تینوں جماعتیں سکے کا ایک ہی رخ بن چکی ہیں
موسم تو جاڑے کا شروع ہونے کو ہے مگر دو سال کے طویل وقفے کے بعد ملک میں ایک بار پھر جلسوں اور جلوسوں کی بہار ہے، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ’ایکشن پلان‘ کے تحت تین مرحلوں میں حکومت مخالف تحریک کے ذریعے عمران خان کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔ ایکشن پلان کے تحت عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021ء میں ڈی چوک اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے، یہیں سے جمہوریت کے لیے خطرے کی علامت طلوع ہوگی۔ پی ڈی ایم نے پہلا جلسہ پنجاب کے اہم صنعتی شہر گوجرانوالہ میں کیا، اور اسے ایک کامیاب جلسہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جلسے میں جو کچھ نوازشریف نے کہا ٹائیگر فورس کی تقریب میں اس کی تصدیق اپنے محسنوں کا نادان دوست بن کر خود وزیراعظم نے بھی کردی۔ حکومت کے طرزعمل نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی کہ اس میں فیصلہ سازی اور سیاسی مخالفین کے الزامات کا جواب دینے کا قابلِ بھروسہ سافٹ ویئر ہی نہیں ہے۔ حکومت اس جلسے کے لیے اجازت کے معاملے میں آخر وقت تک مخمصے کا شکار رہی۔ پختہ سیاسی تجزیہ ہے کہ حکومت جس طرح غصے کا اظہار کررہی ہے، اس سے سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا۔ لگ رہا ہے کہ اپوزیشن کے ابتدائی دو جلسوں کے بعد ہی حکومت کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے کے اقدامات حکومتیں آخری وقت میں کرتی تھیں، تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی سے کرنا شروع کردیئے ہیں۔ یہ بھی تجویز ہے کہ سوشل میڈیا عارضی طور پر بند کردیا جائے۔ جمہوری معاشروں میں سیاسی اجتماعات رائے عامہ کی تشکیل کا ذریعہ ہوتے ہیں اور حزبِ اختلاف کو دنیا کے کسی مہذب جمہوری معاشرے میں رائے عامہ کی تشکیل سے روکا نہیں جاتا۔ حکومت نے اگر جلسہ کرنے کی اجازت دے دی تھی تو پھر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسے یہ اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کا حکومتوں سے نبرد آزما ہونے کا تجربہ بہت پرانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ جمہوریت ہیں اور اپوزیشن آمریت، مگر عمران خان خود کو اس دعوے پر قائم نہ رکھ سکے۔ گوجرانوالہ کی سڑکوں پر جو کچھ ہوا ہے اسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ اپوزیشن جماعتوں نے ایک اچھا جلسہ کیا۔ حکومت کو سیاسی کارکنوں کی نفسیات سے واقف ہونا چاہیے۔ دو سال سے سیاسی جماعتیں اور کارکن خاموش تھے، یا انہیں خاموش رہنے پر مجبور کیا گیا۔ ان دو سال میں نیب بھی انتقام سے آگے نہیں بڑھ سکا اور حکومت بھی روزگار پیدا نہیں کرسکی، جس کے خلاف معاشرے میں ایک ردعمل پیدا ہونا فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ حکومت کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی صف میں جاکھڑا ہوا ہے۔ اور بات یہیں تک محدود نہیں رہی، دیگر جماعتیں بھی اب رابطہ عوام مہم کا علَم اٹھائے سڑکوں پر آنے والی ہیں۔ جماعت اسلامی بھی یکم نومبر سے میدان میں اترے گی۔ سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں سینیٹر سراج الحق کا خطاب حکومت کی نالائقی پر کاری ضرب تھی، جس میں انہوں نے حقائق پر مبنی معقول سوالات اٹھائے اور ٹائیگر فورس ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اگر دو سال کے اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کے لیے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب اس پر واجب ہے۔ کسی بھی جمہوری نظام میں شریک سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر پہلے روز سے ہی اپنے منشور پر عمل شروع کرتی ہیں، اور اہداف مکمل کرتی ہیں۔ پاکستان کی صورت حال برعکس ہے، یہاں سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں کا آغاز طویل اور تفصیلی منشور کے ساتھ کرتی ہیں، مگر جب ان کا دور ختم ہوتا ہے تو محض چند میگا پروجیکٹ ہی مکمل ہوپاتے ہیں۔ ہم یہاں اقتدار میں رہنے والی جماعتوں سے متعلق بات کرتے ہیں۔ 1970ء کے بعد جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے بعد چند چہروں کی تبدیلی کے ساتھ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی2018ء تک اقتدار میں رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی جب پہلی مرتبہ حکومت میں آئی تو اس نے پالیسی دی کہ وہ 6 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کرے گی، مگر نہیں کرسکی۔ مسلم لیگ (ن) کی اپنے ہر دور میں ساری توجہ موٹر ویز اور میٹرو بس پر مرکوز رہی، اس نے اورنج ٹرین کے قیام اور بجلی کی کمی کو پورا کرنے پر بھی توجہ دی۔ 2018ء میں عمران خان انتخابی مہم چلا رہے تھے تو ان کا سارا زور اس بات پر تھا کہ قوموں کی ترقی سڑکوں کا جال بچھا کر نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار انسانی ترقی پر ہوتا ہے، لیکن ان کے ابتدائی 2 سال کے دور پر نظر ڈالی جائے تو ان کی ترجیحات میں180 درجے کے زاویے کے ساتھ تبدیلی آئی ہے، اور اب ان کا سارا زور میگا پروجیکٹس پر ہے، اسی لیے بڑے فخر سے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو لاہور میں لانچ کرنے کا اعلان کیا۔ یہی نہیں بلکہ کراچی کے ساحل سے دُور جزیروں پر ایک نئے شہر کی تعمیر کا بھی اعلان خود وزیراعظم نے ہی کیا، مگر منصوبوں کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ لاہور پروجیکٹ کا انحصار دریائے راوی کے ساتھ بنائی جانے والی جھیل پر ہے جس کے لیے پانی کی ضرورت ہے، لیکن سندھ طاس معاہدے کے بعد سے دریائے راوی خشک ہوچکا ہے، حکومت کے مطابق اس میں پانی کا ایک بڑا حصہ لاہور کے نکاسیِ آب سے پورا کیا جائے گا جس کا بہاؤ اس وقت براہِ راست دریا یا کھلے مقامات پر ہے۔ اس کام کو کرنے کے لیے شہر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کے ساتھ ساتھ ایسے راستے بنانے کی ضرورت ہے جہاں سے گزرتے ہوئے یہ پانی راوی جھیل تک پہنچ سکے۔ اس کے لیے لاہور کے بلدیاتی نظام کی صلاحیتوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے بلدیاتی ادارے ایک سال سے بند پڑے ہیں، نئے بلدیاتی انتخابات کی ابھی کوئی شکل واضح نہیں ہے۔ یوں یہ منصوبہ حکومت کے ناپختہ سیاسی ارادوں کی نذر ہوسکتا ہے۔ جب حالیہ بارشوں کے بعد کراچی تباہی کے دہانے پر پہنچا تو حکومت نے بلدیاتی نظام کو ٹھیک کرنے اور شہر کی انتظامیہ کو ایک چھتری تلے لانے کی کوشش کرنے کے بجائے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرکے یہ سمجھ لیا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی، چونکہ یہ ایک مشکل کام ہے، اس کے لیے پختہ سیاسی عزم چاہیے، اس لیے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس میں نصف رقم صوبہ دے گا۔ یہ رقم کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ کراچی کی موجودہ صورت حال میں اگر 1100 کے بجائے 2200 ارب روپے بھی لگادیے جائیں تو یہ اگلی موسمی تباہی سے اس شہر کو نہیں بچاسکتے۔ بدقسمتی سے کراچی کے مسائل حل کرنے کے بجائے حکومت اس سے بھاگنے کا راستہ تلاش کررہی ہے اور اس نے بس یہ اعلان کرنے پر اکتفا کیا کہ ایک ’نیا کراچی‘ بنایا جائے گا۔ ماضی کی طرح تعلیم، صحت، بلدیاتی نظام، پبلک ٹرانسپورٹ سروسز میں بہتری لانا مقصود نہیں ہے۔
