فرانسیسی صدر طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو توہینِ رسالت برداشت کرنے پر مجبور کررہے ہیں
فرانس میں مسلمانوں کے خلاف مہم عروج پر ہے۔ صدر ایمیونل میخواں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں لیکن اسلام کے خلاف دل میں چھپی نفرت کا کھلا اظہار انھوں نے 2 اکتوبر کو پیرس کے مضافات میں ایک سیمینار سے خطاب میں کیا، جس کا عنوان ”انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی“ تھا۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں میخواں نے کہا کہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ ہم فرانس کو اس بحران کا حصہ نہیں بننے دیں گے اور اسلامی انتہا پسندی سے سیکولر اقدار کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی“۔ اس ”خطرے“ کے سدباب کے لیے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے موثر قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔ جناب میخواں نے انکشاف کیا کہ انتہا پسندی، متوازی رویوں اور مسلم ثقافت خاص طور سے ذبیحہ، حجاب و پردہ جیسے خطرات سے نبٹنے کے لیے اس سال کے آخر تک ایک مسودئہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم انتہا پسند اپنے محلوں، مساجد اور مدارس میں شریعت نافذ کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کررہے ہیں، جس کی بیخ کنی کے لیے موثر قانون سازی ضروری ہے۔
فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے 2015ء میں چھاپے جانے والے گستاخانہ خاکے ستمبر میں دوبارہ شایع کیے تھے جس پر مسلمانوں کے احتجاج کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے میخواں نے کہا کہ ”گستاخی“ کی حد تک آزادیِ اظہارِ رائے فرانسیسی دستور کا حصہ ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہمارے آئین کا احترام کرنا ہوگا۔ انھوں نے خاکوں کی مخالفت کو فرانسیسی اقدار سے متصادم اور متوازی رجحان (Islamic Separatism) قرار دیا۔ مسلمانوں کی اشک شوئی کرتے ہوئے فرانس کے صدر نے کہا کہ ہم اسلام کے خلاف نہیں، لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ جناب میخواں کا کہنا تھا کہ فرانس سیکولر ملک ہے۔ یہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم و رواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔
اسی کے ساتھ معاشرتی تطہیر کا آغاز ہوا اور 75 کے قریب مساجد کو یہ کہہ کر مقفل کردیا گیا کہ یہاں تعینات خطیب عرب ممالک کے سند یافتہ ہیں اور انھیں فرانسیسی تہذیب سے آگاہی حاصل نہیں۔ درجنوں مدارس اور مسلمانوں کے نجی اسکول بھی انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں بند ہیں۔ اپنے خطاب میں جناب میخواں نے کہا کہ اگلے تعلیمی سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، سرکاری اسکول جانا لازمی ہوگا۔ اس سکھا شاہی حکم کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے، نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار جنونی۔ گلی کوچوں میں قائم بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کے روایتی ”مکتب“ بھی بند کردیئے گئے ہیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ درس و تدریس کا کام صرف رجسٹرڈ اسکولوں ہی میں ہوسکتا ہے۔
حجاب پر پابندی کا دائرہ سرکاری اداروں کے ساتھ نجی دفاتر و کاروبار تک بڑھادیا گیا ہے، اور اب کوئی خاتون اپنی دکان پر حجاب کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی۔ اسلامی مدارس کی طالبات کو بھی اسکارف لینے کی اجازت نہیں۔ ”بچیوں اور خواتین پر قدغنوں“ کو ناکام بنانے کے لیے پولیس مسلمانوں کی دکانوں، ڈاکٹروں کے مطب، وکلا کے دفاتر اور کاروباری اداروں پر چھاپے مار رہی ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاشرتی تطہیر کی اس مہم نے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو حوصلہ دیا اور پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47 سالہ استاد سیموئل (Samuel Patty)نے اپنے شاگردوں کو آزادیِ اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے کلاس میں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند توہین آمیز خاکے دکھائے۔ کچھ طلبہ کے مطابق اس سے پہلے استاد نے کہا کہ ”میں جو دکھانے جارہا ہوں، وہ شاید مسلمان طلبہ کو پسند نہ آئے، لہٰذا وہ اگر چاہیں تو کلاس سے چلے جائیں۔“
