اور اب سوڈان۔۔۔ اسرائیل کے در پر

دہشت گردی کے الزام کی زنجیر کٹتے ہی سوڈان برضا و رغبت آئی ایم ایف اور وولڈ بینک قرضوں کا نقرئی بلکہ طلائی قلادہ اپنے گلے میں ڈال لے گا

سوڈان او ر اسرائیل اپنے باہمی تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ اس بات کا اعلان جمعہ (23 اکتوبر) کو قصرِ مرمریں کے اپنے بیضوی دفتر میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا، جہاں فون پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو، سوڈان عبوری فوجی کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان اور وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ حمدوک بھی موجود تھے۔ امریکی صدر نے بتایا کہ اسرائیل اور سوڈان نے ایک دوسرے کے ساتھ امن قائم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے فخریہ اندازمیں کہا کہ سوڈان تیسرا ملک ہے جو ”معاہدۂ ابراہیم “کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کررہا ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی کئی دوسرے ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کریں گے۔ صدر ٹرمپ یہاں تک کہہ گئے کہ جلد ہی فلسطینی بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ تاہم جس وقت امریکی صدر واشنگٹن میں اپنے امید افزا الفاظ سے امن کے دیپ جلا رہے تھے عینی اسی وقت رام اللہ سے جاری ایک بیان میں مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل اور سوڈان کے مابین اس پیش رفت کو فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے تعبیر کیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے باب میں سوڈان کی فوجی جنتا کوعوام کی جانب سے شدید ردعمل کا خوف ہے، اسی بنا پر مشترکہ اعلامیے میں الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق آئندہ چند ہفتوں میں دونوں ممالک زراعت، معیشت، تجارت، ہوا بازی اور سوڈانی یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کے معاملات سمیت باہمی امور پر تعاون کی راہیں تلاش کرنے کے لیے مذاکرات شروع کریں گے۔ یعنی اس میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں کوئی یقین دہانی شامل نہیں۔ اس احتیاط کا مزید مظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیا جب سوڈان کے عبوری وزیرخارجہ عمر جمال الدین نے خرطوم میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز سوڈانی مقننہ سے توثیق کے بعد ہوگا، اوراب تک کے اقدامات تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے محض گفتگو کا آغاز ہے۔ ہمیں سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے پارلیمان اور جمہوری اداروں کے قیام (انتخاب) تک انتظار کرنا ہوگا کہ اہم فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق منتخب ہونے والی قیادت ہی کرسکتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل وزیراعظم اس اعلان پر بہت پُرجوش ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے معاہدے کو امن کے لیے ایک زبردست کوشش قرار دیا۔
سوڈانی عوام کی مخالفت کے باوجود فوجی جنتا یہ کڑوی گولی نگلنے کو کیوں تیار ہوئی؟ آج کی نشست میں اسی حوالے سے چندگزارشات نذرِ قارئین کی جائیں گی ،جس کا آغاز ہم پس منظر سے پہلے پیش منظر پر گفتگو سے کرتے ہیں:۔
گزشتہ ہفتے اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سوڈان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور صدر کی ترجمان کیلی این مک اینی نے ایک بیان میں بتایا کہ صدر نے اپنے ارادے سے امریکی کانگریس کو بھی مطلع کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ نے بین الاقوامی قرضے کے حصول کے لیے سوڈان کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی دہشت گردی کے الزام کی زنجیر کٹتے ہی سوڈان برضا و رغبت آئی ایم ایف اور وولڈ بینک قرضوں کا نقرئی بلکہ طلائی قلادہ اپنے گلے میں ڈال لے گا۔ ’زنجیر بھی تیری ہے دیوانہ بھی تیرا ہے‘۔
