اُم النبی ﷺ حضرت سیدہ آمنہ بنتِ وہبؓ۔

فخر ِ کائنات، سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنتِ وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ کا تعلق قریش کے ایک معزز ترین خاندان سے تھا۔ آپ کے والد وہب بن عبد مناف شرافت اور فطری قابلیت کی بنیاد پر بنو زہرہ کے سردار تھے۔ جب کہ آپ کے دادا عبد مناف بن زہرہ تھے، جن کے نام کو ان کے چچا زاد عبد مناف بن قصی کے نام کے ساتھ ملا کر دونوں کو ”منافان“ کہا جاتا تھا۔ یہ عظمت اور رفعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ کو ورثے میں ملی کہ آپ منافان یعنی عبدمناف بن قصی اور عبدمناف بن زہرہ کی عزت و عظمت کے وارث تھے۔
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کا اپنی والدہ کی جہت سے بھی نسب کم عزت والا نہیں تھا۔ آپ کی والدہ کا نام برہ بنتِ عبدالعزیٰ بن عثمان بن عبدالدار بن قصی بن کلاب تھا۔ جب کہ آپ کی نانی ام حبیب بنت ِ اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی جیسی شان دار خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ اپنے نسب پر فخر کرتے ہوئے فرماتے تھے: ۔
”اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھے پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا… ہر آلائش سے پاک کرکے ہر آلودگی سے صاف کرکے۔ جہاں کہیں دو شاخیں پھوٹیں وہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے اُس شاخ میں منتقل کیا جو دوسری سے بہتر تھی۔“
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہؓ کی زندگی بڑی پاکیزہ اور بے داغ تھی۔ آپ گلستانِ قریش کی کلی، بنوزہرہ کی بیٹی اور نہایت پردہ دار خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے آپ کا سراپا بیان نہیں کیا۔ لیکن آپ ؓکے پاکیزہ سیرت و کردار کی خوشبو پورے مکہ مکرمہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ آپ ؓنے اپنے چچا وہب بن عبد مناف کی حضانت میں پرورش پائی تھی۔ آپ ؓکے خاندان کے زمانہ قدیم سے بنو عبد مناف کے ساتھ اچھے روابط چلے آرہے تھے۔ نمایاں اور قابل فخر سرگرمیوں میں آپ ؓ کا خاندان قریش کے ساتھ برابر شریک رہا۔ حلف الفضول اور حلف المتطیبین دونوں میں بنو ہاشم کے ساتھ شامل تھا۔ حضرت عبدالمطلب نے اپنے عزیز ترین بیٹے حضرت عبداللہؓ کی شادی کے لیے سیدہ آمنہ بنت ِ وہب کا انتخاب کیا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ شادی کے روز قریش کی عورتوں میں حسب و نسب کے اعتبار سے سب سے افضل حضرت آمنہؓ تھیں۔
حضرت عبداللہؓ نے بہت کم عمر پائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے چند ماہ پہلے قریش کے شرفاء کی طرح حسبِ معمول سامانِ تجارت لے کر غزہ (فلسطین) گئے۔ واپسی میں بیمار ہوگئے۔ جب قریش کا قافلہ مدینہ پہنچا تو آپ کے مرض نے شدت اختیار کرلی۔ وہ مجبوراً اپنے والد کی ننھیال بنونجار کے یہاں ٹھیر گئے اور وہیں آپ کا انتقال ہوگیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بعد عرب کی روایت کے مطابق سیدہ آمنہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رضاعت کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کردیا۔ چار سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو سعد میں گزارے۔ سیدہ آمنہ ؓنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بصورت اشعار بیان کیے تھے۔ اس طرح خواتین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہؓ کو پہلی نعت گو خاتون ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چھے سال کی ہوئی تو سیدہ آمنہؓ آپ کو لے کر آپ کے ننھیال یثرب چلی گئیں۔ وہاں ایک ماہ قیام کے بعد مکے کو واپسی ہوئی تو مقام ابوا پہنچ کر ان کا انتقال ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم عمری ہی میں اپنی والدہ ماجدہ کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے تھے، لیکن والدہ کی یاد ہمیشہ آپؐ کے دل میں رہی۔ آپؐ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے: ”میں بنو سلیم کی کریم عورت کا فرزند ہوں“۔ مدینہ منورہ ہجرت کے موقع پر جب آپ نے عدی بن نجار کے محلے کو دیکھا تو ارشاد فرمایا: ”یہاں میں اپنی والدہ کے ساتھ آیا تھا اور اس گھر میں میرے والد جناب عبداللہ کی قبر ہے۔“ حدیبیہ کے عمرہ میں آپؐ نے ابوا کے مقام پر اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت بھی فرمائی۔
