سیّدنا محمد ﷺ کی تمام مخلوقات پرفضیلت

حضرت آدم علیہ السّلام اس زمین پر قدم رکھنے والے پہلے بشر اور پہلے نبی تھے۔ زمین پر اُتارتے وقت اُن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی روشنی عطا کی تھی تاکہ جنت میں ممنوعہ شجر کا پھل کھا لینے کی طرح شیطان کے پھسلاوے میں اُن کی اولاد کی دنیوی زندگی میں بھی خطائوں پر خطائیں نہ ہوتی رہیں۔ آنحضرت ؑاپنی زوجہ کے ساتھ زمین پر آکر بسے۔ قرآن پاک بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اُن سے کثیر اولاد پھیلا دی۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ حضرت شیث علیہ السّلام تک آدم علیہ السّلام کی اولاد بڑی حد تک اُس ہدایت پر قائم رہی جس کا سلسلہ ہبوطِ آدمؑ کے بعد شروع ہوا تھا اور انتباہ کیا گیا تھا: ۔
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًاج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ٭ (سورہ بقرۃ:39,38)۔
”ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جائو۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“
زندگی کا سفر اسی ہدایت کی روشنی میں شروع ہوا۔ سب پر واضح تھا کہ کون سا راستہ سواء السّبیل ہے اور کس راستے کو صراطِ مستقیم قرار دیا گیا ہے۔ آدم علیہ السّلام کے بعد جب آبادی زمین کے مختلف حصوں میں پھیل گئی تو قوموں، قبیلوں اور برادریوں کی شکل میں لوگوں کی الگ الگ شناخت قائم کردی گئی۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْط(الحجرٰت:13)۔
”لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔“
آدم علیہ السّلام کے بعد کئی نسلیں اور قومیں اُٹھیں اور مِٹیں۔ یہاں تک کہ نوح علیہ السّلام کا طویلِ دَورِ نبوّت آگیا۔ نوح علیہ السّلام پر ایمان لانے والے ایک قلیل گروہ کے سوا شرک اور سرکشی کی شکار ساری نسلِ آدمؑ ہلاکت سے دوچار ہوگئی۔ حضرت نوحؑ کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے کیوں کہ آج تک کی ساری انسانی نسل آنحضرت ؑ کے تین بیٹوں اور طوفانِ نوحؑ سے بچ جانے والے مختصر گروہ کی اولاد سے ہے۔ سورہ الرّعد کی ساتویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک ضابطہ بیان فرمایاہے کہ وہ کسی قوم کے پاس یہ عُذر باقی نہیں رہنے دیتا کہ وہ قوم اس وجہ سے گمراہ ہوئی کہ اسے راہِ راست دکھانے والا کوئی ہادی نصیب نہیں ہوا تھا۔ وہ ہر قوم کے لیے ایک رہنما بھیجتا ہے۔ ولِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ’اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔‘چنانچہ یکے بعد دیگرے انبیاء آئے۔
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْ بَعْدِ ھِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِیْنَ٭ مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَ٭ ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسَلَنَا تَتْرَا ط (المؤْمنون:44)۔
”پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں اُٹھائیں۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی۔ پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے۔“
٭انبیاء کی تعداداور درجے
اللہ ہی جانتا ہے کہ اُس کے بھیجے ہوئے انبیاء و رُسُل کی کل تعداد کیا ہے۔ جس حدیث میں یہ تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی گئی ہے اسے محدّثین و محققین نے موضوع قرار دیا ہے۔ تاہم ہم نے سطورِ بالا میں یہ دیکھا کہ ہر قوم کی ہدایت کے لیے کوئی نبی ضرور بھیجا گیا۔ سارے نبی اللہ کے فرستادہ اور چیدہ بندے تھے، اس لیے سب اپنی شان و عظمت میں دنیا کے سارے انسانوں میں ممتاز و منفرد تھے۔ نبیوں کے مقام و مرتبے کا مقابلہ نہ کوئی مقرّب سے مقرّب فرشتہ کر سکتا ہے اور نہ بڑے سے بڑا ولی اور بزرگ۔ سارے نبی اللہ کے محبوب بندے تھے۔ ہم نبیوں میں فرق کرنے کے مجاز نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ آدم علیہ السّلام کو کئی منفرد اعزازات اور تکریمات سے نوازا گیا۔ ان کے بعد انبیاء آتے رہے، جن میں سے بعض کو بعض دوسروں پر کوئی نہ کوئی فوقیت ملی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
