مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی کی رحلت

پاکستان کے علمی اور دینی حلقے میں شہرت رکھنے والے مولانا عبدالحلیم چشتی انتقال کرگئے۔ مرحوم کراچی یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں اوّلین پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل تھے۔ مولانا 1929ء میں جے پور میں پیدا ہوئے اور درس نظامی کی سند دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی۔ 1967ء میں کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا اور 1970ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1981ء میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ مرحوم نے اندرون و بیرون ملک 50 سال تک پیشہ ورانہ علمی خدمات انجام دیں۔ تاحیات جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے وابستہ رہے۔ مولانا نے 22کتابیں تصنیف کیں، جن میں ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بے نظیر ہے۔ مرحوم کی نماز جنازہ جامعۃ الرشید میں نماز عصر اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں نماز مغرب کے بعد ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔جبکہ کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں تدفین عمل میں لائی گئی۔ ذیل میں آپ کی زندگی کی مختصر سرگزشت آپ کی زبانی شائع کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کا ہر طالب علم اور محقق ان کے نام سے شناسائی رکھتا ہے۔ آپ نے کراچی یونی ورسٹی سے لائبریری سائنس میں اوّلین پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسلامی کتب خانے ان کا خاص موضوع تھے۔ یہی مقالہ آپ کی وجہ شہرت بنا۔ یہ مقالہ کسی طفلِ مکتب کا نہیں بلکہ ایسی شخصیت کا ہے جس نے اپنی زندگی کے 20 سال لائبریری میں عملی تجربہ حاصل کیا اور اردو، فارسی، عربی زبانوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آپ کو ان زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ صرف اپنے مقالے کے لیے آپ نے چھے سو کتابوں سے استفادہ کیا اور تیس ہزار سے زائد حوالے درج کیے۔ یہ مقالہ ایک علمی، تاریخی دستاویز ہے۔ اردو ادب کے علاوہ اسلامی تاریخ اور لائبریری سائنس کے طالب علموں کے لیے بھی اس میں معلومات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر مستند اور جامع معلومات پیش کرتا ہے اور بہترین حوالہ جاتی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ محقق نے اس مقالے میں عہدِ رسالت سے اُموی دور تک کتب خانوں سے متعلق تاریخ اور حقائق کو بہت جستجو اور دقیق نظری کے ساتھ یکجا کیا ہے۔ یہ دل جمعی اور دیدہ ریزی کا کام ہے جو اسلامی تاریخ اور اداروں سے ان کی محبت کا بیّن ثبوت ہے۔ شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کی سابق صدر ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی رائے یہ ہے کہ ’’یہ کتاب کتب خانوں کے بنیادی فروعی اصولوں کا مفصل تعارف پیش کرتی ہے اور کتب خانوں کی نشوونما اور ارتقا پر ایک جامع تحریر ہے۔ یہ املا کے عہد بہ عہد تاریخی سفر کی روداد پیش کرتی ہے۔ اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کے کتب خانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کیٹلاگ سازی، علوم کی درجہ بندی، کتاب سازی کے بنیادی مباحث کا خوبصورت مرقع ہے۔ نامور کتابیات سازوں، کتابیاتی سرگرمیوں اور فنِ کتابیات کی اصطلاحات پر اس میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ پورے ایک عہد کے نظامِ کتب خانہ کی تشکیل و ترتیب کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی کی ولادت جے پور انڈیا میں 16اپریل 1929ء کو ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام، جے پور راجستھان میں حاصل کی، اس کے بعد درس نظامی کی تکمیل کی، پھر دیوبند سے پانچ سال تعلیم حاصل کی۔ آپ کے استاد مولانا حیدر حسن خان تھے جن کا تعلق ٹونک سے تھا۔ دیوبند میں آپ کا قیام1363-1369ھ تک رہا۔آپ نے 1967ء میں کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم۔اے کیا اور 1970ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا۔ 1981ء میں آپ نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب کی اندرون و بیرون ملک پیشہ ورانہ خدمات کا عرصہ تقریبًا 34 سال پر محیط ہے۔ آج کل جامع الرشید میں استاد کی حیثیت سے دینی علوم کی تعلیم دے رہے تھے۔
آپ کے والد مولانا عبدالرحیم عالم دین تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا گھرانہ علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ آپ پانچ بھائی ہیں جن میں آپ کو شامل کرکے تین بھائی عالم دین، عربی، فارسی کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بڑے بھائی عبدالرشید نعمانی نے ’’لغت القرآن‘‘ ندوۃ المصنفین سے شائع کی۔ دوسرے بھائی عبدالعلیم ندوی لکھنؤ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد راجپوتانہ یونی ورسٹی میں فارسی کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے والد مولانا عبدالرحیم شاعر تھے، خاطرؔ تخلص رکھتے تھے۔ پرنٹنگ کا کاروبار کرتے تھے۔ آپ کا پرنٹنگ پریس ’’مطبع رحیمی‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ وہ خود بھی بہت اچھے خوش نویس تھے۔
بقول ڈاکٹر صاحب میرے والد مذہبی ذہن رکھتے تھے، وہ خود عالمِ دین تھے اور مجھے بھی عالمِ دین بنانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکراکر اپنے ماضی میں جھانکتے ہوئے فرمایا کہ ابتدا میں میرا دل پڑھنے لکھنے کی طرف مکمل راغب نہیں تھا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تایا کے بچے انگریزی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ تایا مالی طور پر خوش حال تھے، ان کا رہن سہن جدید طرز کا تھا، والد صاحب مجھے دین دار اور عالم بنانا چاہتے تھے، مگر میں سلیم شاہی جوتی اور روایتی لباس پہننے کو تیار نہیں تھا۔ میری خوب پٹائی بھی ہوئی مگر مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا، میں نے پڑھ کر نہ دیا۔ یہ 1939ء یا 1940ء کی بات ہے جب میرے والد نے مجھے جنرل اسٹور پر بٹھا دیا۔ کچھ عرصے بعد بھائی کی شادی ہوئی تو ان کے ساتھ میری بھی شادی کردی گئی۔ کم عمری تھی، مجھے تجارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا، مجھے اسٹور چلانا نہیں آیا۔ بھائی کو والد نے حیدرآباد دکن بلالیا، میرے مزے آگئے۔ میں نے اسٹور کو خوب لُٹایا۔ والد صاحب بھی ’’معجم المصنفین‘‘ (اس کتاب میں 60 ہزار مصنفین اور علما کے حالاتِ زندگی درج کیے گئے ہیں) کی تیاری کے سلسلے میں دکن جا چکے تھے۔ اب کوئی دیکھنے والا تو تھا نہیں، لہٰذا دکان چلنے کے بجائے تباہ ہوگئی۔ محلے والوں نے والد کو شکایتیں لگائیں تو والد صاحب مجھے بھی دکن لے گئے۔ دکن میں والد صاحب کا دفتر علمی و ادبی تہذیب کا گہوارہ تھا۔ بڑے بڑے علما، فضلا یہاں آتے، محفلیں جمتیں، مشاعرے ہوتے جن میں مَیں بھی شریک ہوتا تھا۔ اب ان لوگوں کے سامنے مجھے شرم آنے لگی کہ مجھے تو کچھ نہیں آتا۔ پھر مجھے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ میں کتب خانہ آصفیہ سے کتابیں لاکر پڑھنے لگا اور طے کرلیا کہ مجھے ہر قیمت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ 1940ء میں والد صاحب نے مدرسہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ کروا دیا جہاں ابتدائی عربی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد جے پور راجستھان کے مدرسہ تعلیم میں داخلہ لیا، یہاں سے میں نے ’’منشی فاضل‘‘ کیا۔ اس کا امتحان دلّی میں ہوا اور اس کا ایک انگریزی اخبار میں رزلٹ آیا تھا۔ اس کے بعد دو سال تک ’’الکافیہ‘‘نحو کی کتاب تک عربی پڑھی۔ یہاں سے مجھے دیوبند بھیج دیا گیا اور میرے لیے وظیفہ مقرر ہوا جو الکافیہ پڑھنے کے بعد ملتا تھا۔ دیوبند کے داخلے میں مشکل ہوئی تو بھائی جان کی معرفت کام آگئی۔ پانچ سال تک دیوبند میں تعلیم حاصل کی جس کا سلسلہ 1947ء میں پاکستان آنے کی وجہ سے ختم ہوگیا۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہجرت کے بعد مسائل کا سامنا ہوا۔ پہلا مسئلہ روزگار کا تھا۔ پورا خاندان ہمارے ساتھ تھا۔ ایک جاننے والے حضرت جو پوسٹ آفس میں اعلیٰ عہدے پر تھے، ہمارے گھر ٹھیرے۔ ان کی معرفت بھائی کو پوسٹ آفس میں نوکری مل گئی۔ ہم آرام باغ کی ایک بلڈنگ میں ٹھیرے تھے، مہاجروں نے جگہ جگہ مکانات اور بلڈنگوں میں رہائش اختیار کرکے قبضہ کرلیا تھا مگر ہم عزت کے خوف سے ایڈوانی ہائی اسکول کی بلڈنگ میں آگئے، جہاں بہت سے مہاجر پناہ لے چکے تھے۔ پھر ہم نے اپنے بڑے بھائی کو (جو اردو عربی کتابوں کے مصنف اور عالم دین تھے، انھوں نے لغات القرآن ندوۃ المصنفین سے شائع کی تھی) پاکستان بلالیا۔ ان کے جاننے والوں نے رنچھوڑ لائن میں ایک فلیٹ دے دیا تو ہم سب اس میں رہنے لگے۔ 1948ء میں، میَں نے اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی اور مجھے ’’سند فراغ‘‘ ملی جو پانچ سال بعد ملتی تھی۔ 1949ء میں، میَں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوگیا۔ اس زمانے میں مولانا احتشام الحق ریڈیو پاکستان سے قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے۔ میں وہاں اُن کے اسسٹنٹ کے طور پر دو سال تک کام کرتا رہا۔ جب احتشام الحق صاحب کو سبک دوش کردیا گیا تو میں نے بھی وہاں کی ملازمت چھوڑ دی اور پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی میں ملازمت حاصل کرلی۔ اُس زمانے میں مسجد خضرا کے پاس صدر میں بیرکوں کے اندر لیاقت نیشنل لائبریری بنادی گئی تھی، ابن حسن قیصر اُس وقت لائبریرین تھے۔ ایک دن اُن سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: لائبریری کی کچھ کتابیں داخلہ رجسٹر میں درج کردو۔ میں نے 100 کتابیں درج کردیں۔ کچھ دن بعد انھوں نے بتایا کہ وہاں جگہ ہے۔ میں نے جاکر انٹرویو دے دیا۔ اس طرح میں 180 روپے تنخواہ پر سرکاری ملازم ہوگیا۔ اُس وقت ولایت حسین شاہ لائبریرین تھے۔ یہاں میں نے 14 سال ملازمت کی۔ میرا ڈائریکٹر ایک بنگالی نورالصفا تھا، وہ چھٹی بالکل نہیں دیتا تھا، یہ بات میرے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبدالمعید بھی اکثر لائبریری میں آتے رہتے تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھے اطلاع دی کہ کراچی یونی ورسٹی کے اورینٹل سیکشن میں جگہ خالی ہونے والی ہے، آپ ان کی جگہ آجائیں۔ چنانچہ میں نے درخواست دے دی، اور میرا انتخاب ہوگیا۔ اُس وقت عبیداللہ قدوسی کراچی یونی ورسٹی اورینٹل سیکشن کے انچارج تھے۔ ان کے بہنوئی کا منسٹری سے تعلق تھا، وہ جوائنٹ سیکریٹری تھے، لہٰذا قدوسی صاحب کو توسیع مل گئی اور میں ان کا اسسٹنٹ بن گیا۔ 10 سال بعد مجھے ان کی جگہ ملی یعنی 17 گریڈ میں میرا تقرر ہوا۔ کچھ عرصہ میں نے یونی ورسٹی مسجد کے خطیب کے فرائض بھی انجام دیے۔1977ء کو دو سال کی چھٹی لے کر نائجیریا چلا گیا جہاں بیرو یونی ورسٹی میں سینئر کیٹلاگر کی حیثیت سے 10 سال خدمات انجام دیں۔ 14 مارچ 1981ء کو مجھے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوئی۔ 1971ء میں میَں نے پی۔ ایچ۔ ڈی میں داخلے کی درخواست جمع کرائی تھی۔ اس طرح 10 سال میں ڈاکٹریٹ مکمل ہوئی۔ عبدالمعید صاحب میرے نگراں تھے۔ اب سات سال سے جامعتہ الرشید میں استاد کی حیثیت سے تعلیم دے رہا ہوں۔ مدرسہ بنوریہ ٹاؤن میں شعبہ تحقیق و حدیث کا نگرانِ اعلیٰ ہوں۔ میرے بیٹے حافظ محمد ثانی اسلامیات میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں اور لائبریری سائنس میں بھی ماسٹرز کیا ہے، آج کل وہ DHA کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ میرے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، سب حافظ قرآن ہیں۔ محمود اور حماد دو بیٹے سرکاری ملازم ہیں، اور ایک حافظ محمد اول گارمنٹ کا کاروبار کرتے ہیں، بیٹی حبیبیہ مدرسہ البنات بنوری ٹاؤن کی نگران ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی اسلامیات، کتب خانوی سائنس دونوں پر دسترس رکھتے تھے۔ ہمہ وقت مطالعہ اور تحقیق میں مصروف رہتے تھے۔ ان کی تصانیف درجِ ذیل ہیں:۔
اسلامی قلم رو میں اقراء اور علّم بالقلم کے ثقافتی جلوے (دو جلدیں)، اسلامی کتب خانے، تذکرہ علامہ جلال الدین سیوطی، حیات امام جزری، حیات وحیدا لزماں،رموز تدریس و تربیت /ارشادات، زادالمتقین فی سلوک طریق الیقین (ترجمہ و تشریح)، سید احمد شہید کی اردو تصانیف اردو ادب پر ان کی تحریک کا اثر،عدۃ الحصن الحصین /محمد بن جزری (ترجمہ و تشریح)،عہدِ نبوی میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت، فرزندکامل پوری و معتمد بنوری،فوائد جامعہ شرح عجالہ نافعہ،مشارق الانوار(مرتبہ)،نصیحۃ المسلمین /مولانا خرم علی بلہوری(مرتبہ)۔
آپ نے بہت سی کتابوں کے مقدے ،تقریظ اور تاثرات رقم کیے۔ اطہر مبارک پوری ،قاضی علم و علماء/قاضی اطہر مبارک پوری،تاثرات مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، (باقی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں)، البضاعة المزجاۃ لمن یطایع المرقاۃ/مقدمہ مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، مسند عائشہ /مرتبہ جمیل نقوی، مقدمہ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، اراشیدی ،محمد ایوب احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات /محمد ایوب الراشیدی ،تاثرات ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، رشید احمدسوئے حرم ،رشید احمد ،تقریظ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، نبوت اور سلطنت،تقریظ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، مناظر احسن گیلانی تدوین قرآن افادات ،مناظر احسن گیلانی، مقدمہ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، مناظر احسن گیلا نی ہزار سال پہلے، مناظر احسن گیلانی، مقدمہ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی۔