حفیظ سینٹر لاہور میں خوفناک آتشزدگی

کثیر المنزلہ پلازہ میں حفاظتی انتظامات نہ ہونا آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟

صوبائی دارالحکومت لاہور کے پوش علاقہ گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر واقع کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون اور دیگر متعلقہ اشیاء کی خرید و فروخت اور مرمت کے سب سے بڑے مرکز حفیظ سینٹر میں اتوار کے روز خوفناک آتشزدگی سے اربوں روپے کا سامان تباہ و برباد ہو گیا اور یہاں کاروبار کرنے والے کروڑ پتی تاجر اپنی جمع پونجی سے محروم ہو گئے۔ یہ تاجر اپنی آنکھوں سے سامنے سب کچھ تباہ ہوتا دیکھتے رہے مگر اسے بچانے کے لیے رونے اور آنسو بہانے سے زیادہ کچھ نہ کر سکے تاہم مقام شکر ہے کہ بے پناہ مالی نقصان کے باوجود کوئی جانی نقصان اس آتشزدگی میں نہیں ہوا اور پلازہ میں موجود تمام افراد کو بخیر و خوبی زندہ سلامت باہر نکال لیا گیا…! آگ کا آغاز پلازہ کی دوسری منزل پر واقع ایک دکان میں شارٹ سرکٹ سے نماز فجر یا اس سے بھی قبل ہوا تاہم اس کی اطلاع کئی گھنٹے تاخیر سے امدادی اداروں کو ہو سکی صبح سوا چھ بجے تقریباً طلوع آفتاب کے وقت جب امدادی اداروں کے کارکنان جائے وقوعہ پر پہنچے تو آگ دوسری اور تیسری منزل کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب اٹھ رہے تھے، تھوڑی دیر میں آگ نے چوتھی منزل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ بجھانے کی کارروائیوں میں مختلف امدادی اداروں کی تیس سے زائد گاڑیاں اور ستر سے زائد کارکنان مصروف عمل رہے جب کہ پاک فوج اور رینجرز کے دستوں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ان تمام اداروں کی مسلسل گیارہ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد رات عشاء کے وقت تک آگ پر قابو پایا جا سکا۔تیسری اور چوتھی منزل تو آگ کی وجہ سے جل گئیں جب کہ نیچے والی منزلیں خصوصاً تہہ خانے کی دو منزلوں میں آگ بجھانے اور تپش کو ختم کرنے کے لیے بھاری مقدار میں استعمال ہونے والا پانی جمع ہونے سے وہاں پڑی الیکٹرانکس کی قیمتی اشیاء تباہی سے دو چار ہو گئیں…!
امدادی ٹیموں کے کارکنوں نے پلازہ کی چھت سے پچیس سے زائد افراد کو کرین کے ذریعے بحفاظت عمارت سے باہر نکال کر ان کی جانیں بچائیں جب کہ پاک فوج کے ایک جوان انتظار حسین نے ایک تاجر کی لاکھوں روپے کی نقدی نذر آتش ہونے سے بچالی وہ جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو ایک دکاندار اپنے ساتھیوں کے پائوں پکڑ کر رو رہا تھا کہ کوئی میرے ساتھ اندر چلے میری دکان میں لاکھوں روپے کی نقدی پڑی ہے مگر کوئی موت کے منہ میں قدم رکھنے پر تیار نہیں تھا اس مرحلہ پر انتظار حسین اس دکاندار کے ساتھ اندر جانے پر تیار ہو گیا انہوں نے زور آزمائی کے ذریعے دکان کا جام شٹر کھولنے میں کامیابی حاصل کر لی اور دکاندار نے شیشہ توڑ کر اپنی ساری نقدی نکالی اور انتظار حسین کے ہمراہ جلتے ہوئے پلازہ سے یہ بھاری رقم بحفاظت باہر لانے میں کامیاب رہا۔ پاک فون کے اس جوان نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو برائے کار لاتے ہوئے عمارت میں پھنسے بہت سے افراد کو بحفاظت باہر نکالا اس کی جرات، بہادری اور فرض شناسی کا اعتراف کرتے ہوئے ایوان صنت و تجارت لاہور کے صدر طارق مصباح اور دیگر عہدیداروں نے اعزازی سند، شیلڈ اور پچاس ہزار روپے کا چیک پیش کیا…!