وَ لَقُدْ فَضَلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا٭ (بنی اسرآئِیْل:55)۔
”ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے اور ہم نے داود ؑ کو زبور دی تھی۔“
درجات کی ان بلندیوں کے بارے میں اللہ کی کتاب ہمیں مزید یہ بتاتی ہے:۔
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ م مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعْضُھُمْ دَرَجٰتٍ ط وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط (البقرۃ:253)۔
”یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے ) ہم نے اِن کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔اِن میں کوئی ایسا تھا جس سے خُدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اُس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخرمیں عیسیٰ ؑ بن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور رُوحِ پاک سے اُس کی مدد کی۔“
بعض انبیاء کو بعض دوسروں پرفضیلت کا یہ سلسلہ اِمامُ المُتَّقین، سیّدُالابرار، حبیبِ خُدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر پہنچا توآپ ؐ کو ایسی رفعت و عظمت عطا ہوئی کہ افضلُ الانبیاء کے مقامِ بلند پر فائز ہوئے۔اِمام رازی ؒ نے لکھا کہ اُمّت کا اس امر پر اِجماع ہے کہ انبیاء کی برادری میں بعض کو بعض دوسرے انبیاء پر فضیلت ملی اور محمد مصطفیٰﷺ کو سب نبیوں پر فضیلت حاصل ہوئی۔ تفتازانی ؒ نے ’شرحِ مقاصد‘ میں لکھا کہ انبیاء و رُسُل کے شرف و امتیاز کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ مصطفیٰﷺ کے بعد کس کا درجہ آتا ہے۔ بعض نے ابوالبشر ہونے کے سبب حضرت آدمؑ کا نام لیا ہے، بعض طویل عبادت و مجاہدہ کے سبب یہ درجہ حضرت نوحؑ کو دیتے ہیں۔بعض کی رائے ہے کہ اللہ پر توکل اور اطمینان کے باعث یہ مقام حضرت ابراہیم ؑ کا ہے۔ بعض کلیم اللہ کی صفت کے سبب سے حضرت موسیٰؑ کا نام لیتے ہیں۔ اور کچھ کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰؑ روح اللہ و صفیہ ٗ ہونے کی وجہ سے اس درجے کے مستحق ہیں۔
٭٭محمد مصطفیٰ ﷺ کی افضلیت
محمد بن عبداللہ ﷺ کی افضلیت کا تصور صرف ہماری عقیدت و محبت کے زور سے ہمارے عقیدہ و ایمان کا حصہ نہیں بنا ہے، بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کو کچھ غیر معمولی امتیازات عطا کیے جن کی بنیاد پر ہم آپؐ کو سب سے افضل رسول مانتے ہیں۔ ہماری نظر میں درج ذیل کم و بیش چودہ پہلو ایسے ہیں جو انبیاء و رُسُل کی صف میں حضورﷺکے تفوّق کی دلیل ہیں۔
٭اولوالعزم رسول
یہ اصول گویا خود قُرآن نے بتا دیا ہے کہ کچھ نبیوں اور رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اولوالعزم رسول دیگر رسولوں میں ایک خاص زُمرہ ہیں۔ ہمارے نبی پاکﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایک تلقین فرمائی تھی: ۔
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُواالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ ط (احقاف:35)۔
”پس اے نبیؐ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔“