سوڈان سے پہلے ملا عبدالغنی برادر، ملا عبدالسلام ضعیف اور عباس ستانکزئی سمیت بہت سے نامی گرامی افغان ’’دہشت گردوں‘‘ کو بیک جنبش قلم نیک چال چلن کی اسناد جاری کی جاچکی ہیں۔ ان میں سے کئی پاکستان کے بدنام زمانہ ’سیف ہائوسز‘ (safe houses) میں بدترین تشدد کی بھٹی سے گزارے گئے، اور کچھ ’’خوفناک دہشت گرد‘‘ گوانتا نامو کے عقوبت کدوں کی زینت بھی بنے، لیکن نہ تو ان میں سے کسی پر فردِ جرم عائد ہوئی، اور نہ ہی ان کے ماتھے پر ثبت کلنک کے ٹیکے کو کھرچ کر پہلو نشینی سے سرفراز کرنے کی وجہ بتائی گئی۔ پس ثابت یہ ہوا کہ دہشت گرد وہ ہے جو ہماری بات نہ مانے۔ حکم عدولی پر ملا ضعیف جیسے مستند سفارت کار کو سرِعام برہنہ کرکے مشکیں کس دی گئیں لیکن ضرورت پڑنے پر اسی ’’دہشت گرد‘‘ کو مذاکرات کار قرار دے کر ان کا سفارتی رتبہ بحال کردیا گیا۔ سب سے بڑے ’’دہشت گرد‘‘ ملا برادر کی عزت افزائی کا توکیا پوچھنا کہ ملا صاحب کو شہنشاہ معظم نے بذریعہ فون ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا۔کس میں ہمت ہے کہ اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی سے پوچھے کہ نیک بخت! دہشت گرد کے اوصافِ حمیدہ ہیں کیا، جس کی بنیاد پر کسی شخص کو مع زن و بچہ کولہو پلوا دیا جائے؟
اب کچھ گفتگو صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے پر، جس کا اعلان اِس سال 28 جنوری کو کیا گیا۔ اس معاہدے میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی ضمانت دی گئی تھی۔ لیکن معاہدے کی تیاری میں تنازعے کے دوسرے فریق یعنی فلسطین کو شریکِ مشورہ تو دور کی بات، اعلان سے پہلے اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔181 صفحات پر مشتمل یہ دستاویزجسے صدر ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری قرار دیا تھا، امریکہ کے دامادِ اول جیررڈ کشنر نے تحریر فرمائی ہے۔ فلسطینیوں نے یہ ’ڈیل‘ یکسر مسترد کردی۔ مقتدرہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس کا کہنا تھا کہ تجویز پر غور تو دور کی بات، وہ متعفن کچرے کے اس 181 صفحاتی ڈھیر کو ردی کی ٹوکری میں بھی جگہ دینے کو تیار نہیں۔
فلسطینیوں کے اس صاف انکار پر جیررڈ کشنر نے عرب و اسرائیل امن معاہدے سے فلسطینیوں کو الگ کردینے کی مہم شروع کی جسے معاہدۂ ابراہیم کا نام دیا گیا، یعنی حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تینوں مذاہب کے ماننے والوں کا عہدِ امن۔ یہ مہم کامیاب رہی اور سب سے پہلے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا، جس کے کچھ ہی دن بعد بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ ان دستاویزات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں میں فلسطینی ریاست یا اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی موجودگی میں امریکہ کے دامادِ اوّل نے کہا کہ معاہدۂ ابراہیم کے بعد عرب و مسلم ممالک فلسطینی ترجیحات سے بالاتر ہوکر اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔ گویا جیررڈ کشنر نے عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکال دیا ہے۔
انتخابی مہم میں تیزی آنے پر صدر ٹرمپ کو ایک چشم کشا سفارتی کامیابی کی ضرورت تھی۔ اسی دوران یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرلیا بلکہ ان کے وزیراعظم عبداللہ ہوتی نے یہ کہہ کر صدر ٹرمپ کی طبیعت کو باغ باغ کردیا کہ کوسووو اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں تعمیر کرے گا۔
