محسنِ انسانیتؐ اور عوام کی معاشی اصلاح

عرب کی کثیر التعداد بدوی آبادی تو بالعموم بالکل ہی خستہ حال تھی، اور بیشتر صحرائی قبائل خانہ بدوش رہتے اور مویشیوں سے حاصل شدہ قلیل معیشت کے ساتھ مسلح لوٹ مار کا پیشہ اختیار کرلیتے۔ شہروں سے دور اعرابیوں کے مقیم قبائل کی حالت بھی پتلی تھی۔ ان کے اندر کے شیوخ اور سردار معاشی جدوجہد کے بیشتر ثمرات لے اڑتے۔ شہر تھے ہی کتنے… مکہ، مدینہ، طائف، صنعا، حضر موت وغیرہ۔ پھر یہ بھی بہت بڑے شہر نہ تھے۔ قلیل آبادیاں تھیں۔ یہ قلیل آبادیاں بہ حیثیتِ مجموعی خوش حال تھیں، مگر خود ان میں بھی بالائی اور زیریں طبقات تھے۔ بالائی طبقے زیریں طبقات سے بھی ان کا حق نچوڑ لے جاتے تھے۔ مدینہ میں یہودی تجارت اور زراعت کے ساتھ ساتھ سود خواری کے جال پھیلائے ہوئے تھے۔ اسی طرح مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مال دار لوگ بھی دوسرے ذرائع کے ساتھ ساتھ مہاجنی کاروبار کرتے تھے۔ اوپر کے چند خاندانوں کے اسراف کا یہ عالم تھا کہ شرابیں پی کر چاہیں تو پچاسوں اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور پھر فیاضی کا سکہ جمائیں۔ گانا بجانا، معاشقے، بدکاریاں ان کے کلچر کے نمایاں ابواب تھے۔ لیکن دوسری طرف عرب عوام کا یہ حال تھا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گوہ تک کا شکار کرتے۔ ٹڈی دل آتے تو ٹڈیاں کھاتے، چھپکلیاں تک چٹ کر جاتے۔ مُردہ جانوروں کا گوشت اور جماکر خشک کیا ہوا خون اور سوکھا ہوا چمڑہ تک بھون لیتے۔ زندہ جانوروں کے بدن سے ٹکڑے کاٹ کر کھا لیتے۔ سرے سے حلال و حرام اور طیب و مکروہ کی تمیز ہی نہ تھی۔ لباس اور غذا اور مسکن ہی کا مسئلہ حل نہ ہوپاتا تھا تو تعلیم اور صحت اور اس سے اوپر کے مسائل کا کیا ذکر! علاج کے لیے وہاں بتوں کے حضور پرارتھنا ہوتی اور کچھ ٹونے ٹوٹکے چلتے تھے، کاہنوں اور نجومیوں کی چاندی ہوجاتی تھی۔ تعلیم نہایت محدود پیمانے پر شہروں کے صرف اعلیٰ خاندانوں کے اندر بھی تھوڑے سے افراد کو حاصل ہوتی۔ بقیہ سارا عرب جوکچھ بھی علم حاصل کرتا تھا، اپنی روزمرہ کی عملی زندگی کے مدرسے سے حاصل کرتا تھا۔ بہرحال وہاں کا ایک بنیادی اور ٹھوس سوال روٹی تھا، جس قوم کی عظیم اکثریت ہر وقت ’’کھائیں گے کیا؟‘‘ کے سوال پر سوچتی رہے اُسے نہ تو اعلیٰ تر حقیقتوں کا ذوق دیا جاسکتا ہے اور نہ وہ بڑے بڑے مقاصد کے لیے کوئی عظیم کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ معاشی محرومی کی پستی میں گرے ہوئوں کو اگر سہارا دے کر کوئی نظریہ اوپر نہ اٹھا سکتا ہو اور ان کی تواضع فقط وعظوں سے کرے تو کبھی بھی بڑے پیمانے پر عوام کو حرکت میں نہیں لاسکتا۔ پھر اگر وہ تلوار کے زور سے اپنی حکومت بھی جمالے، لیکن وہ حکومت زندگی کے اولین معاشی مسئلے کا کوئی حل نہ دے سکے، تو ایسی صورت میں محض اخلاقی مفہوم میں تعمیر و اصلاح کو قبول کرنے پر عام لوگ کبھی تیار نہیں ہوسکتے، بلکہ ایسی تعمیر و اصلاح کو ایک مصیبت اور عذاب سمجھ کر اس سے نجات پانے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں۔ انسانیت نظریہ حق سے جبھی مفتوح ہوتی ہے جب کہ وہ عاقبت کے ساتھ دنیا کو بھی سنوارے اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ معاش کے قضیے کا حل بھی نکالے۔ لوگ اسی قوت کی زبان سے وعظ سن کر متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس کے عصائے تادیب کی ضربیں بھی ہنسی خوشی برداشت کرلیتے ہیں، جس کے ہاتھوں سے ان کے مسئلہ رزق کا قفل کھلے۔ جس طرح نرا مسئلہ معاش لے کر اٹھنا انسانیت کو اخلاقی لحاظ سے ہلاکت میں ڈالنا ہے، اسی طرح اخلاقی اصلاح کے کام کو زندگی کے معاشی تقاضوں سے الگ کرکے لینا سرے سے اخلاقی اصلاح ہی کو ناکام بنادیتا ہے۔ اسلام دونوں ضرورتوں کا جامع ہے۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تحریک چلائی وہ جہاں دلوں کو نورِ ایمان اور روحوں کو اخلاقی اقدار دیتی تھی، وہاں وہ پیٹ کی روٹی بہم پہنچانے کے لیے بھی بہترین تدابیر عمل میں لاتی تھی۔ عین آغاز ہی میں اسلام کے مختصر سے اخلاقی ضابطہ میں ’’اطعام مساکین‘‘ بڑی اہمیت کے ساتھ شامل تھا۔ پھر یتیموں، بیوائوں اور مسافروں کی خبر گیری کرنا ہر مسلم پر لازم تھا۔
عرب جیسے کم پیداوار ملک میں دولت… سیم و زر اور اجناس کی شکل میں بھی، زرعی اراضی کی شکل میں بھی اور مویشیوں کی شکل میں بھی… نہایت محدود حلقوں میں سمٹی ہوئی تھی۔ دولت کی ان جھیلوں اور تالابوں کے بند کاٹ کر اس کو عوامی طبقوں کی طرف بہائو میں لانا بڑا ہی ٹیڑھا مسئلہ تھا۔ اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر زندگی کے بڑے بڑے معاملات کی درستی ممکن نہ تھی۔

بیادِ مجلس اقبال

جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر

علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