سیاسی حکومت ہو یا فوجی مثبت کام کرہی نہیں سکتے

جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد سے خصوصی گفتگو

پاکستان میں موروثی سیاست کا، عالمی ایجنڈے کے فروغ میں اہم کردار ہے۔ موروثی سیاست عالمی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ موروثی سیاست کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اس کی وفاداری آسانی سے خرید سکتے ہیں، آپ کو وفاداری خریدنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ موروثی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ پسند کرتی ہے۔ پاکستان میں موروثی سیاست دانوں کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ مقامی حکومتوں میں بھی انہی کا غلبہ رہتا ہے۔ پاکستان میں سبھی سیاسی جماعتیں جمہوریت مضبوط کرنے کی دعویدار ہیں، تاہم ایک آدھ سیاسی جماعت کے سوا کوئی ایسی پارٹی مشاہدے میں نہیں آئی جو اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل پیرا ہو۔ ’’عام لوگ اتحاد‘‘پارٹی کے بانی اور تحریک انصاف کے سابق رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نےفرائیڈے اسپیشل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف راولپنڈی آتا ہے، لیکن ایسی بات نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ عالمی سطح کی ایجنسی ہے اور جی ایچ کیو میں بیٹھے لوگوں کے پاس صرف احکامات آتے ہیں، اور وہ ان پر عمل درآمد کروانے والے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک اور خصوصاً برصغیر میں موروثی سیاست کا عمل جاری ہے، جس سے آپ اپنی مرضی کاکام لے سکتے ہیں، یہ سلسلہ ماضی سے چلتا آرہا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اس کھیل کو جب سمجھ لیا تو انہوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اٹھا کر پھینک دیا، اور اب دیکھیں وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہم اس کے شکنجے کے اندر پھنسے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ موروثی سیاست ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب اس طرح ملک چلایا جاتا ہے تو ملک ٹوٹتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دیگر سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات کا تعلق ہے ہمارے یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اس نوعیت سے منظم نہیں ہے۔ کسی جماعت میں انٹراپارٹی الیکشن اس طرح سے نہیں ہوتے جس طرح برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کی پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر صرف نام کی جمہوریت ہے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا کہ پاکستان میں نچلے طبقے سے لوگوں کا پارٹیوں میں اندراج ہونا چاہیے، سیاسی جماعتوں میں قیادت نچلی سطح سے آنی چاہیے، اور پھر انہیں لوکل گورنمنٹ، صوبائی و قومی اسمبلیوں اور پھر سینیٹ تک پہنچنا چاہیے۔ لیکن یہ کام پاکستان میں کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے، کیوں کہ ہمارے ملک میں لوگوں کے اندر(سیاسی) شعور اور تعلیم و تربیت ہی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اگر کوئی شخص کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو وہ بنیادی طور پر اس لیے شامل ہوتا ہے کہ وہ اس سیاسی جماعت کے لیڈر کو پسند کرتا ہے، یا اس نے اس سیاسی جماعت کے لیڈر کو پوجنے والے ایک بت کا درجہ دے رکھا ہوتا ہے۔ اُسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس سیاسی جماعت کا منشورکیا ہے، اس کا ماضی کیا ہے، وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہے۔ جس قوم کا یہ حال ہو اس ملک میں جمہوریت بھی ایسی ہی ہوگی اور انٹرا پارٹی الیکشن بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے ہوتے رہے ہیں جب تک آپ کے ملک میں سو فیصد تعلیم نہ ہو، اور جب تک یہاں کے لوگ تربیت یافتہ نہ ہوں۔ کیونکہ آپ کو تو ملک کے مسائل کا پتا ہی نہیں ہے، اور آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کے ملک کے ساتھ کیا ہورہا ہے، آپ جانتے ہی نہیں کہ خود آپ کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ جب آپ یہ باتیں جانتے ہی نہیں ہیں تو کس طرح جمہوری عمل کا حصہ بنیں گے، اور آپ یہ سب کچھ جانتے ہی نہیںہیں توانٹرا پارٹی الیکشن میں کس طرح اچھے لوگوں کو لے کر آئیں گے!