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے حسب معمول اس سانحہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے اور تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اس حکم کی روشنی میں کمشنر لاہور نے ڈپٹی کمشنر مدثر ریاض ملک کی سربراہ میں 14 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو سات روز میں تفصیلی رپورٹ کمشنر کو پیش کرے گی۔ سانحہ کوئی بھی ہو اس کی تحقیقات ضرور ہونا چاہیں، اس لیے اربوں روپے کے مالی نقصان اور سینکڑوں افراد کو روز گار کے ذرائع سے محروم کر دینے والی اس آتشزدگی کے حقائق سے متعلق تہہ تک پہنچنا بھی یقینا ضروری ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے؟ لاہور میں ماضی قریب میں ایل ڈی اے پلازہ اور مرکزی ٹیلی فون ایکسچینج کی عمارت سمیت آتشزدگی کے متعدد واقعات اس سے قبل بھی رونما ہو چکے ہیں، ان واقعات کے بعد بھی حکمرانوں اور حکام کی طرف سے اسی طرح کی تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جنہوں نے اپنی رپورٹ بھی مرتب کر کے متعلقہ حکام تک پہنچائی مگر ان رپورٹوں کی روشنی میں آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کیا کوئی موثر لائحہ عمل ترتیب دیا گیا؟ اگر ان رپورٹوں کو وقت گزر جانے کے بعد الماریوں کی زینت ہی بننا ہے تو ان پر وقت اور سرمایہ ضائع کرنے سے کیا حاصل ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت بھی لاہور سمیت کم و بیش تمام شہروں میں ایسے پلازے اور عمارتیں موجود ہیں جن میں آگ سے بچائو اور دیگر حفاظتی انتظامات موجود نہیں خود حفیظ سینٹر جیسے کثیر المنزلہ پلازہ میں حفاظتی انتظامات نہ ہونا آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ ڈائریکٹر سول ڈیفنس پنجاب نے آتشزدگی کے بعد انکشاف کیا ہے کہ دو ماہ قبل لاہور کے شہری دفاع کے عملہ نے حفیظ سینٹر کے معائنہ کے بعد انتظامیہ کو نوٹس بھی جاری کیا تھا کہ آگ سے بچائو کے اقدامات کئے جائیں مگر شہری دفاع اور دوسری حکومتی اداروں کا بس یہ یہ فرض ہے کہ وہ نوٹس جاری کر کے مطمئن ہو جائیں؟ حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات آخر کیوں نہیں کئے جاتے؟ اگر نوٹس کے بعد بروقت کارروائی کر لی جاتی تو کیا اربوں روپے کے اس نقصان سے بچا نہیں جا سکتا تھا؟
حفیظ سینٹر میں آتشزدگی کے واقعہ کے دوران یہ بات بھی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ آگ بجھانے اور امدادی سرگرمیوں کے نصف درجن کے قریب ادارے اس وقت شہر میں حکومت کی نگرانی میں مصروف کار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ان سب اداروں کا کام ایک ہے تو ان سب کو ایک کمان میں دے کر ان کی کارکردگی کو بہتر اور موثر بنانے اور قومی وسائل کے ضیاع کو روکنے میں کیا امر مانع ہے؟
اس مرحلہ پر یہ توقع بھی بے جا نہ ہو گی کہ ہمارا تاجر طبقہ میں اس سانحہ سے سبق سیکھنے کا اور دو نمبر مال کی فروخت، ناجائز منافع خوری اور دھوکہ دیہی کی روش پر نظر ثانی کرے گا کہ حفیظ پلازہ ان تمام غلط کاریوں کے لیے بھی معروف تھا…!!!۔