نبی ﷺ کی دعا اور آپ

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیںکہ میں نے رسولؐ اللہ سے ملاقات کی اور پوچھا کہ ’’نجات کا ذریعہ کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر میں پڑے رہو اور اپنے گناہوں پر رو‘‘۔ (احمد ترمذی)۔
کس مومن کے دل میں یہ آرزو نہ ہوگی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعا کا مستحق بنے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ ’’اے اللہ! تُو اس بندے کو خوش و خرم اور شاداب رکھ!‘‘ اس کے حق میں بھی خدا کے یہاں شرفِ قبول پائے۔
کیسا خوش نصیب ہے وہ بندہ جس کے لیے خدا کے رسولؐ دعا فرمائیں۔ اس بات میں کسے تردد ہوسکتا ہے کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی دعا شرفِ قبول پائے گی اور خدا اپنے حبیب کی فرمائش ہرگز رد نہ فرمائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا مستحق دنیا میں بھی خوش و خرم اور شاداب رہے گا، لیکن اصل خوشی اور شادابی تو اُس کو اُس دن حاصل ہوگی جب وہ حشر کے میدان میں خدا کے حضور پہنچے گا۔ ذرا تصور تو کیجیے اس بندے کی خوش نصیبی کا جو حشر کے میدان میں اس طرح آئے کہ اس کا چہرہ مسرت و کامرانی سے چمک رہا ہو اور اس کی نگاہیں دیدارِ الٰہی میں محو ہوں۔
”اس دن بہت سے (خوش نصیبوں کے) چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اور اپنے رب کے دیدار میں محو ہوں گے۔“ (القیامۃ: 23,22:75)۔
جب کہ اسی دن بہت سے بدنصیب وہ بھی ہوں گے جن کے چہرے شرم و ندامت اور گناہوں کی تپش سے جھلسے ہوئے، ہیبت ناک حد تک سیاہ اور اداس ہوں گے۔
”اور بہت سے (بدنصیبوں کے) چہرے اداس اور بے رونق ہوں گے اس آفت کے اندیشے سے جو ان پر آنے والی ہے۔“(القیامۃ: 25,24:75)۔
ذرا اپنے دل کو ٹٹولیے، کیا آپ کے دل میں یہ تڑپ نہیں ہے کہ آپ بھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے مستحق بنیں کہ ’’اے اللہ! تُو اس بندے کو خوش و خرم اور شاداب رکھ!‘‘ اور آپ بھی چمکتے چہرے کے ساتھ خدا کے حضور پہنچیں اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کریں!
……٭٭٭……
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کن لوگوں کے لیے یہ دعا فرمائی ہے اور کون لوگ اس کے مستحق ہیں یقیناً آپ جاننا چاہتے ہوں گے اور بڑی بے تابی کے ساتھ!… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اُن لوگوں کے حق میں فرمائی ہے جو رسولؐ کا پیغام رسولؐ سے سن کر خدا کے بندوں تک پہنچائیں اور دعوت و تبلیغ کا کام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’خدا اس بندے کو شاداب و مسرور رکھے جس نے مجھ سے میرا پیغام سنا اور اسے ٹھیک ٹھیک دوسروں تک پہنچایا‘‘۔
……٭٭٭……
بلاشبہ آپ نبیؐ کی زبان سے نہیں سن سکتے، لیکن یہ موقع بہرحال آپ کو حاصل ہے کہ آپ نبیؐ کی زبان سے نہیں سن سکتے، لیکن یہ موقع بہرحال آپ کو حاصل ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دوسروں تک ٹھیک ٹھیک پہنچائیں اور قلب کی لگن کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیں اور نبیؐ کی دعا کے مستحق بنیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا یقیناً آپ کے حق میں بھی ہے اگر آپ دعوت و تبلیغ کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور حسن و خوبی کے ساتھ یہ عمل کررہے ہیں، یہی آپ کی زندگی کا مشن ہے اور یہی شب و روز کی سرگرمی۔
پھر دعوت و تبلیغ کے اجر و انعام کی کوئی حد اور انتہا نہیں، بالکل ممکن ہے کہ آپ جن لوگوں تک خدا کے رسول کا پیغام پہنچائیں، وہ آپ کے مقابلے میں اس پیغام کی زیادہ حفاظت کریں۔ آپ سے زیادہ اس کے تقاضوں کو سمجھیں، اپ سے زیادہ اس کا حق ادا کریں، اور آپ سے زیادہ شوق و محنت کے ساتھ دوسروں تک اسے منتقل کریں۔ لیکن خدا کا فضل و احسان تو دیکھیے، چونکہ اُن تک دین کا پیغام پہنچنے کا واسطہ آپ بنے ہیں، اس لیے اب رہتی زندگی تک اس واسطے سے جن جن لوگوں کو بھی یہ پیغام پہنچے گا، ان سب کے اجرو انعام کے برابر آپ کو اجر و انعام ملتا رہے گا۔ آپ کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ یہ بے پایاں فضل و کرم فرمائے گا اور ان لوگوں کے اجر و انعام میں بھی کوئی کمی نہ کرے گا۔
……٭٭٭……
البتہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے وقت یہ بنیادی بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے مستحق صرف وہی لوگ ہوں گے جو ٹھیک ٹھیک آپؐ کی دعوت کو منتقل کریں۔ آپؐ سے سننے والوں نے جس طرح آپؐ سے سنا، جس طرح سمجھا اور جس طرح اپنے بعد کی امت کو پہنچایا، ٹھیک اسی طرح آپ بھی دوسروں تک وہ دعوت پہنچائیں، اس میں آپ کو نہ کسی کمی کی اجازت ہے اور نہ کسی اضافے کا اختیار۔ اگر آپ اسی آرزو کے ساتھ دعوتِ دین کا کام کررہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے مستحق بنیں، خدا کا دیدار آپ کو نصیب ہو، اور قیامت کے دن آپ کامیاب اور شادماں خدا کے حضور پہنچیں تو آپ نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کریں، نہ کسی لالچ سے مرعوب ہوں، نہ کسی قوت سے خوف کھائیں اور نہ کسی آزمائش سے ہراساں ہوں۔ ہر آنے والی آفت کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور خدا کا دین بے کم و کاست ٹھیک ٹھیک، خدا کے بندوں تک پہنچائیں اور اس تمنا کے ساتھ یہ سب کچھ کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا آپ کے حق میں قبول ہو، دنیا میں بھی آپ کامیاب و شادماں ہوں اور کل قیامت کے روز بھی آپ کا چہرہ مسرت و کامرانی سے دمک رہا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’خدا اس بندے کو مسرور و شاداب رکھے جس نے مجھ سے کچھ سنا اور پھر اس کو ٹھیک اسی طرح اس نے دوسروں تک پہنچایا جس طرح مجھ سے سنا تھا‘‘ ۔
(الترمذی، کتاب العلم باب 7 فی الحث علی تبلیغ السماع)
بہت سے وہ لوگ جن تک واسطوں سے بات پہنچی ہے وہ اُن سے زیادہ اس پیغام کی حفاظت کرتے ہیں جو براہِ راست سننے والے ہوتے ہیں۔