اولوالعزم اُن رسولوں کو کہا گیا جن کو اپنی قوم اور دیگر اسلام دشمن عناصر کی طرف سے سخت مزاحمت و مخالفت اور زبردست خطرات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن کفر و جحود کے طوفان کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے رہے۔ انہوں نے جبر کی آندھیوں کا مقابلہ ہمت و پامردی، قوّت و شدّت اورتصمیم و صلابت سے کیا۔ دینی اصولوں کے معاملے میں نہ مداہنت دکھائی، نہ عقائد و اصول کی قیمت پر کوئی مصالحت کی اور نہ اعلائے کلمۃُ اللہ کی جدّوجہد میں کوئی کمی اور کمزوری آنے دی۔ رسول اکرمﷺ نے اگرچہ اس لحاظ سے صبر میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی، لیکن یہاں اولوالعزم رسولوں کی طرح صبر کرنے کی تلقین کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ اتنا صبر کریں کہ اس میدان میں آپ ؐنمایاں ترین مقام پر فائز ہوجائیں۔ مجاہدؒ، ابن کثیرؒ اور قرطبی ؒ کی رائے ہے کہ حضورﷺ سمیت نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السّلام اولوالعزم رسول تھے۔ یہ پانچ نام ہمیں قُرآن پاک میں اسی ترتیب سے دو جگہ پر بطورِ خاص مذکور نظر آتے ہیں۔ سورہ الاحزاب میں بتایا گیا کہ تمام انبیاء سے فرائضِ نبوّت کی کماحقہٗ انجام دہی کے لیے ایک عہد لیا گیا تھا۔ یہ عہد اگرچہ سارے نبیوں نے کیا تھا لیکن اس ضمن میں حضورﷺ کی تقدیم کے ساتھ جن چار دوسرے پیغمبروں کا نام لے کر بطورِ خاص ذکر ہوا ہے وہ نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السّلام ہیں۔
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَھُمْ وَ مِنْکَ وَ مِنْ نُوْحٍ وَّ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ وَاَخَذْنَا مِنْھُمْ مِیْثَاقًا غَلِیْظًا٭ (الاحزاب:7)۔
”اور( اے نبیؐ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ، ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔“
دوسرا مقام جہاں اس ترتیب میں نوح علیہ السّلام کا ذکر آپؐ سے پہلے آ گیا ہے، وہ اللہ کی زمین پر دِینِ حق کو پوری طرح قائم کرکے دکھانے والی بلند پایہ چار ہستیوں کے بارے میں ہے۔ باقی سارے انبیاء کا نبوی مشن بڑا سادہ تھا۔ وہ اپنی قوم کی اعتقادی اور اخلاقی اصلاح و تربیت پر مامور ہوئے تھے۔ انہیں وعظ و نصیحت اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے قوم میں پیدا ہونے والے ٹیڑھ کی اصلاح کرنی اور اسے سیدھے راستے پر قائم رکھنا تھا۔ وہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا شعور اجاگر کرتے اور شرک سے بچنے کی تعلیم دیتے تھے، نیکی اور بدی کی حدود بتاتے، نماز کی تلقین کرتے اور عبادات کے مناسک سکھاتے تھے۔ لیکن ان مذکورہ پانچ ہستیوں کے لیے اس عمومی مہم کے علاوہ خدا کی زمین پر دین کو پورے کا پورا قائم کر دکھانا لازم قرار دیا گیا۔ یہ نصب العین جتنا عظیم تھا، اس کے لیے عزم بھی اتنا ہی بلند درکار تھا:۔
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیٓ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰیوَ عِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط
”اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرّر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اے محمدؐ اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرّق نہ ہوجائو۔“
٭اِقامتِ دِین کا شرف
ان پانچ جلیل القدر ہستیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دِین کی کامل اور حقیقی اِقامت اشرفُ الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہی کے ہاتھوں ہوئی۔ حضرت نوح علیہ السّلام نے اِقامتِ دِین کا مشن شروع ہی اُس وقت کیا جب طوفانِ نوح ؑ کے بعد زمین دوبارہ آباد ہوئی اور زندگی نئے سرے سے معمول پر آئی۔ حضرت نوح علیہ السّلام نے اس کے بعد ہی اجتماعی اور انفرادی زندگی کا نظام اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق استوار کیا اورتمدّن کے تقاضوں کے مطابق جتنا دِین انہیں ملا وہ انہوں نے قائم کردیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہجرت کرکے جب فلسطین میں جاکر آباد ہوئے تو اُس وقت زندگی بڑی سیدھی سادی اور فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ عقیدہ اور اخلاق کسی بھی نظام کی اساس ہوتے ہیں۔ عقائد اور اخلاق کی اصلاح کے علاوہ اس دَور کی معاشرتی ضرورت کے بارے میں دِین کی جتنی تعلیمات حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر اُتری تھیں انہوں نے اپنے زیرِ اثر آبادیوں میں ان کو لاگو کردیا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہم ناکام نہیں کہتے لیکن اُن کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مصر سے ہجرت کرکے فلسطین پہنچ ہی نہ سکے تھے، جہاں انہیں دِین کو غالب کرنا تھا۔ مصر کی غلامی میں عزم و حوصلہ اور قوّتِ عمل کا جوہر کھو بیٹھنے والے بنی اسرائیل فلسطین پر قابض غالب قوموں سے جہاد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس کی سزا اس قوم کو یہ ملی کہ فرعونیوں سے نجات کے بعد موسیٰ علیہ السّلام کی قیادت میں فلسطین کے لیے نکلنے والے بنی اسرائیلیوں کو منزل پر پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ ان کی وہ ساری نسل صحرائے سیناء میں بھٹکتے ہوئے ہی فنا ہوگئی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو فلسطین پہنچ کر وہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر شریعت ِ موسوی کے مطابق کرنے کا موقع نہ ملا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے دو مخلص ساتھی اور چند دیگر افراد ہی فلسطین میں داخل ہوسکے تھے۔ انہی کے ذریعے شریعتِ موسوی کی تعلیمات اگلی نسلوں تک پہنچیں۔ خود حضرت ہارون اور موسیٰ علیہما السّلام کا بھی یہیں انتقال ہوگیا۔ یوں بظاہر اقامتِ دِین کی وہ مہم ادھوری رہ گئی۔
رہے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام، تو تین برسوں کے سوا ان کی باقی ساری پاکیزہ زندگی سینٹ پال نے غموض و اِبہام اور اشتباہ و التباس کے پردوں میں لپیٹ دی۔ بائبل کی چار کتابوں کی بہت چھان پھٹک کرکے حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات میں سے جو کچھ ملتا ہے وہ اُن کے تمثیلی انداز کے بہت عمدہ اخلاقی وعظ ہیں۔ ان میں یہودی عالموں، مفتیوں، مقننوں اور فریسیوں کی ریاکاری، ظاہر پرستی، منافقت اور دِین فروشی اور یہودی عوام کے بگڑے ہوئے فکر و عمل پر سخت تنقید شامل ہے، لیکن ان کے ہاتھوں شریعتِ موسوی کے کامل صورت میں غالب و جاری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اِقامت ِ دِین کی پوری تصویر ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوی زندگی میں ملتی ہے۔آپؐ نے دعوت ِدِین کی راہ میں سختیاں جھیلیں، مصائب اٹھائے اور مخالفتوں کے پہاڑ عبور کیے۔اہلِ ایمان کی ایک مضبوط جماعت تیار کی۔اس کا تزکیہ کیا، اس کی تربیت اور تہذیبِ نفوس اور اخلاقی اصلاح و تعمیر کی۔ریاستی اوراجتماعی زندگی کا نظام چلانے کے لیے افرادِ کار تیار کیے۔ان میں جہاد کا جذبہ پھونکا اور شہادت کا شوق پیدا کیا۔فوج کی تنظیم کی۔ارد گرد کے صلح جو قبائل سے حلیفانہ معاہدے کیے۔ پے درپے عسکری مہمیں روانہ کیں۔ موجودہ زمانے کی اصطلاح میں ان کی نوعیت جنگی مشقوں کی بھی ہوتی تھی،اور جہاں شرارتی عناصر سے مڈ بھیڑ نہ ہوتی وہاں یہی پارٹیاں تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے مدینہ کے معاشی استحکام کا سامان کرتی تھیں۔مہموں سے مقاصد حاصل ہوتے تھے۔آپؐ کے ہاتھوں مدینہ کی ریاست قائم ہوئی جو دنیا کی پہلی دستوری ریاست تھی۔ مدینہ کی ریاست نے اپنے شورائی نظام کی وجہ سے چودہ سو سال قبل حقیقی جمہوری تصور کوعملی جامہ پہنایا۔ خیر خواہی (اَلنَّصِیْحَۃ ) اس کی اخلاقی اساس تھی۔ حکمران رعایا کے خیرخواہ تھے اور عوام میں اپنی حکومت کے لیے اخلاص اور خیر خواہی کے جذبات تھے۔ وہاں امیر غریبوں کو نوازتے اور غریب امیروں کے لیے دعاگو ہوتے تھے۔ اس ریاست نے قدیم قبائلی استحصال پسندی کی جڑ کاٹ دی۔اس کے نظام میں سماجی اور معاشی نا انصافیوں اور اونچ نیچ کے بجائے ایک باپ اور ایک ماں (آدمؑ وحوا) کی اولاد ہونے کے ناتے سارے انسانوں کو برابری کا درجہ حاصل تھا۔اگر یہ کہا جائے کہ بے لاگ عدل پہلی بار اسی ریاست میں قائم ہوا تو مبالغہ نہ ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے ریاست کا پورا نظام اسلامی دستور کا پابند بنایااور اللہ کی پوری شریعت نافذ کی۔اس سارے عمل کو ایک عہد اور ایک شہر اور بستی یا جزیرۃُ العرب تک محدود نہ چھوڑا بلکہ اس کا ایک ایساآفاقی مزاج بنا کہ وہ آنے والے ہر دور اور مقام اور ہر انسانی گروہ کے مصالح اور مفادات کی نگہبان بن کر دکھاسکتی ہے۔یہ تھی محمد مصطفیٰﷺ کے ہاتھوں اِقامتِ دِین کی قابلِ تقلید نظیرجوقُرآن پاک کی آیت کا حقیقی مصداق بنی۔
