کے آداب، اس کے جمع و تدوین کی تاریخ، روزمرہ زندگی میں اس کی مختلف شعبہ جات میں تعلیمات اور اس کے معجزاتی پہلوئوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، جب کہ آخری باب میں ’’قرآن حکیم اور علامہ اقبال‘‘، ’’قرآن حکیم اور وسائل کا ضیاع‘‘، ’’قرآن اور جہاد‘‘، ’’قرآن اور رمضان‘‘، ’’قرآن سے دوری اختیار کرنے والوں کے لیے انتباہ‘‘ اور ’’شکر الٰہی‘‘ سمیت متفرق موضوعات پر مصنف کے مختصر مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یوں کتاب میں قیامت تک کے لیے راہِ ہدایت کی رہنمائی کرنے والی آخری آسمانی کتاب کے معجزاتی پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ قارئین کے لیے مختلف جہات میں قرآن مجید کی تعلیمات سے آگاہی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جلد اسے پاکستان کی قومی زبان کے قالب میں ڈھال کر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اردو خواں طبقے کو بھی استفادہ کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
کتاب دلکش رنگین سرورق کے ساتھ گرد پوش میں محفوظ کی گئی ہے، کتاب کی جلد مضبوط ہے اور عمدہ سفید کاغذ پر معیاری طباعت سے آراستہ ہے، حتی المقدور کتابت کی غلطیوں سے بھی پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ یوں موضوع و مضامین کی اہمیت و افادیت کے علاوہ کتاب کی طباعت و اشاعت کا معیار بھی اس قابل ہے کہ قرآن حکیم کے چشمۂ ہدایت سے فیض حاصل کرنے کے خواہاں صاحبانِ علم و فضل، اساتذہ، طلبہ اور عام قارئین اس سے استفادہ کریں۔ ’بزم اقبال‘کی انتظامیہ نے ایک قابلِ ستائش اقدام یہ کیا ہے کہ کتاب کو ازخود ملک کے اہم دانشوروں، سیاسی و علمی شخصیات اور صحافی حضرات تک اعزازی طور پر پہنچایا گیا ہے، جس سے یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ضرورت ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے تمام تعلیمی اداروں، مدارس اور عوامی کتب خانوں میں کتاب کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ نئی نسل اس سے بھرپور استفادہ کرسکے۔