کتاب میں ڈبلیو منٹگمری واٹ کا جو تعارف دیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے:۔
’’اسلامی تاریخ میں ابتدائی دو صدیوں کو مسلم افکار کا تشکیلی دور مانا جاتا ہے، جب مختلف داخلی اور خارجی وجوہ نے مسلم فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مشہور مستشرق ڈبلیو منٹگمری واٹ نے زیرنظر کتاب میں اسی دور پر قلم اٹھایا ہے۔
واٹ اسکاٹش مؤرخ، مستشرق، انجلیکن پادری (Anglican Priest) اور پروفیسر تھے۔ 14 مارچ 1909ء کو پیدا ہوئے اور 97 سال کی عمر میں 24اکتوبر 2006ء کو ایڈن برگ برطانیہ میں انتقال ہوا۔ 1964ء سے 1979ء تک ایڈن برگ یونیورسٹی میں عربی زبان اور اسلامیات کے پروفیسر رہے۔ واٹ مغرب میں (اہم ترین مستشرق تھے) انہوں نے اسلام، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی اہم کتابیں لکھیں۔ وہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو، کالج ڈی فرانس اور جارج ٹائون یونیورسٹی سے بھی وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر وابستہ رہے۔ ان کو ’’آخری مستشرق‘‘ مانا جاتا ہے‘‘۔
کتاب کے مترجم ریحان عمر ہیں جو ادارۂ قرطاس سے بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں، اور اس سے قبل چار اہم (استشراقی) کتابوں کے ترجمے کرچکے ہیں۔ امید ہے ان کا یہ ترجمہ بھی علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
ڈبلیو منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:۔
’’جب سے کہ میں نے ’’ابتدائے اسلام میں آزادیِ ارادہ اور قدر‘‘ (Free Will and Predestination in Early Islam) کے عنوان سے 1949ء میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تب سے ہی مجھے اسلامی فرقوں میں دلچسپی پیدا ہوتی گئی اور میں نے اس موضوع کے متعدد پہلوئوں پر کئی ایک مقالات و مضامین رقم کیے۔ اس شعبے میں اپنے اور دوسرے اسکالروں کے کام سے میں اس بات کا قائل ہوگیا کہ اسلامی فکر کی ترقی کے بیان کی کسی بھی کوشش سے قبل، مآخذ و مصادر کی ایک بنیادی تنقید عمل میں آنی چاہیے۔ الہیاتی عقائد کو عام مسلم مصنفین اس نظر سے دیکھتے ہیںکہ وہ وحی قرآنی میں پہلے ہی دیئے ہوئے ہیں اور جو سراسر غیر متغیر ہیں۔ جیسا کہ ہنری لائوسٹ اس کے متعلق کہتا ہے، یہ عقائد ’فرقوں کی تاریخ‘ سے نہیں بلکہ ’یہ فرقے سنیت سے اپنے کم یا زیادہ فاصلے کے لحاظ سے ایک عمومی درجہ بندی‘ سے تعلق رکھتے ہیں (Gibb Feschrift,386)۔ اسی وجہ سے یہ مصنفین اس امکان کو سمجھنے کے قابل نہیں کہ ایک عقیدہ جو واقعتاً غیر تسلی بخش ہو اور جسے لائقِ رد سمجھا گیا، اس کے باوجود اس نے ترقی میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا جدید مؤرخ کو مآخذ سے متعلق انتہائی تنقیدی ہونا چاہیے اور اسے ان میں بیان کردہ قیاسات کوکھوجنا اور ان کے امکانات کو بروئے کار لانا چاہیے۔ موجودہ کتاب اسی نوعیت کی ایک بنیادی تنقید پر مبنی ہے، جس کے اصولوں کو مقدمے میں طے اور بیان کردیا گیا ہے، جبکہ آئندہ ابواب میں اس تنقید کے توثیقی ثبوت و شواہد فراہم کرنے کا کام کریں گے۔ انہی بنیادوں پر میں نے اس طرز و انداز کی جامع و یک رنگ تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں اسلامی فکر 950ء تک کے دور میں ترقی یافتہ ہوچکی تھی۔ دستیاب اور قابلِ رسائی مواد پہلے ہی بہت وسیع ہے اور مستقل طور پر اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ چنانچہ بعد کے ابواب میں اس تمام تاریخی مواد کا زیادہ سے زیادہ ایک خاکہ ہی پیش کیا جاسکا۔ اس کے باوجود، چوںکہ یہ خاکہ جو ایک بنیادی تنقید سے سامنے آتا ہے، عمومی تسلیم شدہ آرا کے لحاظ سے معتدبہ تعداد نکات میں مختلف واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا علم و تحقیق کے موجودہ مرحلے پر ضروری ہے کہ پورے دور کا بھرپور جائزہ لیا جائے اور حتی المقدور ایک جامع تصویر پیش کردی جائے۔
میں نے جب یہ کتاب لکھنا شروع کی تو مجھے ان تمام امور و مواد کو شامل کرنے کی امید تھی جسے میں ’’آزادی اور ارادہ اور قدر‘‘ میں قیمتی سمجھتا تھا اور اب تک سمجھتا ہوں۔ مگر جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا مجھے اندازہ ہوا کہ ایسا کرنا بحث میں عدم توازن کا باعث ہوگا۔ چنانچہ بعض مواد مختصراً لیا گیا یا سرے سے خارج ہی رکھا گیا۔ یہی بات میرے مقالات پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سوانحی اور اس جیسے امور کے لحاظ سے حوالہ جات کامل و جامع ہونے سے دور ہیں‘‘۔
کتاب تین حصوں اور دس ابواب میں منقسم ہے، ہم اس کے زیر بحث مضامین کی تفصیل اس لیے درج کرتے ہیں تاکہ معزز قارئینِ فرائیڈے اسپیشل کتاب کے محتویات سے آگاہ ہوں۔
کتاب کا انگریزی میں نام ہے:۔
The Formative period of islamic thought.
کتاب حسب ذیل تین حصوں میں منقسم ہے:۔
حصہ اول (شروعات632ء۔ 750ء (10 ہجری۔133ھ)
باب اول: خوارج، باب دوم: امویوں کے تحت متقدم شیعی مظر، باب سوم: عام مذہبی تحریک، باب چہارم: حوادثِ کائنات میں خدا کی قضا و قدر، باب پنجم: ایمان وامت
حصہ دوم۔ ابتلا اور محنت کی صدی
(750ء۔ 850ء (132ھ۔ 235ھ)۔
باب ششم: عباسیوں کا قیام، باب ہفتم: تعقل پسندی کی کشش، باب ہشتم: عظیم معتزلہ۔
حصہ سوم ۔ سنیت کی فتح
850ء۔ 945ء (235ھ۔ 333ھ)۔
باب نہم: سنیت اور شیعیت کی قطبیت، باب دہم: سنی الہیات کی بالیدگی۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