ترجمہ:اسامہ تنولی
معروف قانون دان اور تجزیہ نگار شہاب اوستو نے بروز اتوار 18 اکتوبر 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پرسمندری جزائر کے متنازعہ آرڈیننس کے بارے میں جو مضمون تحریر کیا ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’میں عرصۂ دراز سے یہ لکھتا چلا آرہا ہوں کہ سندھ کی وحدت، اس کا سیاسی، سماجی، معاشی اور سیاسی مستقبل، نیز یہاں کی زمینوں پر مقامی افراد کا حقِ ملکیت، خاص طور پر اسٹرے ٹیجک اہمیت کی حامل سمندری پٹی اور نیشنل ہائی وے خطرے کے زیراثر آئے ہوئے ہیں۔ حالیہ صورتِ حال نے میرے اس خوف میں مزید اضافہ کر ڈالا ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک ہی ضرب سے ساری سمندری پٹی حاصل کرلی ہے، جس میں پانی کے اندر 12 ناٹیکل میل کے اندر انٹرنل اور ٹیریٹوریل پانی بھی شامل ہے۔ یہ عمل آئین اور قانون کے حوالے سے مکمل طور پر غلط ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس میں ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 89 آرڈیننس جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اُس صورت میں جب قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس نہ ہوتے ہوں، یا پھر کوئی صورتِ حال ایسی ہو کہ فوری ایکشن لینا انتہائی ضروری ہوچکا ہو۔ کوئی بھی شخص یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ کون سی ہنگامی صورتِ حال تھی کہ وفاقی حکومت یہ عمل کرنے کے لیے قومی اسمبلی یا سینیٹ کا اجلاس بلاکر اس میں قانون سازی کرنے کا انتظار نہیں کرسکی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو اس امر کا بخوبی علم تھا کہ وہ اس نوع کا کوئی بھی قانون پاس نہیں کرا سکے گی جس کے توسط سے سمندری جزائر اپنے زیر قبضہ لائے جاسکیں، یا سندھ کی صوبائی حدود میں کوئی تبدیلی کی جاسکے۔ اس کے لیے نہ صرف دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اکثریت کی حمایت کا حصول ناگزیر تھا۔ اس لیے وفاقی حکومت نے ایک آسان مگر بے حد غیر آئینی اور غیر قانونی راستے کا انتخاب کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کرڈالا، جس سے نہ صرف بھنڈار اور ڈنگی جزائر بلکہ سندھ اور بلوچستان کی ساری سمندری پٹی لے لی گئی۔
کوئی شخص یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ جب وفاقی حکومت کویہ خبر تھی کہ آرڈیننس اسے سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حدود میں تبدیلی اور سمندری جزائر حاصل کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔،پھر انہوں نے اس طرح سے آخر کیوں کیا؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود سندھ حکومت اس معاملے میں وفاق کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی کہ اس کی جانب سے خفیہ طور پر ایک لیٹر جاری کیا گیا جس میں انہوں نے اپنی مکمل رضامندی کے ساتھ سمندری جزائر وفاق کے سپرد کردیے تاکہ ’’ادارے‘‘ اور بلڈرز خوش ہوسکیں جن میں خود پیپلز پارٹی کے کاروباری پارٹنرز بھی شامل ہیں۔ ہمیں اس بات پر ہرگز کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ گزشتہ ایک عشرے سے یہ حکومتِ سندھ کی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ سندھ کی قیمتی زمین وفاقی حکومت کے مختلف اداروں اور بلڈرز مافیا کو دے کر پیسے کمائے جائیں۔ اس لیے یہ دو سمندری جزائر دینا بھی حکومتِ سندھ کی اس پالیسی کا تسلسل ہے، لیکن یہ سب کچھ اُن افراد کی زندگی کی قیمت پر ہورہا ہے جو یہاں کے اصل باشندے ہیں، جو صدیوں سے ان جزائر پر رہتے چلے آئے ہیں، تو یہ باشندے اس پالیسی کی وجہ سے محض اس لیے بے دخل کیے جارہے ہیں تاکہ بلڈر مافیا کے ذریعے سے پیسے کمائے جاسکیں اور ساتھ ہی وفاقی قوتوں کو بھی خوش کیا جاسکے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری منتخب حکومت ہمارے وسائل اور زمین فروخت کرنے میں ساجھے دار ہے۔ یہاں پر یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جی ڈی اے اور پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے نام نہاد حزبِ مخالف کے ارکان بھی اس موقع پر کامل سکوت اپنائے ہوئے ہیں، کیوں کہ جی ڈی اے کی قیادت نے بھی پی پی پی کی قیادت سے فائدے حاصل کیے ہیں، لہٰذا وہ بھی اس سے مطمئن اور خوش ہیں۔ پی ٹی آئی کو سندھ کے مستقبل سے نہ تو پیار ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی تشویش۔ اُس کے مفادات محض سندھ کے دارالحکومت کراچی سے وابستہ ہیں۔ اس غیر قانونی آرڈیننس کو جاری کرنے کے پسِ پردہ دوسرا سبب یہ تھا کہ آرڈیننس کی میعاد 4 ماہ ہے، اور وہ اس چار ماہ کے دوران اپنی پالیسی کے تحت وہاں پر ہر شے مسمار کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے پہلے ایک ماہ تو مکمل طور پر اس آرڈیننس کو خفیہ رکھ کر ’’پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘‘ قائم کرکے جزیرے اس اتھارٹی کے حوالے کرکے ایک وقتی چیئرمین کو مقرر کیا گیا۔
حکومتِ سندھ روزِ اوّل سے ہی اس صورتِ حال سے آگاہ تھی، لیکن اس نے دیدہ دانستہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا، اور ’’پیڈا‘‘ کو اجازت دے دی کہ وہ ان جزائر کا قبضہ لے کر مقامی افراد کو وہاں سے بے دخل کردے۔ سندھ حکومت نے روایتی طور پر اُس وقت ردعمل دکھایا جب وفاقی آرڈیننس کے خلاف بڑے پیمانے پر عوام نے باہر نکل کر صدائے احتجاج بلند کی۔ اس کے باوجود سندھ حکومت نے جزائر پر وفاقی قبضے کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا، بس محض غیر قانونی طور پر جزائر وفاق کو دینے کے لیے خفیہ طور پر جاری کردہ لیٹر کو واپس لے لیا گیا ہے۔ نہ وہاں پر عملی طور پر جاری کام کو رکوایا گیا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں آرڈیننس کے خلاف کوئی بڑا تحرک برپا کیا گیا ہے، نہ ہی سندھ اسمبلی سے اس آرڈیننس کے خلاف کوئی قرارداد منظور کروائی گئی ہے۔ نہ ہی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس بارے میں قرارداد پیش کی گئی ہے، لیکن اس معاملے پر جو پھرتی اور چابک دستی حکومتِ سندھ کو دکھانی چاہیے تھی وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دی ہے۔ صوبائی حکومت نے یہ قرارداد سینیٹ سے تو پاس کروا لی جہاں پر حزبِ اختلاف کی اکثریت ہے۔ آئین کے آرٹیکل 89 (2) میں صراحت کی گئی ہے کہ سینیٹ یا قومی اسمبلی میں کوئی بھی آرڈیننس اس کی مقرر کردہ 120 ایام کی میعاد سے پیشتر بھی ختم کروایا جاسکتا ہے۔ اہلِ سندھ منتظر ہیں کیوں کہ جزائر چھن چکے ہیں اور بعض رپورٹیں ایسی بھی ہیں کہ جزائر اور ان کے آس پاس تعمیراتی کام شروع بھی ہوچکا ہے۔
