نیا مکالمہ کرنا ہوگا
پاکستان کا حالیہ بحران سنگین بھی ہے اور ادارہ جاتی عمل میں ٹکرائو کی کیفیت کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ دو بنیادی نوعیت کے مسائل اس وقت ہمیں درپیش ہیں:۔
(1) حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نہ صرف بداعتمادی بلکہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے کی روش سے تلخی کا ماحول۔
(2) اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے، بدگمانی، عملی طور پر براہِ راست اداروں اور اُن کے سربراہان پر تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ۔
حزبِ اختلاف کے نئے اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کا اس وقت خصوصی ٹارگٹ جہاں عمران خان ہیں، وہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی متنازع یا فریق بناکر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان ٹکرائو پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ٹکرائو کی یہ کیفیت کسی بھی صورت سیاست، جمہوریت، ریاست اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کے جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ یا کسی ادارے کے سربراہ سمیت ان کے کردار پر سیاسی گفتگو یقینی طور پر مناسب نہیں، اور نہ ہی یہ ادارے سمیت ملک کے مفاد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بھی حزبِ اختلاف کے اس کھیل پر تشویش کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک، سردار اختر مینگل سمیت کئی لوگوں کے لہجے میں تلخی کا پہلو نمایاں ہے۔ وہ براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو فریق سمجھتے ہیں، اور ان کے بقول عمران خان کی حکومت کی حقیقی حمایت عوام نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ ہی چلتا کرے اور ملک میں نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔ یہ شفاف انتخابات کیسے ہوں گے؟ ہارنے والا کیونکر انتخابی نتائج کو قبول کرے گا؟ اورکیسے انتخابات کو مداخلت سے پاک بنایا جائے گا؟ یہ خود بڑے سوالات ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف حزبِ اختلاف کی سیاست میں جوش یا جذبات کا پہلو نمایاں ہے، تو دوسری جانب حکومت بھی معاملات کو ٹھنڈا کرنے یا حزبِ اختلاف کو سیاسی مکالمے کی طرف لانے کے بجائے خود ایک ردعمل کی سیاست میں الجھی نظر آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان جارحانہ حکمت عملی کے تحت حزبِ اختلاف کو سخت چیلنج کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء اور مشیروں کا لہجہ یا طرزعمل خاصا جارحانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں یعنی حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا گرانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف حزبِ اختلاف اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کررہی ہے، تو دوسری طرف حکومت کے بیانات میں بھی بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو گھسیٹا جاتا ہے۔
اس صورتِ حال کے دو امکانی منظرنامے ہوسکتے ہیں:۔
(1) حکومت اورحزب اختلاف کی لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ کو اور زیادہ متنازع بناکر اس کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جائیں۔ اس کا نتیجہ پہلے سے جاری ٹکرائو کی سیاست میں اور زیادہ تلخی پیدا کرے گا، یا اداروں کے درمیان مقابلہ بازی یا تقسیم کا سبب بنے گا۔ یہ عمل یقینی طور پر قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔
(2) طاقت کے تمام مراکز میں موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا سنجیدہ مکالمہ کیا جائے۔ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت تمام اداروں کے اہم افراد بھی بیٹھیں اور معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ مسائل کا حل باہم ٹکرائو کے بجائے بات چیت کی مدد سے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے مراکز میں اس مکالمے کی بحث نئی نہیں ہے۔ پہلے بھی کئی افراد انفرادی سطح پر اس طرز کے مکالمے کی حمایت کرچکے ہیں۔ چودھری احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ،کئی اہلِ دانش، علمی و فکری راہنما، سابق بیوروکریٹ، سابق فوجی افسران ایک سے زیادہ مرتبہ بحران کا حل ’’طاقت کے مراکز میں ایک نیا مکالمہ‘‘ تجویز کرچکے ہیں۔ لیکن اس تجویز کو مؤثر پذیرائی نہیں مل سکی۔
ماضی میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے براہِ راست صدرِ مملکت عارف علوی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ذاتی کوشش سے اداروں کے درمیان مکالمے کا اہتمام کریں تاکہ اداروں کے درمیان موجود خرابیوں کی نشاندہی سمیت ایک نیا چارٹر آف گورننس سامنے آسکے۔ ان کے بقول اس مکالمے میں پارلیمنٹ کے ارکان، عدلیہ، فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان بھی شریک ہوں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی سیاسی، قانونی، انتظامی یا ادارہ جاتی حدود میں رہنا ہوگا، اوراپنے اپنے دائرۂ کار سے تجاوز کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا، اگرچہ بہت سی حدود اس وقت قانون میں موجود ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ خرابی کسی ایک فریق کی جانب سے نہیں، بلکہ تمام ہی اپنی اپنی سطح پر حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ ایسے میں اس طرز کے ’’مکالمہ‘‘ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ تمام فریق مل بیٹھ کر متبادل حکمت عملی پر اتفاق کرکے آگے بڑھیں۔
کیونکہ جب یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ تمام ادارے متنازع ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف دست و گربیاں ہیں تو ایسی صورت حال میں مکالمہ واقعی ناگزیر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ سیاست اورجمہوریت کے لیے خود ریاست اور اس کے اداروں کا مضبوط ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے، اور ہمیں ایسے طرزِعمل سے گریز کرنا چاہیے جو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بطور ریاست ہماری مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب بنے۔ اس سوچ اور فکر سے بھی سب کو آزاد ہونا ہوگا کہ سب خرابیاں محض ایک ہی ادارے میں ہیں اور باقی سب شفافیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مسائل سب میں ہیں اور سب نے اپنی اپنی سطح پر ماضی اور حال میں غلطیاں کی ہیں۔ اگر ان غلطیوں کی اصلاح کرنی ہے تو سب کو اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ہار یا جیت کے بجائے ریاستی یا ملکی مفاد کے تحت اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔
یہ مکالمہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر جس مشکل دور سے گزر رہا ہے اور جو ہماری علاقائی سیاست سے جڑے مسائل ہیں، یا جو ہمیں معاشی بحران کا سامنا ہے، اس کا حل سیاسی استحکام میں ہے۔ فوج کا کردار، عدلیہ کا شفا ف نظام یا احتساب کا شفافیت پر مبنی نظام، سیاسی مداخلتیں، شفاف انتخابات، سیکورٹی سے جڑے مسائل یا معاشی استحکام کے روڈمیپ پر واقعی ہمیں نئی سوچ، فکر یا بیانیہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جو سیاسی یا ادارہ جاتی تلخی ہے اس کا علاج بھی مکالمہ اوراس کے نتیجے میں ہونے والا اتفاقِ رائے ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ مکالمہ کیسے ہوگا اورکون اس میں پہل کرے گا؟ اصولی طو رپر تو اس کا آغاز خود حکومت کو کرنا چاہیے یا صدرِ مملکت کو یہ ذمہ داری دینی چاہیے کہ وہ اس میں پہل کریں اورحکومت سمیت حزب ِاختلاف اس مکالمے کی کھل کر حمایت کرے۔کیونکہ جو بحران ہے اس کا علاج محض نئے انتخابات یا حکومت کا خاتمہ نہیں۔کیونکہ طاقت کے زور پر حکومتوں کو گھر بھیجنا یا ماضی کی طرز کے انتخابات کا کھیل بھی مزید نئے انتشار کو جنم دے گا، اس سے صرف کھیل کے فریق بدلیں گے، تماشہ یہی جاری رہے گا، جو ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