ایک سنجیدہ و صاف گو صحافی سید اطہر علی ہاشمی مرحوم

جناب ابونثر احمد حاطبؔ صدیقی ہمارے دیرینہ و مخلص شناسائوں میں ہیں۔ اب تو ہماری یہ شناسائی گہری دوستی کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں پہلے اُنھوں نے دائرۂ علم و ادب پاکستان کے نام سے ایک خالص علمی و ادبی نوعیت کے ایک واٹس ایپ گروپ کی تشکیل کی۔ اس میں انھوں نے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ دوسرے مختلف ممالک کے بھی متعدد سنجیدہ و تعمیر پسند ادبا، شعرا اور شائقینِ علم و ادب کو شامل کیا۔ اُس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے اُس میں اپنے اڑتیس سال دیرینہ دوست و مشفق، ادیب و صحافی اور ماہر لسانیات سیّد اطہر علی ہاشمی کا نام دیکھا۔ بہت دنوں سے ان سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ صرف فون سے تعلق رکھتے تھے۔ موبائل یا واٹس ایپ سے انھیں علاقہ نہیں تھا۔ گروپ میں واٹس ایپ کا نمبر دیکھ کر اطمینان سا ہوا۔ سوچا کہ گاہے گاہے، بھائی اطہر ہاشمی سے گفت و شنید ہوجایا کرے گی۔ لیکن وہ اپنے ارادے پر اٹل رہے۔ کسی دن بھی واٹس ایپ کے ذریعے سے گروپ کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ غالباً فرزندان نے نام شامل کرا دیا تھا۔6اگست کو اچانک بھائی احمد حاطب صدیقی، ان کے بعد کئی دوسروں نے پے بہ پے سنائونی دی کہ آج صبح وہ اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ سنائونی کیا تھی، ایک کوہِ الم تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور خاموش رہا۔ گزشتہ یادیں ذہن میں منڈلانے لگیں۔
معلوم ہوا کہ رات کو اچھے خاصے ہنستے بولتے سوئے، صبح جب فجر کی نماز کے لیے اٹھایا گیا، تو وہ کسی اور دنیا میں پہنچ چکے تھے۔ اُس دنیا میں، جہاں ہم کو، آپ کو اور ہر ذی روح کو جانا ہے۔ نہ جانے کتنے بڑے بڑے نبی و رسول، پیر و ولی اور سائنس داں و فلسفی چلے گئے۔ گئے تو ایسے کہ پھر لوٹ کر آنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میاں! ہم کیا رہیں گے جب نہ رسولِ خدا رہے۔ احمد حاطبؔ صدیقی کا یہ جملہ بہت اچھا اور دل کو چھولینے والا ہے: ’’ہم نے تو سنا تھا کہ اٹھے اور چل دیے۔ بھلا یہ کیسا جانا ہوا کہ لیٹے اور چل دیے۔‘‘
سید اطہر علی ہاشمی کا آبائی وطن مغربی یوپی کی مردم خیز بستی راجو پور تھا۔ یہ بستی کبھی ضلع سہارن پور میں تھی، پھر ضلع مظفر نگر میں آگئی۔ اس کے بعد اتراکھنڈ ریاست کی تشکیل کے بعد اس کے ضلع ہری دوار میں شامل ہوگئی۔ راجوپور ہمارے قصبے دیوبند (ضلع سہارن پور) سے تقریباً دس کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ اطہر ہاشمی کا تعلق راجوپورکے ہاشمی سادات سے تھا۔ جنوری 1986ء میں اطہر ہاشمی کے چچا حضرت مولانا سیّد محمد عثمان کاشف الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے بتایا تھا کہ بہت قدیم زمانے سے ہم لوگوں کے نام کے ساتھ علی خان کی روایت چلی آرہی ہے۔ میرا نام سید محمد عثمان علی خاں ہاشمی ہے۔ میرے بڑے بھائی اطہرہاشمی کے والد کا نام بھی اصلاً سیّد صفدر علی خاں ہاشمی ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی اولاد کے نام میں اس کو ضروری نہیں سمجھا۔
سیّد اطہر علی ہاشمی بعض روایت کے مطابق 1946ء میں اور اپنے فرزند سیّد حماد علی ہاشمی کی روایت کے مطابق 18اگست 1947ء کو بہاول پور میںپیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بہاول پور (موجودہ پاکستان) میں ہوئی۔ ان کے والد کی بھی تعلیم وہیں ہوئی تھی۔ یہاں ان کے والد سیّد صفدر علی ہاشمی سرکاری ملازم تھے۔ معلوم ہوا کہ اطہر بھائی کے دادا بھی وہیں ملازم تھے۔ پھر تقسیم ملک کے بعد وہ پاکستان ہی کے ہوکے رہ گئے۔ ان کی ثانوی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ وہاں وہ اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے۔ والدِ محترم کا تبادلہ کراچی ہوگیا تو کراچی یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا۔ پاکستان کی مرکزی اسلامی دانش گاہ دارالعلوم کراچی سے بھی کسبِ فیض کیا تھا۔ وہ آٹھ بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر کے تھے۔ ان کے سب سے چھوٹے بھائی مولانا سیّد راحت علی ہاشمی اس وقت جامعہ دارالعلوم کراچی میں ناظمِ تعلیمات کے منصب پر فائز ہیں۔ تدریس کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں۔
اطہر ہاشمی نے 1977ء میں وادیِ صحافت میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے پاکستان کے مشہور روزنامے جسارت کراچی سے وابستہ ہوئے۔ یہ زمانہ اپنے عہد کے نام ور صحافی محمد صلاح الدین کا تھا۔ پھر عبدالکریم عابد اور سیّد محمود احمد مدنی کے زمانے میں بھی وہ جسارت ہی سے وابستہ رہے۔ اخبار کے اداریے سے لے کر دوسری اہم ذمے داریاں انھی کو تفویض تھیں۔ 1994ء میں جدّہ (سعودی عربیہ) سے اردو نیوز روزنامے کا اجرا ہوا تو انھیں وہاں بلالیا گیا۔ وہاں انھوں نے چھے سال تک اخبار کے اہم ذمے دارکی حیثیت سے کام کیا۔
اکتوبر 2000ء میں پاکستان رائٹرز فورم جدّہ کے مشاعرے میں مَیں گیا تو جس وقت میں کلام سنارہا تھا، اچانک سامعین کی صفِ اوّل میں بھائی اطہر ہاشمی بھی نظر آگئے۔ انھیں دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ میں نے اپنی غزل کا یہ شعر ان کی نذر کیا:۔

کیا خبر کون کب لوٹ لے راہ میں
قافلے سے الگ مت رہا کیجیے

سامعین کے ساتھ انھوں نے بھی پسند کیا۔ غیر معمولی مسرت کا اظہار کیا۔ خوب داد دی۔ جوں ہی میں نے غزل مکمل کی، اسٹیج پر آکر گلے لگا لیا۔ فرمایا: کیا تم وہی تابش مہدی ہو جسے میں نے کالی داڑھی اور کالے بالوں میں کبھی کراچی سے رخصت کیا تھا؟ بہت دیر تک گلے لگائے رہے اور دعائیں دیتے رہے۔
2000ء ہی میں انھوں نے اردو نیوز جدّہ کو خیرباد کہہ دیا۔ کچھ دنوں روزنامہ امت کراچی میں کام کیا۔ پھر بعد میں روزنامہ جسارت سے وابستہ ہوگئے اور دسمبر 2001ء میں سیّد محمود احمد مدنی کے بعد انھی کو مدیراعلیٰ کا منصب تفویض ہوگیا۔ تادم آخر اسی منصب پر فائز رہے۔ ادھر تقریباً چھے برس سے انھوں ہفت روزہ ’فرائیڈے اسپیشل‘ میں خواجہ حیدر علی آتش کے مشہور شعر:۔

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب!۔