پیش نظر کتاب ”ام النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔حضرت سیدہ آمنہ بنتِ وہبؓ“ معروف مصنفہ و ادیبہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمٰن (1913ء۔1998 ء) کی تصنیف ہے۔ مصر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمٰن ادبی دنیا میں بنتِ شاطی کے نام سے معروف ہیں۔ مصر، مراکش اور عراق کی جامعات میں آپ اعلیٰ تدریسی مناصب پر فائز رہیں۔ مصر کے مشہور اخبار ”الاہرام“ میں ایک طویل عرصے تک آپ کے کالم بھی شائع ہوتے رہے۔ عرب ممالک میں آپ کو ماہر تعلیم، دانشور، صحافی اور حقوق نسواںٗ کی صفِ اوّل کی رہنما اور عملی کارکن کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپ خانگی زندگی کے تقدس کی علَم بردار تھیں۔ چالیس سے زائد کتابوں اور سو سے زائد مضامین و مقالات اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کی چند معروف تصانیف کے نام درجِ ذیل ہیں: 1۔ القرآن والتفسیر العصری، 2۔ التفسیر البیانی للقرآن الکریم، 3۔ الاعجاز البیان فی القرآن، 4۔ مقال فی الانسان، 5۔ لغتنا والحیاۃ، الخنساء۔ وغیرہ
”ام النبی صلی اللہ علیہ وسلم“کے باب اول ”سیدۃ الامہات“ میں بنتِ شاطی نے پہلے سیرتِ سیدہ آمنہ اور اس کے مراجع پر روشنی ڈالی ہے، اور اس سلسلے میں اپنا منہج ِتحقیق واضح کیا ہے۔ اس کے بعد حضرت آمنہ کے گھر، اردگرد کے ماحول، بیت اللہ کی قدیم تاریخ، عرب زندگی کے عام خدوخال اور اس دور کی عورت کی زندگی کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہلِ عرب جہاں چند در چند برائیوں کا شکار تھے وہاں بعض بہترین خوبیوں کے حامل بھی تھے۔عہدِ جاہلیت میں عورت کے استحصال سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ بنت ِشاطی نے عرب معاشرے کا دوسرا رخ بھی ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ”عرب کے معاشرتی نظم میں مامتا کی عزت و احترام کی روشنی ملتی ہے۔ مورخین نے عرب ماں کی بلند ہمتی کی گواہی دی ہے کہ اولاد کی عظمت میں ماں کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔“
بنتِ شاطی نے اس باب میںعرب کی نجیب الطرفین عورتوں کا ذکر بھی کیا ہے، مثلاً: فاطمہ بنت ِخرشب النماریہ، ام البنین بنتِ عامر بن عمرو، عاتکہ بنتِ مرہ بن ہلال السلمیہ، ام الفضل لبابہ الکبریٰ بنتِ حارث بن حزن ہلالیہ، ام لبابہ کبریٰ، ریطہ بنتِ سعیدبن سہم الفہریہ السہمیہ۔
بنتِ شاطی بیان کرتی ہیں کہ عربوں کے نزدیک ماں کی مامتا کی عزت و عظمت کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ بہت سے عرب قبائل اپنی مائوں کی طرف منسوب ہوئے۔ مثلاً: بنو خندف، بنو مزینہ بنت کلب بن وبرہ، بنو جدیلہ بنت مربناد، بنو طفاوہ بنت جرم بن زبان، بنو باہلہ بنت صعب، بنو قیلہ بنت ارقم، بنو بجیلہ بنت صعب، بنو عاملہ قضاعیہ۔ اسی طرح جزیرہ عرب کے کچھ بادشاہ بھی اپنی مائوں کی طرف منسوب ہوئے۔ مثلاً : عمرو بن ہند۔
تاریخ میں عہدِ جاہلیت کے عرب معاشرے میں کئی ایسی مائوں کا تذکرہ ملتا ہے جن کے غیور بیٹوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر اپنی مائوں کی عزت و ناموس اور مامتا کی حفاظت کی۔ بنتِ شاطی نے اس سلسلے میں عمرو بن کلثوم کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اسی باب میں ”امہات الانبیاء“ کے عنوان کے تحت چار برگزیدہ پیغمبروں حضرت اسماعیل، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ان کی مائوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان انبیاء کے بچپن میں ان کی پرورش کی ذمہ داری ان کی مائوں کے سپرد کی گئی اور مشیتِ خداوندی کے تحت اس سعادت میں ان کے آباء شریک نہ ہوسکے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ماں کی طرف منسوب کرکے عیسیٰ بن مریم علیہ وعلیہاالسلام کہا ہے۔ مائوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس نسبت پر فخر کریں۔
ادبی اسلوب میں لکھی گئی یہ کتاب درجِ ذیل سات ابواب پر مشتمل ہے: ۔
1۔ سیدۃ الامہات، 2۔ فضا، ماحول اور خاندان، 3۔ زہرہ (قریش)، 4۔ بیوہ دلہن، 5۔ یتیم کی ماں، 6۔ سفر آخرت، 7۔ یادگار۔
اصل کتاب عربی زبان میں ہے۔ ہمارے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ ہے، جس کی یہ تیسری اشاعت ہے۔ بنتِ شاطی نے بہت خوبصورت اور پُراثر اسلوب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین بالخصوص آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنتِ وہب رضی اللہ عنہا کی حیاتِ طیبہ کی تصویر کشی کی ہے۔ کتبِ سیر و تاریخ میں سیدہ آمنہ بنتِ وہب ؓ کی سیرتِ طیبہ کے متعلق روایات بہت کم ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فاضل مصنفہ نے بعض مقامات پر تصوراتی رنگ اور قصہ گوئی کا انداز بھی اختیار کیا ہے۔ لائق مترجم نے مصنفہ کے اسلوبِ بیان کا پورا خیال رکھتے ہوئے رواں اور شستہ اردو ترجمہ کیا ہے جس کے لیے وہ لائقِ مبارک باد ہیں۔اس خوبصورت کتاب کی بلا قیمت نشر و اشاعت کے لیے صوفی محمد یامین قادری بھی ہمارے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔ فجزاہم اللہ عنی خیرالجزاء۔