بہت سے مسلمان طلبہ نے اس بات کا ذکر اپنے گھروں میں کیا، چنانچہ والدین نے ہیڈماسٹر سے اس واقعے کی شکایت کی۔ والدین کا کہنا تھا کہ کلاس میں بارہ تیرہ سال کے نوخیز بچے ہیں جن کے سامنے استاد کی جانب سے ان کے عقیدے کی توہین کسی طور بھی مناسب نہیں اور سیموئل پیٹی سے جواب طلبی ہونی چاہیے۔ ایک لڑکی کے والد نے پولیس تھانے میں بھی شکایت درج کروائی۔
طلبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر احتجاج کیا اور کچھ عناصر کی طرف سے سیموئل پیٹی اور اسکول انتظامیہ کو قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔ اسکول انتظامیہ نے ان تمام اعتراضات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اسکول کے اساتذہ سبق کی تیاری کے سلسلے میں بااختیار ہیں، خاکے دکھا کر سیموئل نے اسکول کے ضابطوں یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ مزید یہ کہ مذہبی جذبات کے نام پر آزادیِ اظہارِ رائے کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔
جمعہ 23 اکتوبر کو اسکول سے چھٹی پر جب سیموئل پیدل اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو اس کے انتظار میں کھڑے ایک 18 سالہ شیشانی نوجوان عبداللہ انذروف نے چھرے سے وار کرکے سیموئل کا سرقلم کردیا۔ کارروائی کے بعد فرار ہونے کے بجائے وہیں کھڑے ہوکر عبداللہ نے مقتول کی تصویر اپنے ٹویٹر پر اس پیغام کے ساتھ لگادی کہ ”میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے جہنم کے ایک کتے کو سزا دے دی ہے“۔ اسی دوران انسداد دہشت گردی عملہ وہاں پہنچ گیا جنھیں دیکھ کر عبداللہ نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ جواب میں پولیس کی فائرنگ سے عبداللہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
اس واقعے پر میخواں اور اسلام مخالف عناصر آپے سے باہر ہوگئے۔ فرانسیسی صدر نے اسکول کے باہر ایک ریلی کی قیادت کی جہاں لوگ خاکوں کے پلے کارڈ لیے کھڑے تھے۔ بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ وہ تمام والدین تھانوں میں تعذیب بھگت رہے ہیں جنھوں نے سیموئل پیٹی کے خلاف اسکول انتظامیہ اور پولیس کو درخواست دی تھی۔ عبداللہ سے سہولت کاری کے الزام میں درجنوں طلبہ اور ان کے والدین زیر حراست ہیں۔
گزشتہ ہفتے چارلی ہیبڈو نے کچھ نئے گستاخانہ خاکے شایع کیے ہیں اور اس بار جو خاکے بنائے گئے اس کا وضاحتی ذکر بھی یہاں مناسب نہیں۔ رسالے میں اشاعت کے ساتھ پروجیکٹر کے ذریعے ان خاکوں کی بڑی بڑی عمارات پر نمائش کی گئی اور پوسٹر کی شکل میں چھاپ کر مسلم محلوں میں دیواروں پر آویزاں کیا گیا۔ صدر میخواں نے ایک بار پھر اس گستاخی کی بھرپور حمایت کی اور فرمایا کہ مسلمانوں کو اب اس کا عادی ہوجانا چاہیے۔ وہ شوق سے احتجاج کریں، جوابی خاکے بناکر اسی طرح دیواروں پر لگائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن وزیر داخلہ منوئیل واس نے ایک حکم کے ذریعے خاکوں کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگادی ہے۔ وزارت داخلہ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ خاکوں کی مذمت میں ہونے والے مظاہروں کو بھرپور طاقت سے کچل دیا جائے اور منتظمین کے خلاف دہشت گردی کے پرچے کاٹے جائیں۔ یہ دفعہ 144جیسا کوئی حکم نہیں بلکہ اس پابندی کا اطلاق صرف اور صرف خاکوں کے خلاف مظاہروں پر ہوگا۔
