بچاؤ اور علاج
درمیانی عمر والے افراد میں فالج (اسٹروک) ہونے کی شرح برطانیہ یا امریکہ کے مقابلے میں پاکستان، ہندوستان، روس، چین اور برازیل میں پانچ سے دس گنا زیادہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی بستی ہے، اور اس خطۂ زمین کی آبادی میں امراضِ دل کا سب سے زیادہ بوجھ ہے۔ اوسط عمر میں اضافہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں فالج کے واقعات میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنا ہے۔ ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں کی جانے والی طبی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ یہاں فالج ہونے کی استعداد و وجوہات مغربی ممالک سے خاصی حد تک مختلف ہیں۔ اصل وجوہات کیا ہیں تاحال معلوم نہیں، مگر ہمارے ملک سمیت اس خطے کی آبادی میں فالج کے مریضوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں نوجوانوں میں فالج کے واقعات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ دماغ کی شریان پھٹنے (برین ہیمرج) کی وجہ سے فالج اور سب سے بڑھ کر خواتین میں فالج کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان کی آبادی دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے، 22 کروڑ انسانوں کے اس ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 5 فیصد افراد فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس اعتبار سے تقریباً 10لاکھ سے زائد فالج کے مریض ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔ لہٰذا اس بیماری کے لیے پیشگی آگہی، تدابیراور بعداز فالج بحالی کے اقدامات پر منظم و مربوط توجہ نہ دی گئی تو آنے والے کچھ سال میں ہمارے ملک میں ’’نوجوان فالج زدہ‘‘ معذورین کی تعداد میں خاصی بڑی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔
امسال فالج کے عالمی دن کی وساطت سے میں اربابِ اختیار سے یہ دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ اپنی قوم میں ایک بڑی تعداد کو فالج کے باعث مستقل معذوری سے بچانے، فالج کی شرح میں کمی کرنے کے لیے آگہی مواد کی ترویج و اشاعت، فالج ہونے کی صورت میں فوری دوا کی مفت فراہمی، اور بعداز فالج بحالی (Rehabilitation) کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوںکی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔
امسال فالج کی آگہی کے حوالے سے عالمی تنظیم ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن (WSO) نے 29 اکتوبر کو منائے جانے والے عالمی یوم فالج کا مرکزی خیال ’’متحرک رہنے‘‘ کو قرار دیا ہے۔ WSO کے فراہم کردہ عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک بالغ انسان کو کبھی فالج ہوسکتا ہے، لیکن متحرک رہنے سے فالج کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ آخر وہ کون سے اہم بنیادی عوامل اور وجوہات ہیں جن کو اپنانے و عمل کرنے سے فالج کے خطرے کو خاصی حد تک نہ صرف کم کیا جاسکتا ہے بلکہ خدانخواستہ فالج ہوجائے تو ان پر خصوصی توجہ دے کر اپنے آپ کو متحرک رکھا جاسکتا ہے۔
فالج سے بچائو اور متحرک رہنے کے لیے درج ذیل اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے:۔
