امریکہ میں ایبٹ آباد آپریشن کی حقیقت پر شکوک کا اظہار
صدر ٹرمپ کی پالیسیوں اور طرزِعمل سے سخت اختلاف کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ وہ بہت جرأت کے ساتھ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کا کسی امریکی سیاست دان سے تصور بھی محال ہے۔ یہ اس اعتبار سے مزید حیران کن ہے کہ امریکی صدر خود کو بہت فخر سے ایک قوم پرست امریکی کہتے ہیں، اور ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ ان کی سیاست کا امتیازی نشان ہے۔ قوم پرست سیاست دان عام طور سے کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے امریکی فوج و سی آئی اے کی صلاحیت یا بطور ادارہ ان کی ساکھ پر حرف آتا ہو۔ لیکن صدر ٹرمپ اس باب میں خاصے بے باک ہیں۔ انھوں نے حکومت میں آتے ہی کہا کہ حملے کے لیے عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار یا WMDکی موجودگی صدر بش کا تراشا ہوا سفید جھوٹ تھا، اس کے نتیجے میں امریکی ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر پھونک دیئے گئے اور ہزاروں امریکی سپاہیوں کے ساتھ لاکھوں بے گناہ عراقی مارے گئے۔ چند ماہ پہلے جب امریکی فوج کے سابق سربراہ جنرل کولن پاول نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں صدر ٹرمپ کو ’جھوٹا‘ قراردیا تو امریکی صدر آپے سے باہر ہوگئے اور فرمایا ’’مجھے جھوٹا وہ کہہ رہا ہے جس کے جھوٹ نے ایک ملک کو ملبے کا ڈھیر بنادیا‘‘۔ افغانستان کے بارے میں امریکی جرنیلوں کے ایک اجلاس میں موصوف مبینہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو شکست دینا امریکی فوج کے بس کی بات نہیں، بہتر یہی ہے کہ عزت کے ساتھ فوج کو واپس بلالیا جائے۔ نیٹو اتحاد کو وہ ’مہمل‘ کہہ چکے ہیں۔
اب اسامہ بن لادن کے امریکی چھاپہ مار دستے کے ہاتھوں مبینہ قتل کے حوالے سے ان کی ایک ٹویٹ نے ملک کے ’محبِ وطن اور قوم پرست‘ حلقوں کو سخت مشتعل کردیا ہے۔ متنازع ٹویٹ سے پہلے ایبٹ آباد آپریشن کا سرسری تذکرہ:
اس واقعے کی جو تفصیل امریکی حکومت نے جاری کی تھی اس کے مطابق 2 مئی 2011ء کی شب امریکہ کا ایک چھاپہ مار دستہ دو ہیلی کاپٹروں میں ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹائون کے ایک مکان کی چھت پر اترا۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ یہ ہیلی کاپٹر کہاں سے آئے تھے۔ امریکہ کے سراغ رساں اداروں کا کہنا ہے کہ ان ہیلی کاپٹروں نے تربیلا کے قریب غازی سے اڑان بھری تھی۔ ایک اور اطلاع کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر جنوبی افغانستان سے آئے تھے۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ہیلی کاپٹر ہندوستان سے روانہ کیے گئے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر حملے کے دوران تباہ ہوگیا، تاہم آپریشن جاری رہا اور حملہ آور چھت سے اتر کر گھر کے اندر داخل ہوئے۔ ان کی نپی تلی کارروائی میں اسامہ بن لادن، ان کی یمنی اہلیہ اور ایک صاحب زادے سمیت چار افراد جاں بحق ہوگئے، جبکہ دو خواتین گرفتار کرلی گئیں۔ امریکی چھاپہ مار دستے کی اس کارروائی کے بعد لاشوں، زخمیوں اور قیدیوں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر افغانستان میں واقع امریکی فوجی اڈے بگرام پہنچا دیا گیا، جہاں فائل فوٹو سے لاش کی شناخت کے بعد جسدِ خاکی کو سمندر برد کردیا گیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق بگرام میں ان کی لاش کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا گیا۔