آج اسلام اور مسلم ثقافت کو فرانس سے کھرچ دینے کا عزم رکھنے والے میخواں 2017ء کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت سے برسراقتدار آئے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ 2000ء میں امریکی مسلمانوں نے ایسے ہی جوش وخروش سے صدر جارج بش کا ساتھ دیا تھا۔ اُس وقت ان کے مخالف سابق نائب صدر ایل گور نے ایک یہودی جولائبرمین کو نائب صدر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ جارج بش نے خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کیا۔ حجاب و پردے کی مکمل حمایت، سرکاری اسکولوں میں عبادت کی اجازت، منشیات کے خلاف سخت اقدامات کے نعروں سے مسلمان بے حد متاثر ہوئے، اور ایک جائزے کے مطابق اسّی فیصد مسلمانوں نے جارج بش کو ووٹ دیا، لیکن نائن الیون کی آڑ میں مسلمانوں کے اسی ہمدرد نے مسلم دنیا کو جہنم زار بنادیا، اور اس کی لگائی ہوئی آگ امت کی خوشی و خوشحالی کے ساتھ امنگوں اور آرزووں کو بھی چاٹ گئی۔
گزشتہ انتخابات میں میخواں کا مقابلہ نیشنل فرنٹ (National Front) کی Marine Le Pen سے تھا۔ اُس وقت مسلمانوں کے بارے میں میری لاپن کا بیانیہ اور لب و لہجہ بالکل وہی تھا تو جناب میخواں نے اب اختیار کیا ہے۔ نیشنل فرنٹ کے بانی میری لاپن کے والد جین لاپن تھے، اور اس جماعت کی بنیاد ہی ”فرانس کو مسلمانوں سے پاک کرو“ کے نعرے پر تھی۔ ابتدا میں اسے پذیرائی نصیب نہیں ہوئی لیکن 2016ء میں جب صدر ٹرمپ نے ”مسلم بین“ ((Muslim Banکے نعرے پر مقبولیت حاصل کی تو اسی بیانیے کو ہنگری کے وکٹر اوربن، ہالینڈ کے گیرٹ وائلڈرز، اور فرانسیسی میرین لاپن نے آگے بڑھایا۔ مسلم مخالفین کو ہالینڈ میں تو کوئی خاص کامیابی نہ ہوسکی لیکن وکٹر اوربن اور فرانس میں لاپن کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل فرنٹ دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ اسی قوت کا اثر تھا کہ صدارتی انتخابات میں میخواں 50 فیصد ووٹ نہ حاصل کرسکے اور ضابطے کے مطابق دوسرے مرحلے یا run-offکی ضرورت پیش آئی۔ آج اسکارف کو سالمیت کے لیے خطرہ قرار دینے والے ایمیونل میخواں کو تین سال پہلے لاپن کی تنگ نظری، فرانس کی سالمیت کے لیے خطرہ نظر آرہی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران میخواں مساجد بھی گئے، جہاں کے دبیز قالینوں پر ننگے پیر چلنا ان کو بہت اچھا لگا۔ مدارس میں فرانسیسی بچوں کی قرات بھی ان کے کانوں پر بار نہ محسوس ہوئی۔ یہ مسلمانوں کی پُرجوش حمایت کا نتیجہ تھا کہ میخواں نے 66 فیصد ووٹ لے کر میرین لاپن کو شکست دے دی۔ تاہم لوگوں کو تعجب تھا کہ ایک آزاد و روشن خیال ملک میں دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ نے 33 فیصد ووٹ کیسے لے لیے! پاکستان کے ممتاز صحافی جناب ضیا چترالی کی گراں قدر تحقیق کے مطابق میرین لاپن کی انتخابی مہم کی مالی اعانت متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید نے فراہم کی تھی اور یہ مدد آج تک جاری ہے۔
کچھ عرصے سے جناب میخواں کو ملک کے اندر شدید سیاسی دباو کا سامنا ہے۔ موصوف تین سال پہلے دودھ و شہد کی نہر بہانے کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے، لیکن معیشت کی بحالی کے لیے ان کی قدامت پسندانہ اصلاحات کو مزدور اور غریب طبقے کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور زرد صدری (Yellow Jacket) مظاہرین نے سارے فرانس کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ملک گیر مظاہروں، دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل گیا اور رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی۔ وبا سے نبٹنے کے لیے فرانسیسی حکومت کے غیر موثر اقدامات پر عام لوگ حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کی فکر میں میخواں حکومت لاک ڈاؤن سے گریز کرتی رہی جس کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور اس کا دورانیہ بھی طویل رہا۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات شروع ہی ہوئے تھے کہ کورونا کی نئی وبا سرپر آگئی اور اب نئے لاک ڈاؤن نے ملکی معیشت کا کچومر نکال دیا ہے۔ دوسری طرف میرین لاپن نے ”نااہل میخواں“ کے عنوان سے مہم شروع کررکھی ہے جس کی عوامی حمایت میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ فرانسیسی صدر کو اندازہ ہے کہ نیشنل فرنٹ کی اصل قوت مسلم مخالف عناصر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں صدر میخواں نے میرین لاپن کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی حالیہ مسلم مخالف مہم کے پیچھے یہی شیطانی فکر کارفرما ہے۔
