امریکی جریدے ”فارن پولیسی“ کی رپورٹ کے بعد پہلی بار کسی پاکستانی ذمہ دار شخصیت نےبھارت کی خفیہ اور اعلانیہ دہشت گردی کو پوری تفصیل اور شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے
امریکہ کے مشہور میگزین ’فارن پالیسی‘ کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد قومی سلامتی سے متعلق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر معید یوسف نے جس طرح برسوں کا تراشیدہ دہشت گردی کا بیانیہ بھارت پر اُلٹ ڈالا ہے وہ پاکستان کی یکسر ایک نئی بھارت پالیسی کا اظہار وانداز ہے۔ ’فارن پالیسی‘ میگزین کی رپورٹ کا لوہا گرم تھا کہ معید یوسف نے اس پر مضبوط مؤقف کی پیہم ضربات لگائیں۔ اس رپورٹ میں بھارت کو داعش کا نیا چہرہ قرار دے کر کئی ملکوں میں دہشت گرد نیٹ ورکس کی سرپرستی کا انکشاف کیا گیا تھا۔ مضمون میں کہا گیا تھا کہ بھارت دنیا میں مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی والا ملک ہے، اور وہاں مسلمانوں کو داعش میں بھرتی کرکے مختلف ملکوں میں لڑنے کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ شام کی لڑائی میں بھارت کے شہری شریک رہے ہیں، اور اگست میں افغانستان کی جلال آباد جیل پر داعش کے حملے نے بھی اس مؤقف کو تقویت دی کہ بھارت افغانستان میں بھی شدت پسندی کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ مضمون میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے ایک بھارتی ہندو سے بھی روابط رہے ہیں۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگر دنیا نے بھارت کی اس دہشت گردی کو نظرانداز کیا تو امنِ عالم کے لیے اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ پہلے بھارت صرف خطے میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھا، اب یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ ترکی، سری لنکا، افغانستان، سینٹ پیٹرز برگ روس سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ہونے والی جن دہشت گردانہ کارروائیوں میں داعش ملوث رہی ہے ان کے پیچھے بھارت ہی ہے۔
’فارن پالیسی‘ میگزین کی یہ رپورٹ بھارت کی امن پسندی اور رواداری کے نقاب اُتار رہی ہے۔ بھارت اس وقت جس قسم کی انتہا پسندی کا مرکز بن رہا ہے اُسے مزید تقویت دینے کے لیے ایک مخصوص مخالف کی ضرورت ہے تاکہ ہندو انتہا پسندوں کو اس خوف میں مبتلا رکھا جائے کہ اگر انہوں نے آر ایس ایس کا ساتھ نہ دیا تو مسلمان انتہا پسند انہیں کھا جائیںگے اور وہ اپنے وطن میں بے وطن ہوجائیں گے۔ اس خوف کا نام داعش رکھا گیا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف انتہاپسند ہندوئوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت سمیٹی جاتی ہے، وہیں اسلام کا نام بھی بدنام ہوتا ہے اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل بھی پختہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب داعش کسی مسلمان ملک میں کارروائی کرتی ہے تو خون بھی مسلمانوں کا بہتا ہے اور وہ مسلمان ملک انتشار کا شکار بھی ہوتا ہے۔ داعش کے نام پر مشرق وسطیٰ میں جو کھیل کھیلا گیا اب باقی مسلمان دنیا میں وہی عمل دہرایا جانا مقصود ہے۔
انکشاف انگیز مضمون کے سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر معید یوسف نے بھارتی اینکر کرن تھاپر کو ایک انٹرویو میں پاکستان اور خطے میں بھارت کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا بھرپور پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ پہلی بار کسی پاکستانی ذمہ دار شخصیت نے بھارت کی خفیہ اور اعلانیہ دہشت گردی کو پوری تفصیل اور شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ معید یوسف نے کہا کہ وہ خود ایک اقتصادی پس منظر کے حامل ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت میں مشیر قومی سلامتی ایک قطعی مختلف یعنی جاسوسی اور فوجی پس منظر کے حامل ہیں، یہ دو مائنڈ سیٹس کی عکاسی ہے۔ معید یوسف نے بھارت کی کارروائیوں کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کچھ شرائط کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش بھی کی۔ یہ تمام شرائط مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ آرمی پبلک اسکول، چینی قونصل خانے، اسٹاک ایکسچینج اور گوادر ہوٹل پر حملوں کا ذمہ دار بھارت ہے، اور دہشت گردوں اور اُن کے بھارتی ہینڈلرز کے درمیان روابط کے ثبوت بھارت کو دیے جاتے رہے ہیں۔ ’را‘ افسروں کی نگرانی میں افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کو ضم کیا گیا۔ معید یوسف نے کہا کہ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کو رہا، محاصرہ ختم اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے والے قوانین کو واپس لے، اور پاکستان میں دہشت گردی کو روکے تومذاکرات ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بھارت نے کسی ذریعے سے پاکستان کو بات چیت کی پیش کش کی ہے۔ یہ پیشکش کس چینل سے ہوئی اس کی وضاحت نہیں ہوئی۔ گمان غالب ہے کہ دونوں ملکوں کے کسی دوست ملک نے بات چیت کے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کی کوشش کی ہو۔ یہ امریکہ یا کوئی’’بھارت دوست‘‘ برادر اسلامی ملک بھی ہوسکتا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ایسی کسی پیشکش کی تردید کی۔