اسامہ کی لاش سمندر برد کرنے کے بارے میں بھی دو مختلف دلائل جاری کیے گئے ہیں۔ ایک بیان کے مطابق امریکیوں کو خدشہ تھا کہ اسامہ کا مزار ایک آستانہ اور روحانی مرکز بن جاتا، چنانچہ ’’نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘ کے خیال سے ان کی باقیات کو بحر عرب میں بہا دیا گیا۔ بعد میں جاری ہونے والی ایک وضاحت کے مطابق ان کی لاش کی حوالگی کے لیے ریاض سے رابطہ کیا گیا، لیکن سعودی حکام نے اپنے شہری کی میت کو لینے سے انکار کردیا، لہٰذا جلداز جلد تجہیز وتکفین کے اسلامی حکم کی تعمیل میں ان کی بحری تدفین کا فیصلہ کیا گیا۔
اس واقعے کے بارے میں ابتدا ہی سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا۔ اُس وقت خراب معاشی حالات کی بنا پر صدر اوباما کو نئی مدت کے انتخاب میں سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ اس پس منظر میں اسامہ کے قتل نے اوباما کو ہیرو بنادیا اور ان کی مقبولیت کا گراف آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ اور تو اور خود ری پبلکن پارٹی پر ان کی مقبولیت سے ایسی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے بجٹ پر اپنے زیادہ تر اعتراضات واپس لے لیے، اور ان کے انتہائی قدامت پسند پارلیمانی گروپ ٹی پارٹی نے صدر اوباما کے صحت بیمہ المعروف اوباما کیئر میں مزید کٹوتی پر اصرار ترک کردیا۔ اس واقعے کے چند دن بعد انھوں نے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے کا دورہ کیا۔ امریکی الزام کے مطابق، ستمبر 2001ء میں اسامہ کے ساتھیوں نے چار مسافر بردار جہاز اغوا کیے تھے، جن میں سے دو جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیئے، اور ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور منہدم ہوگئے۔ اس مقام پر اب ایک چبوترہ قائم کیا گیا ہے جسے گرائونڈ زیرو کہا جاتا ہے۔ گرائونڈ زیرو پر صدر اوباما نے اس سانحے کے متاثرین و لواحقین سے خطاب کیا اور ایک بار پھر واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہمارا دشمن وقتی طور پر چھپ تو سکتا ہے مگر ہم سے بچ نہیں سکتا۔ اس کے دوسرے دن امریکی فوج کے کمانڈر انچیف صاحب ریاست کنٹکی میں فورٹ کیمپ بیل کے فوجی اڈے گئے جہاں انھوں نے ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں کی پیٹھ ٹھونکی اور شاباش دی۔ ہر جگہ صدر اوباما کا لہجہ غرور سے چُور اور رویہ انتہائی جارحانہ تھا۔ سیاسی مبصرین نے قوم سے خطاب، گرائونڈ زیرو کے دورے اور کنٹکی میں فوجی دستے سے ملاقات کو ان کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ گرائونڈ زیرو کی تقریب میں شرکت کے لیے سابق صدر بش اور کانگریس کے اسپیکر نے امریکی صدر کی دعوت مسترد کردی۔
تاہم اس چشم کشا واقعے کی شفافیت پر اُس وقت بھی سوال اٹھے تھے۔ نیو جرسی سپیریئر کورٹ (ریاستی سپریم کورٹ) کے سابق جج اور فاکس ٹی وی کے معروف اینکر پرسن و تجزیہ نگار اینڈریو نیپولیٹانو(Andrew Napolitano) نے اس پورے واقعے کو اوباما کا انتخابی ڈرامہ قرار دیا تھا۔ بریکنگ نیوز دیتے ہوئے مسٹر نیپولیٹانو نے کہا کہ ’’اسامہ بن لادن امریکی صدر کے انتقام کا نشانہ بن گئے، امریکی صحافیوں کو اس بات کا یقین نہیں کہ حکومتی اہلکار سچ بول رہے ہیں یا یہ اوباما کی ناکام صدارت کو سہارا دینے کی ایک بھونڈی کوشش ہے‘‘ انھوں نے ناظرین سے سوال کیا کہ کیا ان کو اسامہ کی موت کا یقین ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ثبوت کے طور پر تصویر، کوئی دستاویز، یا کم ازکم ایک عینی شہادت کی ضرورت ہے۔ صرف صدر کے الفاظ کافی نہیں کہ اس صدر کی زبان پر ہمیں پہلے ہی بھروسا نہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اسامہ کی ہلاکت کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے اوباما کا یہ کہنا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ صدر اوباما پر الزام ہے کہ ان کی پیدائش کینیا میں ہوئی تھی اور ہوائی میں ان کی پیدائش کی سند جعلی ہے۔ جسٹس نیپو لیٹانو کا کہنا تھا کہ اگر صدر اوباما نے اسامہ کی موت کا ناقابلِ تردید ثبوت پیش نہ کیا تو ان پر جعل سازی کا مقدمہ قائم کیا جائے گا۔
مشہور قدامت پسند صحافی، فلم ساز اور ابلاغیات کے ماہر الیکس جونز بھی انھی لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے کھل کر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ صدر اوباما کی جانب سے اسامہ کی موت کے اعلان کے بعد ریڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے، اگر اسامہ مارا گیا تو اس کی لاش کدھر ہے؟ تدفین میں اس قدر عجلت کی کیا ضرورت تھی؟ مسٹر جونز نے انکشاف کیا کہ اسامہ نو سال پہلے ہی جاں بحق ہوچکے ہیں، ان کی لاش کو امریکی فوج نے سرد خانے میں رکھا ہوا تھا، اور یہ سارا ڈرامہ صدر کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔
جنگ مخالف رہنما مسز سنڈی شیہان بھی صدر اوباما کے دعوے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ مسز شیہان کا پچیس سالہ بیٹا کیسی شیہان عراق کی جنگ میں ہلاک ہوا تھا جس کے بعد سے انھوں نے اپنی پوری زندگی جنگ مخالف تحریک کے لیے وقف کردی ہے۔ جب مسز شیہان سے پوچھا گیا کہ ان کو صدر اوباما کے اعلان پر یقین کیوں نہیں؟ تو انھوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ اوباما امریکہ کے بے شرم حکمرانوں کا تسلسل ہے۔ انھوں نے ڈی این اے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک مستند اور قابلِ اعتماد ڈی این اے میں کم ازکم تین دن لگتے ہیں، آخر کس لیبارٹری سے یہ ٹسٹ چند گھنٹوں میں کرا لیا گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ اوباماکے مشکوک برتھ سرٹیفکیٹ سے توجہ ہٹانے کے لیے رچایا گیا ہے۔ کتنا عجیب سا لگتا ہے کہ اسامہ کی رہائش گاہ پر حملہ، اس کا قتل، ڈی این اے، تدفین اور اوباما کی نشری تقریر سب کچھ بائیس گھنٹے میں ہوگیا!
اُس وقت جبکہ امریکی عوام کے جذبات اپنے عروج پر تھے تو آپریشن کے کسی بھی پہلو پر شک کا اظہار قوم سے غداری سمجھا گیا، چنانچہ صدر کے مخالفین گرد کے بیٹھنے کا انتظار کرنے لگے، لیکن پھر انتخابی مہم کے شور میں معاملہ دب گیا۔ توقع کے مطابق صدر اوباما نے دوسری مدت کا انتخاب بھاری اکثریت سے جیت لیا اور معاملہ عوام کے ذہن سے اوجھل ہوگیا۔
ادھر منیا پولس (Minneapolis) پولیس تشدد کے بعد جہاں Black Lives Matter تحریک نے زور پکڑا وہیں سفید فام نسل پرست بھی خم ٹھونک کر صدر ٹرمپ کی پشت پر کھڑے ہوگئے، جن میں سب سے سرگرم کیوانا ن(QAnon) گروپ ہے۔ حال ہی میں فیس بک نے اس گروپ کے اشتہاروں پر پابندی لگادی ہے۔ ’نظریۂ سازش‘ کیوانان گروپ کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس گروہ کا خیال ہے کہ قحبہ گردی کی نیت سے خواتین کی اسمگلنگ کرنے والے اور بچوں سے ناشائستہ تعلقات کے رسیا شیطان کے بندے یعنی Satan- worshiping pedophiles صدر ٹرمپ کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ کیوانان کے مطابق ہالی ووڈ کے اخلاق باختہ لبرل فلم ساز اور میڈیا پر قابض بائیں بازو کے قلم کار مربوط و منظم انداز میں امریکہ کی مسیحی اقدار کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔
حال ہی میں کیوانان گروپ نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ’’اسامہ بن لادن (شاید) اب بھی زندہ ہے اور صدراوباما کی ہدایت پر امریکی فوج کے چھاپہ مار فوج سیل (Seal)کے دستے نے ایبٹ آباد میں جس شخص کو قتل کیا وہ اسامہ کا ہم شکل متبادل یا body double تھا۔ صدر ٹرمپ نے اسے نہ صرف retweetکیا بلکہ ساتھ ہی یہ تبصرہ بھی جڑدیا کہ اوباما انتظامیہ نے ایرانی حکومت سے سازباز کرکے بن لادن کو وہاں سے پاکستان بھجوایا تاکہ اسے نمائشی اندازمیں آسانی سے قتل کیا جاسکے۔ امریکی صدر نے اس کے لیے Obama’s Trophy Kill کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اس تبصرے کی بنا پر صدر ٹرمپ مخالفین کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات کہ قدامت پسندوں سے زیادہ ملک کا لبرل میڈیا صدر ٹرمپ کی اس جسارت پر سخت برہم ہے۔ کئی دن سے امریکی بحریہ کی سیل ٹیم کے رکن رابرٹ اونیل مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر صدر ٹرمپ کی مذمت کررہے ہیں۔ جناب اونیل کا دعویٰ ہے کہ انھی کی گولی سے اسامہ بن لادن مارے گئے تھے۔ جناب اونیل نے CNNپر بڑے فخر سے کہا کہ’’امریکی فوج کے دلاور اپنے بچوں کو خداحافظ کہہ کر صدر اوباما کے حکم پر اسامہ کو قتل کرنے گئے تھے، اور یہ بہروپ یا Stuntنہیں تھا‘‘۔ امریکی بحریہ کا یہ سابق سپاہی صدر ٹرمپ کا حامی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان سے اسے سخت صدمہ پہنچا ہے۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ اپنی بات پر معذرت کو تیار نہیں۔ گزشتہ جمعرات کو جب مباحثے کے دوران اُن سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو امریکی صدر نے بہت اعتماد سے کہا کہ ٹویٹر پر retweet بہت عام ہے اور ری ٹویٹ کا مطلب مواد سے مکمل اتفاق ہرگز نہیں۔ مجھے موضوع دلچسپ لگا چنانچہ میں نے وہ پیغام آگے بڑھادیا۔ ساتھ ہی امریکی صدر یہ بھی کہہ گئے کہ ایبٹ آبادآپریشن پر اس سے پہلے بھی شکوک کا اظہار کیا گیا ہے اوراوباما کے حامی بے لاگ گفتگو سے ڈرتے کیوں ہیں؟
اسامہ کے قتل کے بارے میں شک و شبہ کی بڑی وجہ اُن کی سرکاری تصویر کا عدم اجرا ہے۔ عجلت میں بحری تدفین کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ جب کوئی ملک ان کی لاش لینے پر تیار نہ تھا تو بین الاقوامی سمندر میں تدفین ہی اس کا حل تھا۔ امریکی کانگریس کے کچھ ارکان کو لاش کی تصاویر دکھائی گئیں لیکن اسے اشاعتِ عام کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔ تصویر کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق اسامہ کے چہرے اور سر پر گولیوں کا نشان نہ تھا لیکن ان کی دونوں آنکھیں نکلی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ موصوف کے سرخ و سفید چہرے نے تصویر کو مزید مشتبہ بنادیا۔ سی آئی اے کا کہنا ہے کہ 2001ء سے اسامہ گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے اور گزشتہ دس سال سے ان کا ہفتے میں تین دن ڈائلاسز ہورہا تھا۔ ڈائلاسز کرانے والے مریض کا چہرہ اس قدر شاداب نہیں ہوتا۔ غیر جانب دار ڈاکٹروں کے مطابق اس تصویر میں اسامہ کی عمر چالیس، پینتالیس سال نظر آرہی ہے، جبکہ 2 مئی 2011ء کو اسامہ کی عمر 54 برس 2ماہ تھی۔
اسامہ کی لاش صحافیوں کو نہ دکھانے کی بھی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جولائی 2003ء میں جب ایک فوجی کارروائی میں صدام حسین کے دونوں صاحب زادے عدی اور قصی امریکی فوجوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تو ان کی لاشوں کی صحافیوں کے سامنے نمائش سے پہلے چہروں سے زخم کے داغ مٹانے کے لیے باقاعدہ پلاسٹک سرجری کی گئی تاکہ شکل کی تصدیق ہوسکے۔ یہی نہیں بلکہ قصی کے پیر کاٹ کر وہ اسٹیل راڈ بھی دکھائی گئی جو ایک سال پہلے ٹریفک کے ایک حادثے میں ان کی ٹانگ ٹوٹنے پر سرجری کے دوران ڈالی گئی تھی۔ اس کا مقصد ان دونوں بھائیوں کی ہلاکت کی ابلاغِ عامہ کے نمائندوں کے سامنے تصدیق تھی۔
تصویردیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی آنکھوں، پیشانی اور بائیں گال پر تیزاب سے جھلسنے کی علامات بڑی واضح تھیں۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے امریکہ میں نظریۂ سازش کے حامی کہہ رہے ہیں کہ اسامہ کو ایک برس پہلے جنوبی افغانستان میں کیمیکل ہتھیاروں کی مدد سے موت کے گھاٹ اتارا جاچکا تھا لیکن صدر اوباما ان کی کی موت کا اعلان ایک مناسب وقت پر کرنا چاہتے تھے۔ کیوانان کے خیال میں یہ کارروائی اوباما کا انتخابی ڈرامہ تھی۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