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھٹو پر قتل کا کیس ثابت ہوا، وہ فیصلہ جو سپریم کورٹ کا تھا ٹھیک ہی فیصلہ تھا۔ اس کا وسیع تناظر میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سزائے موت کا کیس نہیں بنتا تھا، وہ عمر قیدکا تھا۔ اور اس سے بڑا سقم اس کیس میں یہ تھا کہ عدالت کے کچھ ججوں کے اوپر ضیاء الحق اثرانداز ہوچکے تھے۔بھٹو کو قانون کے حساب سے زیادہ سے زیادہ سزا دی گئی ہے، جبکہ اس سزا میں گنجائش یہ تھی کہ ان کو عمرقید کی سزا دی جاسکتی تھی۔ اس لحاظ سے اگر جوڈیشل مرڈر(عدالتی قتل) کی تعریف دیکھی جائے تو وہ تعریف نہیں بنتی تھی جو ان کے حامی بتاتے ہیں، لیکن اتنی ضرور بنتی ہے کہ ایک فیصلہ ہوا جس میں سزا اتنی شدید نہیں ہونی چاہیے تھی۔ میں موروثی سیاست کے تناظر میں یہ ساری باتیںکررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 1979ء میں بھٹو کو پھانسی ہونے کے 11سال بعد بے نظیر بھٹو اقتدار میں آگئی تھیں۔ ایک بیٹی جو اپنے باپ سے اس قدر محبت کرتی تھی اور باپ بھی اپنی بیٹی سے اسی طرح محبت کرتے تھے، لیکن وہی بیٹی اسٹیبلشمنٹ کی اتنی دلدادا ہوگئی تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو مکمل سپورٹ کررہی تھی، اور یہ سب کے سامنے ہے۔ ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ موروثی سیاست جہاں ہوتی ہے وہاں پر آپ وفاداریاں آسانی سے خرید سکتے ہیں۔ کیونکہ بھٹو بھی اسٹیبلشمنٹ کے اسی نوعیت کے حامی تھے۔ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے، اور بعد میں ایوب خان نے ان کے ساتھ کیا کیا یہ سب کو معلوم ہے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا کہ میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو کافی حد تک جانتا ہوں، تقریباً ساڑھے پانچ سال میں نے پاکستان تحریک انصاف میں گزارے ہیں، میں ماضی میں فیصلوں میں حصہ دار تو نہیں تھا لیکن فیصلوں کے بعد جو احتجاج تھا میں اس میں حصہ دار تھا۔ میں عمران خان کو ایک اچھا سیلزمین سمجھتا ہوں، عمران خان کے اندر بدترین مصنوعات کو بہترین بناکر بیچنے کی اہلیت موجود ہے۔ رونالڈ ریگن جو امریکہ کے صدر تھے، اُن کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ وہ ایک اچھے سیلزمین تھے۔ عمران خان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی اچھی یا بری باتوں کو آگے بڑھاتے رہنا چاہتے ہیں۔دوسری خوبی عمران خان کی یہ ہے کہ وہ پاکستان کے مشہور لیڈر ہیں ہٹلر اور بھٹو کی طرح ،وہ بھی اسی طرح کی باتیں کرتے تھے۔ عمران خان اس طر ح کی باتیں کرتے ہیں جیسے مداری کیا کرتے ہیں۔ ڈگڈگی بجا کر مداری لوگوں کو جمع کرلیتا ہے اور اس کی باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ عوامی لیڈر کواس قسم کی باتیں نہیں کر نی چاہئیں۔جب اس طرح کی باتیں مداری کرتا ہے تو اس میں کچھ وعدے وعید بھی کیے جاتے ہیں، اور وقت کے ساتھ وعدے وعید پورے نہیں ہوتے جیسے ابھی بھی نہیں ہورہے ہیں، اسی طرح بھٹو نے بھی عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے تھے۔ اور عمران خان کی تیسری خوبی یہ ہے کہ جہاں اُن کا ذاتی مفاد آجاتا ہے اُس کے لیے اگر انہیں یوٹرن بھی لینا پڑے تو وہ لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سیاست دان ہی نہیں جو یوٹرن نہ لے۔ اب گزشتہ دو سال سے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے استعمال کیا جارہا ہے، اس طرح کی پالیسی کو رواج دیا جا رہا ہے جو اُن کی اپنی سیاست اور ملک کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ ہر وہ کام عمران خان کررہے ہیں جو عوام دشمن ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آئندہ پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانے کی تیاری ہورہی ہے، غالباً اِس مرتبہ ٹیکنوکریٹس کی جو حکومت ہوگی وہ کسی سابق فوجی کی ہوگی۔
انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کی جو صورت حال ہے اور جو کچھ وہاں ہورہا ہے وہ بھارت کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ افغانستان سے بھی ان کو چھتری فراہم کی جاتی ہے، جبکہ ایران کے ساتھ پاکستان نے اپنے تعلقات خراب کرلیے ہیں، وہ بھی اس کے اندر شریک ہے اور بنیادی طور پر بھارت اس کی پشت پناہی کررہا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب بلوچوں کی ایک چھوٹی آبادی ہے، اتنی ہی، جتنی پختونوں کی ہے لیکن ان کے ذہنوں میں یہ خام خیالی پیدا کردی گئی ہے کہ ہم پورے بلوچستان کے مالک ہے۔ یہ حقیقت نہیں ہے، وہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے اندر چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہتے ہیں، ان کے سرداروں نے انہیں کسی قسم کی تعلیم و تربیت نہیں دی، اور ایسے لوگوں کو خرید کر استعمال کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہواکرتی۔ ان کی اگر تعلیم وتربیت کی جائے گی تو یہ ساری چیزیں ختم ہوجائیں گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری حکومت ہو یا جی ایچ کیو… سب کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی مثبت کام کر ہی نہیں سکتے، کیوں کہ یہ نہ ان کا ایجنڈا ہے اور نہ ہی مینڈیٹ۔ نتیجے کے طور پر وہ سب کچھ ہورہا ہے جوعالمی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔ یعنی جو اصل ڈوری ہے، جو اسکیمیں اور پلان بنتے ہیں وہ کہیں اور بنتے ہیں۔ الطاف حسین، نوازشریف، جہانگیر ترین اور فاطمہ بھٹو کہاں بیٹھے ہیں؟ سب لندن میں بیٹھے ہیں، اور سب چیزیں بالکل عیاں ہیں، لیکن وہاں نہ آپ کی نگاہ پہنچتی ہے نہ آپ کی زبان چلتی ہے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین نے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں کچھ سقم موجود ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم بجائے خود بالکل صحیح ہے جس میں صوبوں کو اختیارات دیے گئے ہیں، لیکن جن کو آپ نے اختیارات اور ذمہ داری دی ہے وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس ترمیم کو آئے ہوئے دس برس گزرگئے ہیں، صوبوں کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اختیارات دینے کے بعد تعلیم کا شعبہ2010ء میں جہاں کھڑا تھا اُس سے کم ازکم ایک تہائی نیچے آگیا ہے، زراعت کی صورت حال شعبہ تعلیم سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکز نے صوبوں کو اختیارات تو دے دیے، لیکن اصل کام مقامی حکومتوں کا ہوتا ہے، انہیں کوئی اختیارات نہیں دیئے گئے۔ جس طریقے سے قومی فنانس ایوارڈ ہوتا ہے اسی طرح صوبائی فنانس ایوارڈ ہونا چاہیے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم مقامی حکومتوں کو مختص کی جائے، کیوں کہ پانی، بجلی، سیوریج، ٹرانسپورٹ اور دیگر ترقیاتی کام مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہوا کرتے ہیں، لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ سارا پیسہ صوبائی حکومتوں کے پاس چلا جاتا ہے، وہاں سے صوبائی حکمرانوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے، اور یہ پیسہ وہاں بھی نہیں ٹھیرتا، پھر وہاں سے ان کے بیرون ملک اکائونٹ میں چلا جاتا ہے۔ یہ عجیب و غریب صورت حال ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کے بجائے ریشنلائز کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ لوگ اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور صدارتی نظام کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ صدارتی نظام کے اندر ایک شخص ہوتا ہے جس کو سارے معاملات چلانے ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہمارا وزیراعظم بھی تقر یباً ڈکٹیٹر ہی ہوتا ہے، وہ بھی ایک شخص ہی ہوتا ہے، لیکن صدارتی نظام میں آسانی کے ساتھ ایک شخص سے ڈیل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ملک میں گندم کے بحران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گندم کا مسئلہ ہے وہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ کچھ تو بھارت اورافغانستان چلی جاتی ہے اور کچھ ذخیرہ اندوز ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ سکھر اور گھوٹکی کے اندرجو اسمگلر بیٹھے ہیں انہیں حکومتِ سندھ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، ان کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجے کے طور پر گندم جس کی ابھی کٹائی ہوئی تھی چند ماہ کے اندر ناپید ہوگئی ہے، اور درآمد کرنی پڑرہی ہے۔ یہی چینی کے ساتھ ہوا ہے۔ عمران خان کے اپنے ساتھی کابینہ کے اندر بیٹھے ہیں جو اس کے سب بڑے سرکردہ ہیں۔ جہانگیر ترین آرام سے لندن میں بیٹھا ہوا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے، اور 55 روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا تقریباً 100 روپے فی کلو گرام فروخت ہورہا ہے۔ سبزیاں اور دالیںجو عام آدمی کے استعمال کی چیزیں ہیں، عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں۔ میں اشیا ئے ضرورت کی چیزوں کی قیمت کو کنٹرول کرنا غلط سمجھتا ہوں، قیمت کو کنٹرول کرنا بلیک مارکیٹنگ کو ہوا دینے کے مترادف ہے، لیکن چیزوں کو فروخت کرنے کا جو طریقہ کار ہے اس میں مڈل مین کا اہم کردار ہوتا ہے اور اس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ انگریزوں کے دور میں مارکیٹ کمیٹی کا ایک تصور ہوتا تھا، اس مارکیٹ کمیٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ آج پھر ٹماٹر کا بحران آیا ہوا ہے جس سے عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ دودھ کا بھی یہی حال ہوگیا ہے۔ دودھ پاکستان میں وافر مقدار میں ہوتا ہے لیکن اسے لوگوں تک پہنچانے کے بجائے بہا دیا جاتا ہے۔ روزگار کی بھی یہی صورت حال ہے۔ سرمایہ کاری ہوگی تو روزگار میں اضافہ ہوگا۔ ان تمام چیزوں کو ایک شخص نے تباہ کردیا ہے۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ مثال کے طور پر آپ پہلے ایک لاکھ ٹن آم باہر بھیج رہے تھے اور اب دو ٹن آم باہر بھیج رہے ہیں اور پیسے وہی لے کر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ انڈر انوائسنگ اوراوورنوائسنگ کی جا رہی ہے، لوگوں کو ملازمتیں نہیں دی جارہی ہیں چونکہ ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