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا

سے استفادہ کرکے ’خبر لیجے زباں بگڑی‘ کے عنوان سے ایک مستقل کالم شروع کردیا تھا۔ زبان و بیان، املا اور تلفظ کی صحت و درستی اس کا خاص موضوع تھا۔ یہ کالم پاکستان ہی نہیں پوری اردو دنیا میں مقبول ہوا۔ چوں کہ مزاج میں ہلکی سی مگر سنجیدہ و باوقار ظرافت بھی تھی، اس لیے وہ اِس خشک موضوع کو بھی تر بناکر پیش کرتے تھے۔ اس چیز نے اس کالم کو بہت مقبول و پسندیدہ بنادیا۔ شائقین ہر ہفتے اس کا اسی طرح انتظار کرتے تھے جس طرح کبھی مشفق خواجہ کے کالم ’خامہ بگوش‘ کا کیا جاتا تھا۔ بلکہ اہمیت و افادیت کے لحاظ سے یہ اس سے زیادہ ہی تھا۔ ایک بار انھوں نے لکھا:
’’ہم پورا زور یہ سمجھانے میں لگا چکے ہیں کہ ’عوام‘ جمع مذکر ہیں، واحد مونث نہیں۔ لیکن بہ قول احمد فراز شہر کا شہر ہی دشمن ہو تو کیا کیجے؟ ٹی وی چینل کے بقراط اور مضمون نگار عوام کو مونث بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے اپنے گھر کے چراغ (جسارت کے) سنڈے میگزین کے کالم نگار بھی باز نہیں آتے۔ لکھتے ہیں: عوام سحر میں مبتلا ہوچکی تھی اور سوشل میڈیا پر اصرار کررہی تھی۔ ہماری مرضی ہم عوام کو مذکر کریں یا مونث۔ ہم تو ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ میں تفریق نہیں کرپاتے۔ ایک بڑے استاد شاعر کا شعر ہے:۔

در کتنے ہی کھلتے رہے اک در کے علاوہ
اک درد بھری سن کے صدا تیری گلی میں

معذرت کے ساتھ یہاں ’علاوہ‘ کی بہ جائے ’سوا‘ ہونا چاہیے تھا۔ علاوہ کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ در بھی کھل گیا جس کے کھلنے کی آس تھی۔‘
سیّد اطہر علی ہاشمی ایک منجھے ہوئے اور ذہین و فطین صحافی کے ساتھ ایک دوست نواز، ملنسار اور خوش مزاج و بذلہ سنج انسان بھی تھے۔ ان کی دوست نوازی کا اندازہ اِس واقعے سے کیجیے۔ جناب رئوف طاہر ان کے بہت قدیم رفیقِ کار تھے۔ وہ ان کے زمانۂ جسارت میں بھی ان کے ساتھ کام کرتے تھے اور جدّہ کے اردو نیوز کے زمانے میں بھی۔ انھوں نے اپنے جسارت کے زمانے کا ایک واقعہ بتایا کہ ایک بار جسارت کے ایک بزرگ رفیق نے ان کے سامنے اپنی کسی پریشانی کا ذکر کیا۔ غالباً بچی کی شادی کی بات تھی۔ اطہر ہاشمی کو اُسی روز ماہانہ تنخواہ ملی تھی۔ انھوں نے بڑی خاموشی اور ادب و احترام کے ساتھ اپنی میز کی دراز سے تنخواہ کا لفافہ نکالا اور ان بزرگ کی خدمت میں پیش کردیا۔ وہ بزرگ بہت شرمندہ ہوئے۔ لیکن انھوں نے ان کی قبولیت ہی میں اطمینان و خوشی کا اظہار کیا۔ گھر پہنچ کر اہلیہ محترمہ سے فرمایا: بیگم! اس ماہ کا خرچہ آپ کو میری تنخواہ کے بغیر ہی چلانا ہے۔ بیگم بھی بہرحال ان کے رنگ میں رنگ چکی تھیں۔ ان کے مزاج سے واقف تھیں۔ کہا: ٹھیک ہے، اور مسکراکر اندر چلی گئیں۔ اس مہینے گھر کا خرچہ کس طرح چلا ہوگا، وہ ان دونوں کو معلوم ہوگا یا اللہ کو۔