معید یوسف نے بھارت کے میڈیا میں جس طرح بھارت کا چہرہ دکھایا اس کی مثال ماضی میں بہت کم ملتی ہے۔ جنرل پرویزمشرف سے لاکھ اختلاف سہی، مگر وہ بھارتی میڈیا کا سامنا پورے اعتماد کے ساتھ کرتے تھے۔ بھارت کے معاملے میں پاکستان کی صاحبِ اقتدار اور بااثر شخصیات کو ہمیشہ احساس ِکمتری کا کورونا لاحق ہوتا رہا ہے۔ بھارت میں داخل ہوتے ہی انہیں تقسیم کی لکیر حقیر اور بے معنی لگتی ہے۔ بھارتیوں کی محفل میں شریک ہوتے ہی انہیں خدا اور بھگوان ایک ہی تصور اور تصویر کے دو نام نظر آتے ہیں۔ رب اور رام کا ایک ہی مفہوم سُجھائی دیتا ہے۔ بھارتی چینلوں پر بیٹھتے ہی انہیں امن اور محبت کے دورے پڑ جاتے ہیں۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک تھا مگر ہم کسی عالمی ایوان میں اُس کی دہشت گردی کا ذکر کرنے سے قاصر تھے۔ بھارت ہمیں دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک اور طالبان کا سرپرست اور دہشت گردوں کی ماں قرار دیتا پھرتا تھا، ہم جو دہشت گردی کا بدترین شکار تھے اپنے قاتل کا نام لینے کے مکلّف بھی نہیں تھے۔ ہمار ے اینکر اور دانشور طالبانائزیشن کا منترا پڑھ کر دنیا کو حالات کی سچی تصویر دکھانے سے گریزاں تھے۔ کشمیر میں انسانوں کا لہو پانی کی طرح بہہ رہا تھا مگر ہماری وزارتِ خارجہ کو کشمیر کو لو پروفائل پر رکھنے کی ہدایت تھی۔ بہت دیر کے بعد بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ڈوزئیر تیار کیا گیا، مگر پاکستان کے فیصلہ ساز اسے بغل میں دبائے بیٹھے رہے۔ بہت رد وکد کے ساتھ یہ ڈوزئیر بھارتی حکام کو دیا گیا۔ اس پورے عرصے میں پاکستان لب بستہ اور دل شکستہ انداز میں کٹہرے میں کھڑا تھا اور بھارت اس پر دہشت گردی کی یک طرفہ چارج شیٹ عائد کرتا جاتا تھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں کھڑا ہے۔ آگے بلیک لسٹ کا مقام ہے اور پیچھے اس دلدل سے نکلنے کا راستہ ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری تک پاکستان دہشت گردی کے یک طرفہ الزامات کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ اس دور میں پاکستانی حکام دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا اعتراف کرنے سے بھی قاصر تھے، یا انہیں بھارت کا نام لینے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک دور میں پاکستان کے مشیر داخلہ رحمان ملک بہت ملفوف انداز میں کبھی کبھار یہ کہنے پر اکتفا کرتے تھے کہ دہشت گردی میں تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ انہوں نے پہلے پہل تیسرے ہاتھ کی تعریف اور وضاحت سے گریز کیا، بعد میں شرماتے اور جھجکتے ہوئے وہ بھارت کا نام لینے لگے۔ یہ ثبوت ہاتھ آجانے کے بعد بھارت پہلی بار دفاعی پوزیشن اختیار کرتا چلا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اجیت دووال نے کلبھوشن کو خاموشی سے چھڑانے اور اس معاملے کو دبانے کے لیے ابتدائی دنوں میں ہر ممکن طریقہ اختیار کیا، مگر وہ پاکستانی اداروں کے شکنجے میں بری طرح جکڑا جا چکا تھا اور پاکستان نے کلبھوشن کی گرفتاری کی تشہیر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، جس کے بعد کلبھوشن کی رہائی کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس سے پہلے ممبئی حملوں اور اجمل قصاب کی جس طرح بھارت نے نمائش کی تھی اُس کا مقصد پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانا تھا۔
حکمران طبقات کا لہجہ اور دہن پوری ریاستی پالیسیوں اور رائے عامہ پر اثر چھوڑتا ہے۔ معید یوسف کی پُراعتمادی اور خوداعتمادی کے پیچھے بھی یہی حقیقت ہے۔ یہ اعتماد اگر دفتر خارجہ سے سفارت خانوں تک سرایت کرجائے تو دنیا میں کشمیر کے حوالے سے حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کو مذاکرات کے لیے جو شرائط پیش کی ہیں مودی کی طرف سے اُن کا مثبت جواب آنا قطعی ناممکن ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے جو چارج شیٹ تیار کی ہے اُسے ایف اے ٹی ایف میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ عالمی عدالتِ انصاف کے بعد بھارت کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت ایف اے ٹی ایف کے ریکارڈ پر بھی آجائیں۔ بقول فیض:۔
خوں پر گواہ دامنِ جلاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو