اسلام آباد کے منظرنامے میں ایک اہم موڑ وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کی جانب سے بھارت کی ایک نیوز سائٹ وائر کو دیا جانے والا ایک انٹرویو بھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے ہمیں مذاکرات کی پیش کش ملی ہے، اور ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر مشروط۔ شرط یہ بتائی گئی کہ مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل کیا جائے، کشمیر میں فوجی محاصرہ ختم کیا جائے، تمام سیاسی قیدی رہا کیے جائیں اور ڈومیسائل کا نیا قانون واپس لیا جائے۔ اس انٹرویو کے اگلے روز ہی محبوبہ مفتی رہا ہوئیں۔ یقینی حد تک امکان ہے کہ بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں من پسند لیڈر شپ سے بات چیت کرے گی۔ اس انٹرویو میں بنیادی بات یہی ہے، دیگر گفتگو کی اہمیت سیاسی فلسفے سے زیادہ نہیں ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے کھل کر کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے اور چینی قونصل خانے، آرمی پبلک اسکول اور کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملوں میں بھارت کا ہاتھ ہونے اور اس کی جانب سے دہشت گروں کی مالی معاونت کرنے کے یقینی ثبوت و شواہد موجود ہیں، پڑوسی ملک میں موجود بھارتی سفارت خانہ بلوچ دہشت گردوں کو رقم فراہم کرنے کے لیے تھنک ٹینکس کو استعمال کررہا ہے، تاہم پاکستان کشمیر اور دہشت گردی دونوں معاملات پر بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہے اور کشمیر کے حوالے سے شرائط پوری کی جائیں۔ اس انٹرویو کی پسلی سے ایک سوال نے بھی جنم لیا کہ وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھارت سے پانچ اگست کا اقدام واپس لینے کا مطالبہ کیوں نہیںکیا؟ بھارت جو کچھ پاکستان کے خلاف کررہا ہے اس کی بنیاد پر حکومت نے ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا اقدام کیے ہیں؟ نوازشریف کے خلاف تو ایک سابق خاتون سفارت کار نے کہہ دیا کہ نوازشریف نے دفتر خارجہ کو بھارت کے خلاف بولنے سے منع کردیا تھا، جب یہ حکومت سابق ہوگی تو اس وقت کتنے سفارت کار سچ بولیں گے؟ بلاشبہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے، لیکن اب پانچ اگست کے اقدام ختم کیے بغیر مذاکرات میں جانے کا مقصد کیا ہے! لیاقت نہرو، بھٹو سورن سنگھ سے لے کر اب تک پاک بھارت مذاکرات کی ایک اپنی تاریخ ہے، مذاکرات کے ساتھ ساتھ بیک ڈور چینل بھی چلتا رہا،1997ء میں ایک طویل عرصے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات دوبارہ بحال ہوئے تو دہلی سے بھارتی سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر اسلام آباد آئے، پاکستان کی جانب سے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد مذاکرات میں شامل ہوئے۔ پنجاب ہائوس اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں کشمیر، سرکریک، دہشت گردی، پانی، تجارت سمیت آٹھ نکات پر بات چیت کرنے پر اتفاق ہوا تھا، اور آج تک یہی آٹھ نکات دھیرے دھیرے آگے بڑھائے جارہے ہیں، جو کچھ بھی ہورہا ہے انہی آٹھ نکات کی روح کے مطابق ہورہا ہے۔ پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی روح حکومت میں بھی داخل ہوچکی ہے۔ حقائق سامنے لائے جائیں کہ کیا 5اگست کا اقدام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے؟ اس وقت خطے میں اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل عرب تعلقات کے تناظر میں بہت کچھ بدل رہا ہے، مگر کہیں سے بھی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی آواز نہیں آرہی، مسلم دنیا سے یہی کیا جارہا ہے کہ انتہا پسندی ختم کی جائے۔ یہ عالمی سوچ عالم اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھارت معاشی مفادات کی وجہ سے مغرب کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے، وہ اسے اقوام متحدہ میں دیکھنا چاہتا ہے، اسی لیے کہا جارہا ہے کہ دہلی اسلام آباد کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کرے۔ اور کیا ہم ایک بار پھر محض ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجائیںگے؟۔ ہمارا بازو مروڑ کر کیوں مذاکرات کی جانب دھکیلا جارہا ہے! یہ اُس وقت ہوسکتا ہے جب ملک میں پارلیمنٹ میں یک جہتی ہو، اور ہر سیاسی جماعت قومی مفاد کے تابع رہے۔
(میاں منیر احمد۔اسلام آباد)