المیۂ فلسطین ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں
(دسواں حصہ)
قومی نفع نقصان
اس کے علاوہ عرب ملکوں میں اس وقت ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہندوستانی بہت ہی منافع بخش تجارت اور بہت ہی اچھی قسم کی نوکریوں پر مامور ہیں، اکیلے عراق ہی میں 35 ہزار سے زیادہ ہندوستانی خاندان بڑے ہی منافع بخش کاموں میں مصروف ہیں، کویت میں 30 ہزار ہندوستانی، عدن میں 25 ہزار، بحرین میں 10 ہزار اور سعودی عرب میں 20 ہزار ہندوستانی شہری موجود ہیں۔ الجیریا، سوڈان، عراق، کویت اور لیبیا وغیرہ میں ہندوستانی استادوں، انجینئروں، پروفیسروں، ڈاکٹروں اور دوسرے ٹیکنیکل ماہروں کی مانگ دن بدن بڑھ رہی ہے، دنیا بھر میں یہی علاقے ایسے ہیں جہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہندوستانیوں کے لیے نوکری کے مواقع مہیا کیے جارہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ ہندوستان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ ایسی دوستی کی ایک مثال کویت سرکار کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہندوستان میں ایک کروڑ پونڈ کا سرمایہ مختلف صنعتوں میں لگائے گی، چند برسوں میں یہ سرمایہ ایک ارب پونڈ یعنی 21ارب روپے کے قریب جاپہنچے گا۔ اس کے علاوہ کویت ہی نے ہندوستان کے ریزرو بینک میں 20 کروڑ پونڈ کی پونجی لگا رکھی ہے۔ عراق، کویت اور لیبیا وغیرہ کے ساتھ ہندوستان تیل نکالنے وغیرہ سے متعلق کئی مشترکہ اسکیموں پر کام بھی کررہا ہے، ان سے ہمارے ملک کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہوگا۔
اسرائیلی حملے کے بعد کئی عرب ملکوں نے برطانیہ، امریکہ اور مغربی جرمنی کا اقتصادی بائیکاٹ کررکھا ہے، ان پچھمی دیشوں سے تجارت اور آرتھک ناتے ٹوٹنے کی وجہ سے عرب ملکوں میں ہندوستانی سامان کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے اور ہندوستانیوں کے لیے وہاں روزگار وغیرہ کے بھی بہت اچھے مواقع نکل آئے ہیں۔ حال ہی میں ہند سرکار نے عرب ملکوں کا دورہ کرنے کے لیے سرکردہ بیوپاریوں اور آرتھک ماہروں کے تین وفد بھیجے تھے، ان وفود کی رپورٹ ہے کہ جنگ کے بعد بھارت کے عرب دوست رویّے اور عربوں کے مغربی ملکوں سے تعلقات بگڑنے کے کارن وہاں پر بھارتی مال کی مانگ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل سے ہمیں کیا مل سکتا ہے؟ آیئے اسے بھی سمجھنے اور جانچنے کی کوشش کریں۔
اسرائیلی سراب
اسرائیل کو ہم نے پچھلے سال صرف ساڑھے بارہ لاکھ روپے کا مال بیچا اور ساڑھے دس لاکھ کا منگوایا۔ مطلب یہ ہے کہ مشکل سے دو لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔ اسرائیل اور اس کے وکیل چاہے جتنا سر مارلیں، اس سے زیادہ فائدہ ہو بھی نہیں سکتا۔ اسرائیل کی آبادی صرف 26 لاکھ کے قریب ہے، ان میں سے بیس لاکھ سے زیادہ وہ یہودی ہیں جو کچھ ہی دیر پہلے یورپ اور امریکہ سے وہاں آئے تھے، ان لوگوں کے امریکہ اور یورپ سے اتنے گہرے تعلقات ہیں کہ انہیں جو چیز بھی منگوانا ہوتی ہے امریکہ اور یورپ ہی سے منگواتے ہیں جہاں سے وہ انہیں تقریباً مفت ہی مل جاتی ہے۔ ہندوستان سے تجارت کرکے نہ وہ ہم سے کچھ خرید سکتے ہیں اور نہ ہمیں کچھ بیچ سکتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل خود ان ہی چھوٹی صنعتوں کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے جن پر ہم زور دے رہے ہیں۔ افریقہ کے کئی ملکوں اور برما اور نیپال وغیرہ میں تو اسرائیل ہلکے مشینی سامان اور مصنوعات کے معاملے میں ہندوستان کا بہت بڑا رقیب بن چکا ہے، چونکہ اسے ہر سال مغربی ملکوں سے تقریباً 30 ارب روپے مالی اور فوجی امداد اور چندوں اور قرضوں کی صورت میں وصول ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے سامان کو ہمارے مقابلے میں خاصی کم قیمت پر بیچ کر ہماری منڈیاں خراب کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل خوراک کے معاملے میں مستقل طور پر امریکہ کا بھکاری ہے، وہاں پر جتنا اناج استعمال ہوتا ہے اس کا تقریباً آدھا حصہ باہر سے آتا ہے۔ یاد رہے کہ ہندوستان اپنی ضرورت کے دسویں حصے سے زیادہ اناج باہر سے نہیں منگواتا۔ سارے ایشیائی افریقی علاقے میں کسی اور ملک کا مغربی امداد پر اتنا زیادہ دارومدار نہیں ہے جتنا کہ اسرائیل کا ہے، مگر اس کے باوجود اسرائیل کا بجٹ ہمیشہ گھاٹے کا بجٹ ہی رہتا ہے۔ امریکہ کے مشہور رسالے ’نیوز ویک‘ نے اپنی 16 جنوری 1967ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ ’’فی کس اور مجموعی اعتبار سے جتنی امداد اسرائیل کو ملی ہے دنیا کے کسی اور ملک کو نہیں ملی، مگر اس کے باوجود اسرائیل کے بجٹ کا گھاٹا کم ہونے میں نہیں آتا‘‘۔ اسی اخبار نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ’’1957ء سے لے کر 1965-66ء تک اسرائیل جو مال باہر بھیجتا تھا اور جو باہر سے منگواتا تھا اس میں پچاس کروڑ ڈالر ہی کا گھاٹا ہوا کرتا تھا، مگر 1966-67ء میں یہی گھاٹا 66 کروڑ ڈالر سے اوپر چلا جائے گا‘‘۔ ظاہر ہے حالیہ جنگ کے بعد اسرائیل کا یہ گھاٹا اور بھی بڑھ جائے گا۔
اقتصادی مقابلہ
عرب ملک تو دو لاکھ ہندوستانیوں کو تجارت اور اچھی نوکریوں کے مواقع مہیا کررہے ہیں، لیکن اسرائیل میں مغربی ملکوں سے آنے والے پڑھے لکھے لوگوں اور ٹیکنیکل کارکنوں کی پہلے ہی اتنی بھرمار ہے کہ حالیہ جنگ سے پہلے تک وہاں پر دس پڑھے لکھے آدمیوں میں سے دو بے کار تھے، ایسے ملک میں کسی بھی ہندوستانی کے لیے نہ تجارت کا موقع ہے اور نہ نوکری کا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی غیر یہودی ہندوستانی کو وہاں پر نوکری یا تجارت کرتے نہیں دیکھا گیا، بلکہ جو چند ہزار ہندوستانی یہودی اسرائیلی پروپیگنڈے میں آکر وہاں چلے گئے تھے اب لگاتار کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح واپس ہندوستان آجائیں۔ ایسا ملک کبھی ہندوستان کی کوئی قابلِ ذکر مدد کر ہی نہیں سکتا، وہ جو کچھ بھی کسی کو دیتا ہے اپنے اَن داتا امریکہ ہی سے لے کر دیتا ہے، شریمتی گاندھی نے کچھ دیر پہلے اسرائیلی وکیلوں کو جواب دیتے ہوئے ایک بڑی ہی دلچسپ بات کہی تھی کہ ہندوستان کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو وہ براہِ راست امریکہ ہی سے اسے حاصل کرلے گا، اسرائیل کی معرفت نہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ امداد کے بارے میں اخباری ہوائیاں چھوڑنے کے سوا اسرائیلی حکمرانوں نے ہندوستان کو کبھی کوئی پیشکش کی ہی نہیں، اسرائیل کے ڈھنڈورچی اس کے باوجود ہندوستان کے بارے میں اسرائیل کی فرضی فراخدلی کے متعلق زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی یہ ہوائیاں کس قدر بے بنیاد ہیں اس کا ثبوت ہمیں پچھلے ہی سال مل گیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال اسرائیلی حمایتیوں نے خوب ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ اسرائیل خوراک کے معاملے میں ہندوستان کی مدد کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو ملک خود دانے دانے کا محتاج ہو وہ کسی کو کیا دے گا! مگر سرکاری طور پر بھی اس بے پر کی ہوائی کی قلعی اُس وقت کھل گئی جب 10 مئی 1966ء کو اُس وقت کے وزیر خارجہ شری سبرامنیم نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی تھی، تھوڑی سی مصنوعی کھاد اسرائیل نے پیش ضرور کی تھی مگر ہند سرکار نے زیادہ بڑی مصلحتوں کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا۔ عین یہی حال ایک حالیہ گپ کا ہوا ہے کہ اسرائیل نے ہندوستان کو 50کروڑ ڈالر کی امداد شری ایس کے پاٹل کی معرفت پیش کی تھی۔ خود ہی شری پاٹل نے یہ اعلان کردیا ہے کہ ایسی امداد کبھی پیش نہیں کی گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ مغربی ممالک کا پالتو پِلاّ اسرائیل جو ہندوستانی سپوتوں کو بے رحمی سے قتل کرنے سے گریز نہیںکرتا، جہاں موقع ملتا ہے ہماری منڈیاں خراب کرنا چاہتا ہے اور مغربی اشاروں پر افریشیائی آزادی کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے اُس سے ہندوستان جیسے آزادی پسند ملک کو کسی قسم کی مدد کی توقع ہی نہیں کرنی چاہیے۔
سیاسی نفع نقصان
اوپر کے جائزے سے ثابت ہوچکا ہے کہ ہندوستان کو عربوں سے جہاں کروڑوں بلکہ اربوں کا ہر سال مالی فائدہ ہوتا ہے وہاں اسرائیل سے اسے وعدوں کے سبز باغ اور جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔
اب آیئے اسی مسئلے کے سیاسی پہلو کی طرف۔ اسرائیل کے ڈھنڈورچی عربوں کے بارے میں اکثر اوٹ پٹانگ باتیں کہتے رہتے ہیں، سب سے اہم یہ کہ عرب ملک ایک ہندو دشمن بلاک بنانا چاہتے ہیں۔ اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتوں سے اسرائیل کے وکیل ہندوستان کی بھولی بھالی جنتا کو فرقہ پرستی کی راہ پر لگاکر اپنے اسرائیلی سرپرستوں اور اپنے امریکی آقائوں کی سامراجی سیاست کا اُلّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب ملک اسی طرح قوم پرستی میں یقین رکھتے ہیں جس طرح کہ ہم ہندوستانی قوم پرستی میں۔ متحدہ عرب جمہوریہ، شام، عراق اور الجیریا وغیرہ تو خاص طور پر مذہبی تنگ نظری کے زبردست مخالف ہیں، اس کا ایک تازہ ثبوت یہ ہے کہ سب ہی عرب ملکوں کے رہنما جن میں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور اردن کے شاہ حسین بھی شامل ہیں، ہندوستان کا بار بار شکریہ ادا کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر ہند مخالف پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جہاں تک کشمیر کا سوال ہے اگر دو تین عرب ملک پاکستان کے حامی ہیں تو متحدہ عرب جمہوریہ ہندوستان کا حامی ہے۔ مجموعی طور پر عرب ملکوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے میں کسی بھی فریق کی حمایت نہیں کرتے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ جھگڑا دو ملکوں کے درمیان پُرامن طریقے سے کسی باہر والے کی مدد کے بغیر طے ہوجائے۔ یاد رہے کہ ہند سرکار بھی چاہتی ہے کہ یہ مسئلہ باہر والوں کے دخل دیئے بغیر پُرامن طریقے سے طے ہوجائے۔
عرب ملکوں میں ہند دشمن پروپیگنڈے کے لیے جو چیز سب سے مفید ثابت ہوئی ہے وہ ہندوستان میں اسرائیل کے حامیوں کی تحریریں اور تقریریں ہیں۔ یہ تحریریں چھاپ چھاپ کر ہمارے مخالف ملک یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان عربوں کا بہت بڑا دشمن ہے۔ یاد رہے کہ مغربی ایشیا میں پاکستان بھی اپنا کروڑوں روپے کا مال اور تقریباً ویسا ہی سامان بیچ رہا ہے جیسا کہ ہم بیچ رہے ہیں لیکن عربوں کے بھارت نواز رویّے کی وجہ سے اسے ابھی تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جغرافیائی طور پر ایک چھوٹا سا اسرائیل اپنی حالیہ جنگی کارروائی کے باوجود ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن یورپ کے آخری کونے سے لے کر بحرین تک پھیلے ہوئے عرب ملک ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتے ہیں، ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ نہر سویز اور عرب کی خلیج کے علاقے جن میں عدن جیسی بندرگاہیں بھی شامل ہیں، دوست ہاتھوں میں رہیں۔ اسرائیل کے حمایتیوں کی بات مان کر ہم اپنے دشمنوں کی یہ چال ہی کامیاب کریں گے کہ اس سارے علاقے سے ہندوستان کا پتّا کٹ جائے۔
یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کچھ ہی دیر بعد عدن، بحرین، قنطار اور مسقط، عمان اور جنوبی عرب کے کئی علاقے برطانوی چنگل سے آزاد ہونے والے ہیں، ان علاقوں میں عرب دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح عرب قوم پرستی بھی بے حد مضبوط ہے اور اسرائیل کے خلاف جذبہ بھی۔ فوجی، مالی اور سیاسی اعتبار سے ہمارے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ یہ سب ہی علاقے ہندوستان کے دوست رہیں۔ عربوں کے خلاف اسرائیل نواز پالیسی اپنا کر نہ صرف ہم اپنے آرتھک فائدے کو سراسر نقصان میں بدل ڈالیں گے بلکہ ایک بہت بڑے علاقے کو مخوامخواہ اپنا دشمن بنا لیں گے۔ اسرائیل کے حامیوں میں ایک بڑی تعداد سامراجیوں کے اُن پٹھوئوں کی ہے جو اپنے آقائوں کے مفاد کے سامنے ملک کے بدترین نقصان کی پروا بھی نہیں کرتے، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اپنے قدرتی محور سے کٹ کر سامراج کا دُم چھلا بن جائے۔
چین اور عرب
جہاں تک چین اور عرب کا تعلق ہے، 13 آزاد عرب ملکوں میں سے 7 چین کی کمیونسٹ سرکار کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اردن، کویت اور سعودی عرب کھلم کھلا چین کے خلاف ہندوستان کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ چین کی بے پناہ مدد کی وجہ سے دو تین عرب ملکوں کے ساتھ چین کے اچھے تعلقات ضرور ہیں، مگر انہوں نے بھی بہت صفائی سے کہہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور چین کے جھگڑے میں کسی فریق کا ساتھ نہیں دیتے۔ متحدہ عرب جمہوریہ نے 1963ء کے شروع میں کولمبو کانفرنس میں بھارت کی حمایت میں جو رول ادا کیا تھا وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں ہے، اس کانفرنس میں مصری نمائندے وزیراعظم علی صابری کی کوششوں کی بدولت ایسی تجاویز منظور ہوئی تھیں کہ جنہیں ہندوستان نے فوراً منظور کرلیا لیکن جنہیں چین نے اپنے خلاف سمجھتے ہوئے ابھی تک منظور نہیں کیا ہے۔ کولمبو تجاویز سے چین کے انکار کی بدولت ہندوستان کو یہ ثابت کرنے میں بے حد مدد ملی کہ چین امن چاہتا ہی نہیں۔ ہندوستانی پروپیگنڈے کی اس کامیابی میں مصری نمائندے کے بھارت نواز رویّے کا جتنا گہرا دخل ہے اسے بھلا دینا سچائی سے منہ موڑنا بھی ہے اور احسان فراموشی کی بدترین مثال بھی۔
عربوں سے ہمارے کتنے گہرے اقتصادی، سیاسی اور جغرافیائی مفاد وابستہ ہیں اس کا ذکر کرتے وقت یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کی 26 لاکھ آبادی کے مقابلے میں عربوں کی آبادی 15 کروڑ کے قریب ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہ ملک اقتصادی اور سیاسی طور پر بے حد اہمیت رکھتے ہیں، گنتی میں بھی ان کی تعداد 13 ہے جو جلد ہی 15 ہوجائے گی، اس کے علاوہ انہیں تقریباً 15 ہی دوسرے عرب ایشیائی ملکوں کے ووٹوں پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب دشمن پالیسی اپناکر ہم تقریباً 30 ملکوں کی حمایت سے بالکل محروم ہوجائیں گے۔ اس کے بدلے میں ہمیں مغربی ملکوں کے سوا اور کوئی منہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ مغربی ملک کبھی بھی ہماری حمایت نہیں کرسکتے، گویا اگر اسرائیل کے وکیلوں کی بات ہم مان لیں تو عالمی سیاست میں ہم نہ اِدھر کے رہیں گے اور نہ اُدھر کے۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ عرب دنیا میں اپنے ہر قسم کے سیاسی، اقتصادی اور جغرافیائی مفاد کو دیکھتے ہوئے ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہاں ہمارے زیادہ سے زیادہ دوست موجود ہوں۔ اس لیے ہمیں عربوں کو یہ یقین دلاتے رہنا چاہیے کہ ہم ہی ان کے بہترین دوست ہیں۔ اسرائیل کی حامی پالیسی اپنانے سے جتنی خوشی ہمارے مخالفوں کو ہوگی اتنی تو شاید خود اسرائیل کو بھی نہ ہو۔
(جاری ہے)