اس کامیابی کے باوجود صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ امریکی انتخابات سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اس مقصد کے لیے جیررڈ کشنر نے اپنے ’دوست‘ سے فون پر تفصیلی گفتگو کی۔ جناب کشنر نے اس بات چیت کو امریکی اصطلاح میں دوستانہ chat قرار دیا، جس کے بعد سعودی عرب کو راضی کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ ریاض تشریف لے گئے لیکن بات نہ بنی۔ 24 اکتوبر کو اسرائیلی اخبار ہارٹز (Haaretz) نے سعودی ولی عہد کے قریبی دوست و معروف سرمایہ کار و فلم سازجناب حائم شعبان کے حوالے سے انکشاف کیا کہ محمد بن سلمان (MBS) اپنی جان کے ڈر سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ اسکندریہ، مصر کے یہودی خاندان میں جنم لینے والے 76 سالہ حائم شعبان اسرائیل کے ساتھ امریکی شہریت کے بھی حامل ہیں۔ جمعہ کو فلوریڈا میں جوبائیڈن کے ایک آن لائن انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حائم شعبان نے بتایا کہ ان سے گفتگو میں MBS نے خطرہ ظاہر کیا تھا کہ اگر سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح اسرائیل کو تسلیم کیا تو ایرانی و قطری ایجنٹ بلکہ شاید سعودی ہی اپنے ولی عہد کو قتل کردیں۔ تادم تحریر مسٹر شعبان کے اس انکشاف پر سعودی عرب کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
سعودی عرب کی جانب سے مایوسی کے بعد اسرائیل کے لیے نئے دوستوں کی تلاش کا کام شروع ہوا اور قرعہ فال سوڈان کے نام نکلا۔ بحر احمر کے ساحل پر لیبیا، چاڈ، اریٹیریا اور ایتھوپیا کے پڑوس میں واقع 4 کروڑ نفوس پر مشتمل سوڈان ایک وقت میں افریقہ کا نسبتاً خوشحال ملک شمار ہوتا تھا۔ زراعت عروج پر تھی اور تیل کے چشموں نے اس کی قومی دولت میں اضافہ کردیا۔ لیکن پڑوسی ممالک اور بڑی طاقتوں کی مداخلت سے فروغ پانے والی خانہ جنگی نے اس کا دیوالیہ نکال دیا۔ رہی سہی کسر باوردی حکمرانوں کی کرپشن نے پوری کردی۔
۔1993ء میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام لگاکر سوڈان کو دہشت گردوں کی اعانت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ڈال دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ سوڈان نے اس کی تردید کی، لیکن چچا سام کے آگے کس کی چلتی ہے! 1998ء میں تنزانیہ اور کینیا کے امریکی سفارت خانوں پر حملے کا الزام بھی سوڈان کے سر منڈھ دیا گیا۔ امریکی حکام کاکہنا تھا کہ حملے کی منصوبہ بندی القاعدہ نے سوڈان میں کی تھی۔ اس کے دوسال بعد 12 اکتوبر 2000ء کو عدن (یمن) کی بندرگاہ پر ایندھن بھرتے ہوئے امریکہ کے جنگی جہاز کول (USS Cole) کو نشانہ بنایا گیا۔ اس خودکش حملے میں 16 امریکی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ سی آئی اے کا خیال ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی بھی سوڈان میں کی گئی تھی۔
نائن الیون (9/11)حملوں کے بعد ایک غیر تحریری ’نئے عالمی نظام‘ یا New World Orderکا اجرا ہوا، جس کی بنیاد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ ’’اگر دہشت گردی کی جنگ میں تم ہمارے ساتھ نہیں تو دہشت گردوں کے ساتھ ہو‘‘۔ اور دنیا کے مختلف ممالک اور تنظیموں پر دہشت گرد کا ٹھپہ لگانے کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ سوڈان پر پابندیاں مزید سخت کرنے کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین نے جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت تیز کردی۔ سوڈان کے آمرِ مطلق جنرل عمرالبشیر کو لارا دیاگیا کہ اگر وہ جنوبی سوڈان کی برضا و رغبت علیحدگی قبول کرلیں تو ان کے ملک کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال لیا جائے گا، چنانچہ عمرالبشیر ریفرنڈم پر رضامند ہوگئے۔ جنوری 2011ء کے استصواب میں 98 فیصد افراد نے مکمل آزادی کے حق میں رائے دی، اور سوڈانی پارلیمنٹ نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے جنوبی سوڈان کوآزاد کرنے کا اعلان کردیا۔