٭تکمیلِ دِین
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو ایک خاص امتیاز یہ عطا کیا کہ دِینِ حق آپؐ پر لاکر مکمل کردیا۔ اس کی وہ عمارت جس کی پہلی اینٹ حضرت آدم علیہ السّلام اور ان کی اولاد کے لیے اس تاکید کے ساتھ رکھی گئی تھی:۔
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًاج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭ (بقرۃ:38)۔
”ہم نے کہا کہ ’تم سب یہاں سے اُتر جائو۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا۔“
یہی بات ایک اور مقام پرالفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ یوں فرمائی:۔
قَالَ اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًا م بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی۵ فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی٭(طٰہٰ:123)۔
”اور فرمایا:’تم دونوں (فریق یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اُتر جائو۔ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگرمیری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا اور نہ بدبختی میں مبتلا ہو گا۔“
جنابِ آدمؑ سے عقیدۂِ توحید کی گہری بنیادوں پر نظامِ زندگی کی تعمیر کا عمل شروع ہوا اور بعد کے انبیائے کرام کے ادوار میں جاری رہا۔ ابتدائی انسانی نسل کے بعد آنے والے ہر نبی کے زمانے میں لوگوں کے طرزِ بود و باش میں مثبت تبدیلیاں آتی گئیں۔ زندگی میں ترقی و تعمیر اور طرزِحیات میں تغیر و تبدل کا عمل جاری رہا۔ تمدن میں خوب سے خوب تر کی شکلیں نمودار ہوتی رہیں۔ اس عمل میں نئے سوال سامنے آتے تو اللہ کے نبیوں کے ذریعے ان سوالوں کے جواب آسمانی ہدایت سے ملتے۔ یوں دِینِ حق کی عمارت میں ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق شرعی ضوابط کی نئی اینٹیں لگتی گئیں۔ قواعد و اصول کے ردّوں پر ردّے جمتے گئے اور وہ عمارت بتدریج تکمیل کی منزلیں طے کرتی گئی۔ یہاں تک کہ اس میں بس صرف آخری اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی۔ درج ذیل حدیث ختمِ نبوّت کے عنوان کے تحت آئی ہے، لیکن اسے ایک خاص زاویے سے دیکھیں تو پُرشکوہ عمارت کی اس تمثیل سے تکمیلِ دِین کا مضمون بھی نکلتا ہے: ۔
مَثَلِیْ وَ مَثَلُ الْاَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ ابْتَنَی بُیُوْتًا فَاَحْسَنَھَا وَ اَجْمَلَھَا وَ اَکْمَلَھَا اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَوَایَاھَا، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ وَ یُعْجِببُھُمُ الْبُنْیَانَ۔ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَّا وَضَعْتَ ھَاھُنَا لَبِنَۃً فَیُتِمَّ الْبُنْیَانَکَ؟ فَقَالَ مُحَمَّدٌ ﷺ فَکُنْتُ اَنَا اللَّبْنَۃَ٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسے ہے جیسے کسی شخص نے گھر تعمیر کیے۔ بڑے حسین و جمیل گھروں کی صورت میں انہیں مکمل کیا، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کو دیکھنے آتے۔ اس کے گرد گھومتے۔ انہیں یہ عمارت بڑی دلکش نظر آتی۔ پس وہ کہتے کہ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ اس خالی جگہ پر تم اینٹ لگا دیتے تو یہ عمارت مکمل ہوجاتی؟“ محمدﷺ نے فرمایا: ”میں وہ اینٹ ہوں“(جو اس خالی جگہ پر لگی تو یہ عمارت مکمل ہو گئی)۔ (صحیح مسلم)۔
(جاری ہے)