صدر میخواں کے اس رویّے نے فرانسیسی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنادی ہے۔ چھاپے اور پکڑ دھکڑ عام ہے، لاتعداد نوجوانوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ مساجد بند اور مدارس ویران ہیں۔ اخبارات توہین آمیز خاکوں اور شرمناک مواد سے بھرے پڑے ہیں۔ خبر گرم ہے کہ خاکوں پر مشتمل ایک کتاب بھی شایع ہورہی ہے۔
تاہم یہ مہم جوئی خود فرانس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ میخواں صاحب کی شیخی اپنی جگہ، لیکن فرانس امریکہ، روس اور چین کی طرح کوئی عالمی طاقت نہیں۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ترک اپیل پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ قطر، کویت، مراکش اور الجزائر میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ فرانس سے ان چار ممالک کی سالانہ درآمدات کا حجم 27 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ ترکی تقریباً 7 ارب ڈالر مالیت کا سامان ہر سال فرانس سے خریدتا ہے۔ پیرس میں بائیکاٹ کے اثرات محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 26 اکتوبر کو فرانسیسی وزارت خارجہ نے عرب ممالک کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ فوراً ختم کردیا جائے۔ فرانس کے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا سے تباہ حال معیشت عالمی بائیکاٹ کی ضرب برداشت نہیں کر پائے گی۔
فرانس کو سب سے زیادہ ڈر اپنی منافع بخش دفاعی صنعت کے متاثر ہونے کا ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران ترکی نے اس میدان میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ اس کے میزائل بردار ڈرونز نے لیبیا اور اس کے بعد نگورنو کاراباخ میں اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھادی ہے۔ اس کے علاوہ ترک ساختہ بکتربند گاڑیاں، ٹینک اور فضائی دفاعی نظام کی بڑی مانگ ہے۔ ماضیِ قریب میں ترکی نے قطر، لیبیا، آذربائیجان، قازقستان یوکرین اور دوسرے ممالک کو دفاعی سازوسامان فروخت کیا۔ یہ تمام ممالک فرانسیسی اسلحے کے بڑے گاہک ہیں۔
فرانسیسی صدر طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو توہینِ رسالت برداشت کرنے پر مجبور کررہے ہیں، حالانکہ سخت ترین قوانین کے باوجود توہینِ رسالت پر اشتعال انگیز ردعمل میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حالیہ واقعہ سے چند ہفتے پہلے جب بدنام زمانہ چارلی ہیبڈو نے 2015ء میں شایع ہونے والے خاکے دوبارہ شایع کیے تو اس پر مشتعل ہوکر ایک پاکستانی لڑکے نے چھرے سے وار کرکے پیرس میں دو افراد کو زخمی کردیا تھا۔
صدر میخواں نے سیکولرازم کے نام پر فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اس سے ملکی اقتصادیات کے ساتھ فرانس کی نظریاتی و اخلاقی ساکھ کو بھی سخت خطرہ لاحق ہے۔ فرانسیسی صدر کے سخت گیر رویّے کو ممتاز دانشور، صدر میخواں کی سوشلسٹ پارٹی کی رہنما اور سابق وزیرتعلیم محترمہ نجات ولید ابوالقاسم نے سیکولر انتہا پسندی یا Militant Secularityقرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈر ہے کہ اگر مسلم مخالف قانون سازی کے لیے ان کی مہم کامیاب ہوگئی تو عدم برداشت کےحوالے سے فرانس چین کے ہم پلہ ہوجائے گا۔ میخواں اور فرانسیسی انتہا پسندوں کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کا موقف بھی یہی ہے کہ بطور عقیدہ اسلام عظیم مذہب ہے لیکن چینی ثقافت کے متوازی اقدار و رسوم کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے مطابق خوراک، لباس اور رسوم و عبادات، حتیٰ کہ چینی زبان کے سوا کسی اور زبان میں روزمرہ تہنیتی الفاظ ناپسندیدہ ”ثقافتی آلودگی“ اور ملکی سلامتی کے لیے سخت خطرہ ہیں۔