اپنے منشور سے ہٹ کر عمران حکومت چند پروجیکٹس کی تکمیل کی خاطر خود کو ضائع کررہی ہے، اس کی کور ٹیم کا خیال ہے کہ اسے اپنی ساری توجہ تعلیم، صحت اور مقامی حکومتوں پر مرکوز کرنی چاہیے۔ عمران خان اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ یہ کرسکتے ہیں، انہیں سیاسی فائدے کے حصول کی خاطر بڑے بڑے میگا پروجیکٹس کے بجائے اس طرح کے کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں میں موجود سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنی تقریروں میں کرپشن کی کہانیوں کے بجائے تعلیم کی بہتری سے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ محض میڈیکل بورڈ اور انشورنس کے معاملات کو ٹھیک کرنے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز اور ڈسپنسریاں اپنی ترجیحات میں شامل کرنی ہوں گی۔ لیکن یہ شعبہ اس وقت مافیا کے ہاتھوں میں آچکا ہے، عمران خان کا سیاسی منشور کہیں پیچھے رہ گیا ہے، معلوم ہوتا ہے جیسے دوسال گزرے ہیں ویسے ہی آئندہ تین سال بھی گزر جائیں گے۔
حالیہ سیاسی حالات کا تجزیہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف حکومت میں ہے اور مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں، تاہم حکومت اور اپوزیشن جو ایک پیج پر معلوم ہوتی ہیں یہ تینوں جماعتیں سکے کا ایک ہی رخ بن چکی ہیں۔ سماجی ناانصافی اور لاقانونیت تینوں کے ادوار میں رہی، بلدیاتی اداروں کو نظرانداز کرکے ان کی حکومتوں نے آئین سے روگردانی کی۔ یہ بات سچ معلوم ہورہی ہے کہ پارلیمانی ریکارڈ کی حامل جماعتیں قومی سیاست کے ایک ہی رنگ ڈھنگ پر مکمل متفق اور غیراعلانیہ اتحاد کرچکی ہیں، عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ’’نورا کشتی‘‘ بھی بدترین جمہوریت کے تھیٹر پر مسلسل لڑی جاتی رہی۔ ماضی میں جس طرح مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کو حکومت کرنے کا پورا پورا موقع دیا، اب یہی کام تحریک انصاف کررہی ہے۔ 22سال سے تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف انتخابات سے پہلے کس طرح ’اسٹیٹس کو‘ کے رنگ میں رنگی گئی یہ تو کل کی بات ہے۔ یہ عمل اکتوبر 2011ء کے پی ٹی آئی کو تیزی سے مقبول پارٹی بنانے والے جلسے سے شروع ہوا تھا، جب پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے ہر سطح کے کتنے ہی ٹوٹے تارے تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے، لیکن اصل ریلا 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے الیکٹ ایبل کی شکل میں داخل ہوا۔ تحریک انصاف کی کابینہ میں اس وقت عمران خان کے سوا باقی سب ادھار کا مال ہے۔ پارٹی کے نظریاتی کارکن تیزی سے اطراف میں کردیے گئے اور الیکٹ ایبل سیاسی خاندانوں نے عمران خان کے گرد ایک ایسا حصار تیار کردیا کہ وہ وزیراعظم بن کر بھی اِس سے نکل نہیں پارہے۔ حکومت وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو عوامی فلاحی مقامات میں تبدیل کرنے کا پروگرام بھول چکی ہے، سادگی اور اخراجات میں کمی اب ایک خواب معلوم ہوتا ہے، ملک میںتھانہ کچہری کلچر ختم نہیں ہوسکا، اسلام آباد سمیت ہر شہر میں قبضہ مافیا ویسے کا ویسا ہی سرگرم ہے۔ ملک کا سیاسی نقشہ یہ بنا ہوا ہے کہ آج حکومت، حکومت ہے، نہ اپوزیشن، اپوزیشن۔ تحریک انصاف بھی اسی ’اسٹیٹس کو‘ کا مکمل حصہ بن چکی ہے۔ حکومت سارے مسائل کا حل کابینہ کے اجلاسوں میں تلاش کررہی ہے، یا پھر ٹائیگر فورس پر انحصار کرتی نظر آتی ہے، اور اپوزیشن بھی اپنے سیاسی مفادات کی اسیر ہے اور سارا زور احتساب سے بچنے کے لیے لگایا جا رہا ہے۔