تیل سے مالامال جنوبی حصے کی علیحدگی نے سوڈان کی کمر توڑ دی اور غلہ برآمد کرنے والے سوڈان کو کھانے کے لالے پڑگئے۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود ملک کی بے ایمان و بے رحم فوجی جنتا نے لوٹ مار جاری رکھی۔ 2018ء کے آخر میں سوڈانیوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور نہتے عوام فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اسی کے ساتھ سارے ملک میں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل عمرالبشیر کو فوجی جنتا نے معزول تو کردیا لیکن ملک کی باگ ڈور ’بلڈی‘ سویلین کے حوالے کرنے کے بجائے ایک انقلابی عبوری کونسل تشکیل دے دی گئی، جس کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان ہیں۔ عوام کی اشک شوئی کے لیے ماہر معاشیات ڈاکٹر عبداللہ حمدوک کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ عبوری کونسل جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، انتخابات کے انتظامات کے لیے بنائی گئی ہے، لیکن انتخابات سے پہلے احتساب کا نعرہ لگاکر چنائو کو 2022ء تک ملتوی کردیا گیا۔
عبوری کونسل کے سربراہ مغرب میں قبولیت کے لیے پہلے دن سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سویلین وزیراعظم چاہتے ہیں کہ اس قسم کے کلیدی فیصلے کو منتخب حکومت کے لیے چھوڑ دیا جائے، لیکن جنرل صاحب دوامِ اقتدار کی خواہش میں اسرائیل سے تعلقات کے لیے بے قرار ہیں۔ اس سال سال فروری میں انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم سے براہِ راست ملاقات کی تھی۔ یہ رازونیاز یوگینڈا کے شہر انتیبے میں ہوئے جسے سوڈانیوں سے خفیہ رکھا گیا، لیکن اسرائیلی میڈیا نے اس کا بھانڈا پھوڑدیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے سوڈان کو ترغیب دی گئی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ افغانستان میں جس فراخ دلی سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو نیک چلن کی اسناد جاری کی گئی ہیں جباریت سے لبریز کچھ ایسا ہی مشفقانہ انداز یہاں بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تنزانیہ وکینیا کے سفارت خانے اور امریکی بحری جہاز پر حملے میں واقعی سوڈان ملوث ہے تو کیا یہ گھنائونے جرائم اس کے نامۂ اعمال سے بس اتنی سی بات پر محو کردیے جائیں گے کہ خرطوم نے اسرائیل کو ایک آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ہے؟
عوامی امنگوں کے خلاف فیصلہ کرکے بھی سوڈان کی مشکلات اتنی آسانی سے ختم ہوتی نظر نہیں آتیں۔ دہشت گرد واقعات کے متاثرین کو سوڈان کی جانب سے تاوان کی ادائیگی بھی اس سودے کا حصہ ہے۔ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ سوڈان کی عبوری حکومت نے 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رقم ایک امریکی اکاؤنٹ میں جمع کرادی ہے جو متاثرین و لواحقین کو دی جائے گی۔ سوڈان کے قانونی ماہرین کو اس بندوبست پر تشویش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاوان کی ادائیگی کا مطلب دہشت گرد سرگرمی کا اعتراف ہے، اور پہلی قسط کی ادائیگی پر ذیلی و اضافی متاثرین بھی سامنے آسکتے ہیں۔ لیکن خود کو عقلِ کل سمجھنے والے جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے سوڈانی ماہرین سے مشورہ کیے بغیر یہ خطیر رقم امریکہ کے حوالے کردی۔
سوڈان کے ماہرینِ قانون نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ ابھی سے درست ثابت ہونے لگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد دہشت گردی متاثرین کے وکلا نے سوڈان کی جانب سے فراہم کردہ رقم کو بہت کم قرار دیا ہے۔ یہ ایک دیوانی مقدمہ ہے جس میں امریکی حکومت مداخلت نہیں کرسکتی، اور اب جبکہ سوڈان نے جرم کا سرکاری طور پر اعتراف کرلیا ہے تو خرطوم عدالت کے فیصلے کا پابند ہے۔ عدالتیں اس قسم کے مقدمات میں عام طور سے سائلین کے مطالبات کی حمایت کرتی ہیں۔ متاثرین کی نمائندہ تنظیم Sudan Terror Victims Group نے سوڈان کی جانب سے معاوضے کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔
سوڈان کی گلو خلاصی کے ضمن میں ایک اور رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس کو امریکی کانگریس نے دہشت گرد ملک قرار دیا تھا، چنانچہ پاک دامنی کی سند بھی کانگریس کی توثیق کے بعد جاری ہوگی۔ عام انتخابات میں اگر صدر ٹرمپ شکست کھاگئے تو جوبائیڈن اس پورے معاملے پر نظرثانی کا حکم دے سکتے ہیں، اور کانگریس بھی متاثرین کے دبائو میں آکر تاوان کی رقم میں اضافے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
دوسری طرف سوڈانی فوجی جنتا اور عبوری حکومت کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کی تجویز کو سوڈان کی سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت نیشنل اُمّہ پارٹی، بائیں بازو کی بعث پارٹی اور قوم پرست پاپولر کانگریس پارٹی نے جنرل برہان کے فیصلے کو مینڈیٹ سے تجاوز قرار دیا ہے۔ خرطوم میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور اُمّہ پارٹی کے سربراہ صادق المہدی نے کہا کہ عبوری کونسل کا کام انتخاب کروانا ہے، اور اسے اس نوعیت کے کلیدی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔ جناب مہدی نے کہا کہ سوڈان کے عوام جرنیلوں کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔
سوڈان کے شہروں میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے خلاف مظاہرے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت نے مسلم دنیا میں ہیجان پیدا کردیا ہے اور اس تناظر میں اسرائیل سے تعلقات پر عام سوڈانی خاصا مشتعل ہے۔
خرطوم کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ جلد بازی میں جنرل برہان نے اپنے ملک کو ایک نئی مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برعکس سوڈانی عوام اپنے حقوق اور رائے کے جرأت مندانہ اظہار کے لیے سڑکوں پر آنے کے عادی ہیں۔ ایک طرف سوڈانی عوام مسئلہ فلسطین کے حل سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں، تو دوسری جانب امریکی کانگریس سے دہشت گردی کا لیبل ہٹوانا بھی ایک صبر آزما کام ہے۔ اگلے ہفتے عام انتخابات کے بعد نئی کانگریس کا اجلاس جنوری کے پہلے ہفتے میں ہوگا۔ پارلیمانی سال کا پہلا ایک مہینہ کمیٹی سازی میں صرف ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کے متاثرین کی مالی مدد یا stimulus پیکیج، بیمہ صحت، امیگریشن اصلاحات اور دوسری اہم قانون سازی ہونی ہے۔ اس دوران ترغیب کاروں (Lobbyists) کے ذریعے متاثرین اور ان کے وکلا کانگریس کو اپنے حق میں ہموار کرچکے ہوں گے۔ دوامِ اقتدار کی جرنیلی خواہشات نے سوڈان کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے، اور ڈر ہے کہ کہیں سوڈانیوں کے لیے یہ سو پیاز اور سو جوتے والامعاملہ نہ بن جائے۔

آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