اس وقت اہلِ سندھ میں بہت زیادہ شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں۔ لوگ اس پارٹی کی خراب کارکردگی کے باوجود اسے ووٹ دیتے رہے ہیں، لیکن اب انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ حکومتِ سندھ کے وفاقی سرکار کے ساتھ اس گٹھ جوڑ کے خلاف وہ مزاحمت کریں گے۔ سارا سندھ اس وجہ سے سراپا احتجاج بنا ہوا ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت سمندری جزائر چلے گئے تو پھر کل کلاں کو سندھ کی دیگر زمین بھی ترقی کے نام پر دوسروں کے قبضے میں آجائے گی۔ سندھ کے لوگوں کو پریشانی ہے کہ سندھ کی وحدت کو آئین کے آرٹیکل 239(4) کے تحت جو تحفظ حاصل ہے تو وہ بھی اس آرڈیننس کے باعث ایک طرح سے بے معنی بن کر رہ گیا ہے۔ درحقیقت تمام تر آئینی تقاضے تہس نہس کردیے گئے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ صوبے کی زمین کو بھرپور تحفظ حاصل ہے اور اگر وفاق آئین کے آرٹیکل 152 کے تحت زمین لینے کی سعی بھی کرے تو اس کے لیے سخت ترین شرائط ہیں۔ اگر صوبے کے اندر وفاق کسی مقصد کے تحت زمین لے سکتا ہے تو یہ قانون پاس کرنے سے ہی ممکن ہے۔ بہ الفاظِ دیگر وہ ان مقاصد کے لیے لے سکتا ہے جو آئین کے شیڈول نمبر 4 میں شامل ہیں، اور شیڈول نمبر 4 میں عمارتیں اور تعمیر شامل نہیں ہیں اور یہ خالصتاً صوبائی اختیار ہے۔ دوسرا یہ کہ وفاقی حکومت کسی بھی صوبے میں اسی وقت زمین لے سکتی ہے جب کوئی ضرورت یا مجبوری ہو۔ سمندری جزیرے لینے کی بھلا کیا مجبوری ہے؟ سوائے اس کے کہ انہیں استعمال کرتے ہوئے بلڈر رقم کمائیں گے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی توازن تباہ ہوگا اور آبی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس سے کراچی، ٹھٹہ اور سمندری پٹی پر قائم سندھ کے کئی شہر ہمیشہ کے لیے سمندری طوفانوں کے خطرے کے زیر اثر آجائیں گے۔ آئین میں تیسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 152 کے تحت وفاقی حکومت زمین کی قیمت ادا کرے گی اگر وہ زمین نجی یا ذاتی ہے، لیکن اگر سرکاری ہے تو پھر وفاقی اور صوبائی سرکار کے مابین باضابطہ طور پر ایک معاہدہ ہوگا، جس میں شرائط اور ضوابط شامل ہوں گے۔ اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی تو صوبے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ پاکستان کے چیف جسٹس سے شکایت کرے تاکہ وہ فیصلہ کرنے کے لیے ثالث مقرر کرے۔ ان شرائط سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئین کے اندر صوبائی زمین کی حیثیت نہایت مقدس ہے، جس سے انکار یا انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ وفاقی حکومت خود آئین سے انحراف کررہی ہے، جس کی وجہ سے اصل باشندے دربدر ہورہے ہیں، اور جو ناانصافی اور تباہ حالی کا شکار بھی اس وجہ سے ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اہلِ سندھ کے دلوں میں نفرت جنم لے رہی ہے۔ یہ آرڈیننس نہ صرف سمندری جزائر پر غیر آئینی قبضے کی اجازت دیتا ہے، بلکہ یہ سندھ، بلوچستان کے سارے انٹرنل اور ٹیریٹوریل پانی پر بھی کنٹرول، رابطہ اور ملکیت لاگو کرتا ہے۔ اب عملاً سندھ کے پاس کوئی بھی سمندری پٹی نہیں ہے۔ سندھ پولیس، انتظامیہ اور کورٹس سمندری پٹی اور جزائر پر سے اپنے اختیارات کھوچکے ہیں۔ اب ’’پیڈا‘‘ کے پاس ان کی ملکیت، انتظام اور کنٹرول ہے۔ کسی بھی وفاقی جمہوریت کے حامل ملک کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ وفاقی حکومت نے کسی آرڈیننس کے ذریعے سمندری پٹی اور قیمتی زمین کو اپنی ملکیت قرار دے ڈالا ہو۔ یہاں تک کہ اخلاقی طور پر آئینی ترمیم سے بھی وفاق کو یہ اجازت نہیں ملتی کہ وہ صوبائی زمین، سمندر یا دیگر وسائل کو اپنے قبضے میں لے سکے۔ یہ معاملہ محض جزائر کا نہیں ہے بلکہ آرڈیننس کے ذریعے جزائر سے سندھ ہائی کورٹ کے اختیارات کو ختم کردیا گیا ہے، جیسا کہ آرڈیننس کے مطابق جزائر اور ٹیریٹوریل پانی اب وفاقی حکومت کی ملکیت ہیں، اس لیے ان پر سے سندھ ہائی کورٹ کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ جزائر پر رہائش پذیر افراد کے بنیادی حقوق کو کوئی بھی تحفظ حاصل نہیں ہے، جو تحفظ انہیں آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے توسط سے حاصل تھا، اس آرڈیننس کی وجہ سے آئینی بحران پیدا ہونے کے ساتھ سارے صوبے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، جس کا براہِ راست تصادم اور ٹکرائو وفاقی حکومت سے ہوگا۔
اس آرڈیننس نے پاکستان کی تشریح بھی تبدیل کردی ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر ایک سرحدوں کے بارے میں تفصیلی بیان کرتا ہے جس میں چاروں صوبے اور دارالحکومت اسلام آباد شامل ہیں۔ 25 ویں ترمیم کے ذریعے فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کے بعد عملی طور پر ملک کے اندر وفاقی انتظام کا حامل کوئی بھی علاقہ وجود نہیں رکھتا۔ لیکن اس آرڈیننس نے گویا کہ وفاقی انتظام کے تحت ایک نیا علاقہ قائم اور تشکیل کرڈالا ہے جس میں دو جزائر اور سندھ بلوچستان کی تمام سمندری پٹی بھی آجاتی ہے۔ لیکن اس کا آئین کے آرٹیکل نمبر ایک میں کسی نوع کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ آرڈیننس اٹھارویں ترمیم سے بھی انحراف ہے۔ آرٹیکل 172 (2) کے مطابق ساری زمین، معدنیات اور دیگر تمام چیزیں جو 12 ناٹیکل میل تک سمندر میں ہیں وہ سندھ کی ملکیت قرار دی گئی ہیں۔ جب وفاقی حکومت نے یہ دیکھا کہ وہ 18 ویں ترمیم کا خاتمہ نہیں کرسکتی تو اس نے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جو ایک مذاق ہے۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے سے آئینی ترمیم کا خاتمہ بھلا کس طرح سے ممکن ہے؟ اور اسے اس طرح سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں مَیں مولانا فضل الرحمٰن کی تعریف کروں گا جنہوں نے پی ڈی ایم کی جانب سے گوجرانوالہ میں منعقدہ جلسہ عام کے اندر تقریر کرتے ہوئے سندھ کے جزائر پر وفاقی حکومت کے قبضے کی مذمت کی۔ وہاں پر موجود کسی بھی دوسرے رہنما نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے وفاق کے اس غیر آئینی عمل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس معاملے پر بلاول کی خاموشی نے نہ صرف اہلِ سندھ کے دلوں کو دُکھ پہنچایا ہے بلکہ اس سے مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے کہ وہ شاید تاحال اہلِ سندھ کے ساتھ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیل رہے ہیں۔ ہمارے سمندری جزیرے اور سمندر حملے کا شکار ہیں۔ اگر اس وقت بیدار نہیں ہوئے تو پھر کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔‘‘