ایک بار میرے مشفق دوست، اطہر ہاشمی کے رفیقِ کار اور جسارت کے مدیر منتظم کشش صدیقی سے اطہر صاحب کی بذلہ سنجی اور پُرمزاح طبیعت کے سلسلے میں گفتگو ہورہی تھی۔ ان کا فکاہیہ کالم ’بین السطور‘ بھی زیر گفتگو آیا۔ میں نے ان کی شخصیت و وجاہت کو دیکھتے ہوئے کسی قدر حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے ان کی بذلہ سنجی کا حیرت انگیز واقعہ سنایا۔ فرمایا: یہ بات اُس وقت کی ہے جب جسارت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور ہر طرح کے داخلی کرتا دھرتا جناب محمد صلاح الدین تھے۔ ایک بار اطہر ہاشمی صاحب نے ایک ماہ کی استحقاقی رخصت کی درخواست دی۔ لکھا کہ چوں کہ ناچیز کی خالہ کی بیٹی کی شادی ہونے والی ہے، اس لیے اِسے ایک ماہ کی رخصت استحقاقی سے نوازیں۔ صلاح الدین صاحب کو حیرت ہوئی کہ خالہ کی بیٹی کی شادی کے لیے ایک ماہ کی رخصت کے کیا معنی؟ ایک دو دن کافی ہوتے ہیں۔ دراصل وہ اطہر ہاشمی کی مستعدی، پابندیِ وقت اور حسنِ کارکردگی سے بہت خوش بھی تھے۔ ہاشمی صاحب کو زیادہ دن بھی کام کرتے نہیں ہوئے تھے۔ اُن دنوں شاید کسی وجہ سے افراد کی کمی بھی تھی۔ انھوں نے درخواست دیکھی اور فوراً انھیں بلایا۔ یہ حاضر ہوئے۔ پوچھا: صاحب زادے! آپ نے خالہ کی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں ایک ماہ کی طویل رخصت طلب کی ہے۔ آخر اس شادی میں آپ کی کیا کارکردگی ہوگی؟ اس میں آپ کیا فریضہ انجام دیں گے؟ اطہر ہاشمی نے شرم و حیا کا پیکر بن کر سرجھکاکر بتایا: نوشے کا۔ صلاح الدین صاحب جو بہت کم ہنستے اور مسکراتے دیکھے گئے تھے، کافی دیر تک ہنستے رہے۔ انھیں رخصت دے دی اور کچھ دنوں کے بعد ہفتہ واری فکاہیہ کالم ’بین السطور‘ ان کے حوالے کردیا۔ ان کی بذلہ سنجی اور حاضر دماغی کا ایک واقعہ انھوں نے خود ایک انٹرویو میں سنایا ہے۔ جس وقت وہ ایم فل کررہے تھے، اسلام آباد بوائز کالج میں کچھ دنوں کے لیے پاکستان اسٹڈیز کے استاذ بھی ہوگئے تھے۔ یہ مضمون انگریزی میں پڑھایا جارہا تھا۔ لفظ گلف (Gulf) نہ جانے کیوں ان کی زبان پر گُلف (گاف پر پیش کے ساتھ) چڑھا ہوا تھا۔ چناں چہ انھوں نے درس کے دوران میں گُلف (گاف پر پیش کے ساتھ) ہی کہہ دیا۔ ایک لڑکا فوراً کھڑا ہوا، کہا: سر گُلف نہیں گلف (گاف کے زبر کے ساتھ) ہے۔ وہ مسکرائے، لڑکے کو شاباشی دی اور کہا: میں نے تمھیں آزمانے کے لیے کہا تھا۔ تم کامیاب نکلے۔
سیّد اطہر علی ہاشمی ایک علمی اور سنجیدہ صحافی تھے۔ وہ صحافت کی موجودہ روش پر بہت فکرمند رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ہندوستان و پاکستان بننے سے پہلے مولانا ظفر علی خاں ’زمیندار‘ اخبار نکالتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کا بہت مقبول اخبار تھا لیکن مالی بحران کی وجہ سے وہ اکثر بند ہوجایا کرتا تھا۔ بند ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ مولانا ظفر علی خاں جس مؤقف کو درست سمجھتے تھے، اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ مولانا حسرت موہانی ہوں یا مولانا ابوالکلام آزاد، یا محمد علی جوہر… یہ سب وہ لوگ تھے، جو سچی اور صحیح بات کے اظہار میں مداہنت نہیں برتتے تھے۔ جس مؤقف کو صحیح و درست سمجھتے تھے، اس پر ڈٹ جاتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے اخبارات ہمیشہ زوال پذیر رہے۔ بند ہوتے رہے۔ بعد میں جن مالکان نے اس کمزوری کو محسوس کیا انھوں نے اپنی روش بدل دی۔ مقصد سچی اور درست فکر کو پھیلانا نہیں بلکہ پیسہ بنانا ہوگیا۔ صحافت ایسے ہاتھوں میں آگئی، جن کو صرف پیسے سے غرض تھی۔ اب اسی صحافت کے ذریعے سے لوگ کیا سے کیا بن گئے۔ وہ ان باتوں کو چھاپنے لگے، جو اخبار بینوں کے دل کی بات ہو، انھیں خوش کرسکے، خواہ وہ بات کتنی ہی غلط یا نقصان دہ کیوں نہ ہو۔ اب صاف ستھرے اہلِ قلم مشکل سے ملتے ہیں۔ انھیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسے صاف ستھری صحافت میں نہیں ہیں۔ اخبار کے مالک بلیک میل کرکے پیسے کمارہے ہیں۔ اب صحافت انڈسٹری اور کارخانے کی شکل اختیار کرگئی ہے۔
سیّد اطہر علی ہاشمی اُن لوگوں میں تھے، جنھیں دیکھنے اور ان کے پاس بیٹھنے سے چہرے پر مسکراہٹ طاری ہوجاتی تھی۔ مذاق اور پھلجھڑی چھوڑنا ان کا مزاج تھا۔ لیکن عجیب بات یہ کہ کسی سے مذاق کرتے یا محفل میں پھلجھڑی چھوڑتے وقت وہ بالکل شگفتہ اور سنجیدہ رہتے تھے۔ اس کی وجہ سے اچھے اچھے لوگ ان کے مذاق کا شکار ہوجاتے تھے۔ ان کے بارے میں بعض احباب کی رائے ہے کہ وہ قلماً بھی صحافی تھے اور عملاً، لساناً، مزاجاً اور عادتاً بھی۔ حتیٰ کہ نشستن و برخاستن بھی۔ وہ سوچ اور فکر کے اعتبار سے بلند پرواز تھے لیکن ہمیشہ ایک سچے اور پکے انسان کی سطح پر رہے۔ انھوں نے کبھی اڑنے یا کسی کو اڑانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے قلم میں ہمیشہ خیال و فکر کی گردش رہتی تھی۔ وہ خیال و فکر جس سے قوموں کی تعمیر ہوتی ہے۔ ان کے افکارو خیالات کو سنوارا اور صحیح رخ دیا جانا ہے۔
سیّد اطہر ہاشمی سے میری پہلی ملاقات نومبر 1982ء میں ہوئی تھی، جب میں وہاں کی ایک ادبی انجمن کی دعوت پر گیا تھا۔ پھر اکتوبر 1985ء میں مَیں جناب اعجاز رحمانی کی دعوت پر گیا تو ایسا گیا کہ پورے تین ماہ کراچی میں رہا۔ کم و بیش پینتالیس مشاعروں، چھوٹی بڑی محفلوں اور خانگی شعری نشستوں میں میری شرکت رہی۔ اِن میں بیشتر پروگرام میرے ہی اعزاز میں تھے۔ کم و بیش ہر اعزازی محفل میں بھائی اطہر ہاشمی شریک رہے۔ میں کراچی کی موجودگی میں تقریباً روزانہ دفتر جسارت جاتا تھا۔ وہاں جسارت کے مدیر منتظم جناب کشش صدیقی اور سید اطہر علی ہاشمی کے پاس ہی میری نشست رہتی تھی۔ دونوں ایک ہی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ اس پورے تین مہینے میں جسارت آنے والی برائے تبصرہ کتابوں پر انھوں نے تبصرے بھی مجھ سے کرائے۔ ایک بار بارہ ربیع الاول کے موقع پر اداریہ بھی مجھ سے لکھوایا۔ ان خدمات کا اعزازیہ بھی مرحمت فرمایا۔ 1989ء میں جب لاہور کے ایک مشاعرے میں گیا تو باقی ایام کراچی ہی میں گزارے اور دونوں مخلصوں سے برابر ملاقاتیں رہیں۔ افسوس کہ وہ اب ہم سے بہت دور جاچکے ہیں۔ جب ان کی وفات کا خیال آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ پھر جب ان کی صاف ستھری اور بے غبار زندگی کا خیال آتا ہے تو مطمئن ہوجاتا ہوں، سوچتا ہوں اچھی جگہ پہنچ گئے۔ خدا ہمیں بھی اسی صفائی اور ستھرائی کے ساتھ اس جہاں سے رخصت کرے۔