کراچی ریفرنڈم
عوام کی والہانہ شرکت
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم اپنی پوری آب وتاب کے ساری جاری ہے، اور ”حقوق کراچی تحریک‘‘ کے سلسلے میں شہر بھر میں جاری ’’کراچی ریفرنڈم“ میں عوام کی دلچسپی حیران کن ہے، اور لوگوں کی بڑی تعداد اس میں حصہ لے رہی ہے۔
”عوامی ریفرنڈم“ کا آغاز 16اکتوبر کو ہوا جو تاحال جاری ہے۔ شہر بھر میں جاری ”کراچی ریفرنڈم“ میں جاری کردہ بیلٹ کی تعداد 95 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ پہلے مرحلے میں70 لاکھ بیلٹ پیپر جاری کیے گئے تھے۔ موبائل ریفرنڈم کیمپوں سمیت 300 سے زائد کیمپوں پر ووٹنگ کا عمل 21 اکتوبر تک جاری رہے گا۔ آن لائن ووٹنگ بھی جاری ہے، توقع ہے کہ رائے دہندگان کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ 22 اکتوبر کو ادارہ نورحق میں قائم مرکزی ریفرنڈم کیمپ میں شہر بھر سے تمام بیلٹ باکس لائے جاچکے ہوں گے، اس کے بعد گنتی کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ جس کے بعد نتائج اور حقوق کراچی تحریک کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
عوامی ریفرنڈم کمیشن کے چیئرمین انور منصور خان (جسٹس (ر) و سابق اٹارٹی جنرل پاکستان)، کمشنر ریفرنڈم کمیشن ناظم ایف حاجی (سابق چیئرمین CPLC)،سیکریٹری ریفرنڈم کمیشن قمر عثمان (سابق صدر پاکستان بزنس فورم)، جاوید بلوانی (ممتاز صنعت کار)، نعیم قریشی (سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن)، منیر اے ملک (صدر کراچی بار ایسوسی ایشن)، ڈاکٹر سعد نیاز (سینئر رہنما PIMA)، سہیل افضل (سیکریٹری جنرل پی ایف یو جے)، امتیاز خان فاران (صدر کراچی پریس کلب)، انور شعور (ممتاز شاعر)، ڈاکٹر توصیف احمد خان (سینئر کالم نگار، سابق صدر شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ اردو)، جمال الدین (صدر گلوبل اوورسیز پاکستانیز)، مقصود یوسفی (سابق سیکریٹری پریس کلب) عوامی ریفرنڈم کمیشن کے ارکان ہیں۔ اس سے قبل ریفرنڈم کمیشن کے سیکریٹری قمر عثمان، کمشنر ناظم ایف حاجی، ارکان جاوید بلوانی، نعیم قریشی ایڈووکیٹ، ڈاکٹر توصیف احمد خان اور دیگر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ کراچی ریفرنڈم حکمرانوں پر بڑے دبائو کا باعث بنے گا اور کراچی کو اس کا حق دینا پڑے گا۔ عوام کی غیر معمولی شرکت اور پذیرائی پر اہلِ کراچی سے اظہارِ تشکر کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے میں کراچی کے گمبھیر مسائل کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے، قومی زبان اردو کے حوالے سے توہین آمیز خیالات کا اظہار کرنے، اور لسانیت کو ہوا دینے کی بھی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے اے پی سی کے 26نکاتی اعلامیے میں بھی کراچی کا ذکر تک نہیں کیا تھا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کراچی کے مسائل اور عوام کی حالت ِ زار اُن کے ایجنڈے اور ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ کراچی کو ماضی میں بھی نظرانداز کیا گیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے حکومت میں ہونے کے باوجود کراچی کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دو سال کے دور حکومت میں بھی کراچی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا گیا۔ بارش میں پورے شہر کراچی کو ڈوبے ہوئے اور اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی آمد اور پیکیج کے اعلان کو 2 ماہ ہوگئے ہیں، اس عرصے میں کراچی کے حوالے سے صورت حال میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کراچی کو کچھ دینے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ کراچی ریفرنڈم میں عوام جس بڑی تعداد میں شریک ہورہے ہیں اور اپنا حق مانگ رہے ہیں اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حقوق کراچی تحریک کا مطالبہ ہے کہ کراچی کو بااختیار شہری حکومت دی جائے، کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، نوجوانوں کو سرکاری ملازمت دی جائے، مردم شماری دوبارہ کرائی جائے، کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لے کر 15سال کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے، کراچی کو بین الاقوامی طرز کا ٹرانسپورٹ کا نظام، تعلیم، صحت، پانی، سیوریج، اسپورٹس اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا مربوط نظام فراہم کیا جائے۔
اس موقع پر سیکریٹری ریفرنڈم کمیشن قمر عثمان (سابق صدر پاکستان بزنس فورم) نے کہا کہ جماعت اسلامی ”حقوق کراچی تحریک“ اور ریفرنڈم کو جس طرح لے کر چل رہی ہے اس کی شدید ضرورت تھی، لازم ہے کہ کراچی کا مقدمہ بھرپور طریقے سے پیش کیا جائے۔ ریفرنڈم کے بعد عوام کا دبائو بڑھے گا اور حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، ورنہ عوام اپنا حق لینا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ناظم ایف حاجی نے کہا کہ کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 150ملکوں سے زیادہ آبادی والا شہر ہے مگر بدقسمتی سے اسے بااختیار شہری حکومت کا نظام نہیں مل سکا۔ کراچی منی پاکستان ہے اور اس کی کامیابی اور ترقی پورے ملک کی ترقی اور خوشحالی ہے، کراچی ریفرنڈم کے نکات کراچی کے تمام مسائل کا بھرپور احاطہ کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا یہ اقدام ہر شہری کے دل کی آواز ہے اور ایک موثر پلیٹ فارم بھی مہیا کرتا ہے۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ جماعت اسلامی کی یہ تحریک اور کوشش کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ہے۔ ان مطالبات کو مسلسل نمایاں کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ریفرنڈم سے عوام کے اندر شعور اور حکمرانوں پر دبائو پیدا ہوگا۔ بزنس کمیونٹی، تاجر اور صنعت کار ان ایشوز پر جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔ نعیم قریشی ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی ریفرنڈم میں وکلا برادری نے بھی بڑی تعداد میں حصہ لیا ہے، کراچی کے جائز اور آئینی و قانونی حقوق کے لیے جماعت اسلامی کی تحریک میں وکلا برادری پوری طرح شانہ بشانہ شریک ہے۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ ایک بڑا اور گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ 27 اگست کو بارش کے بعد پورا کراچی ڈوب گیا تھا۔ دو ماہ گزرگئے ہیں لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعلانات صرف زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کراچی ریفرنڈم کا انعقاد ایک مثبت عمل ہے، اس سے کراچی کے عوام کے اندر تحرّک پیدا ہوگا اور حکمرانوں کو مجبور کردیا جائے گا کہ کراچی کو اس کا حق دیں۔