-1 بلڈ پریشر کنٹرول: تقریباً پچاس فیصد یعنی آدھے کے قریب فالج ہوجانے کی کلیدی وجہ (اس کی جڑ) دراصل بلڈ پریشر کی زیادتی ہے۔ ہر انسان کو اپنے بلڈ پریشر کے متعلق جاننا بے حد ضروری ہے۔ نارمل بلڈ پریشر اوپر کا 120mmHg اور نیچے کا 80mmHk (Diastolic) سے زیادہ نہ ہو۔ بلڈ پریشر کے متعلق کسی غیر منطقی بات پر یقین نہ کریں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔ اگر کسی انسان کا بلڈ پریشر120/80 سے مستقل زیادہ رہتا ہے تو وہ معالج سے رجوع کرے اور اس کی ہدایت کے مطابق ادویہ کا بروقت استعمال کرے۔ اپنی مرضی سے کسی کو Paracetamol کی دوا بھی استعمال نہیں کرنی چاہیے، نیز مستند ڈاکٹر سے ہی مشورہ لیں۔
-2 ورزش: فالج ہونے کی ایک تہائی (1/3) وجہ میں وزرش کا روزمرہ زندگی میں نہ ہونا شامل ہے۔ مختلف سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہفتے میں پانچ روز 20۔30 منٹ دورانیہ کی ورزش سے فالج کے خطرے سے بچا جاسکتا ہے۔
-3 صحت مند و متوازن غذا: ایک چوتھائی ہونے والے فالج کا تعلق عمومی طور پر غیر صحت مندانہ غذا سے ہوتا ہے۔ تمام ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر فرد غذا کو سادہ رکھتے ہوئے تازہ فروٹ وسبزیوں کا استعمال زیادہ کریں۔ Processed Food کا استعمال کم سے کم کریں۔
-4 کولیسٹرول میںکمی: ہر چار میں سے ایک فالج کا تعلق جسم میں ’’برے‘‘ LDL کولیسٹرول کی مقدار میں اضافے کے باعث ہوتا ہے۔ کم چربی/ چکناہٹ والی غذا کا استعمال، Processed Food سے پرہیز اور جسمانی ورزش LDL Cholestrol کو جسم میں مناسب مقدار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر صحت مندانہ طرزِ زندگی رکھنے کے باوجود جسم میں کولیسٹرول کی مقدار مطلوبہ نہیں ہوپاتی تو فوری طور پر اپنے معالج سے رجوع کریں اور ان کی ہدایت کے مطابق کولیسٹرول کی مقدار کنٹرول کرنے والی ادویہ کا استعمال کریں۔
-5 صحت مند وزن: ہر پانچ میں سے ایک فالج کا تعلق وزن میں اضافے یا یوں کہہ لیں مٹاپے سے ہے۔ جسم کا Body Mass Index (BMI) جسے ہم جسم کے وزن اور قد کا تناسب کہتے ہیں، یا یوں کہہ لیں کولہے سے کمر کا تناسب کنٹرول ہونا لازمی ہے۔ وزن کو کنٹرول کرنے کے بنیادی عوامل میں صحت مند تازہ غذا اور ورزش کے ساتھ ساتھ جسم میں مطلوبہ مقدار کے مطابق کولیسٹرول کا ہونا لازمی امر ہے۔
-6 تمباکو نوشی: ہر 10 میں سے ایک فالج کا بالواسطہ تعلق تمباکو نوشی سے ہے، جبکہ فقط تمباکو نوشی ہی نہیں بلکہ ایسا فرد جو ازخود تمباکو نوشی تو نہیں کرتا مگر دھواں دار ماحول (Smoky Environments) میں ہو وہ بھی فالج سے اسی طرح متاثر ہوگا جیسے تمباکو نوشی کرنے والا فرد۔ لہٰذا ایسے ماحول سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی میں مبتلا ہے، فوراً اس بری عادت کو ترک کرے تاکہ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی وجہ سے وہ تمام افراد بھی جو اس ماحول میں مستقل اس کے ساتھ ہیں، فالج کے خطرے سے بچ سکیں۔ ہمارے ملک میں ممکنہ تمباکو نوشی کے عوامل کے ساتھ ساتھ غیر روایتی خطرے کے عوامل جیسے پانی کے پائپ (حقہ)، تمباکو نوشی، نسوار، پان، گٹکا وغیرہ کا استعمال بھی نوجوانوں میں فالج کا باعث بننے کی بڑی وجہ ہے۔
-7 شراب نوشی/نشہ آور دیگر اشیا کا استعمال: کسی بھی قسم کا نشہ بشمول شراب کا استعمال دینی احکامات کے مطابق حرام ہے۔ تمام طبی تحقیق اس کے استعمال کو منع کرتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10لاکھ سے زائد فالج صرف شراب نوشی کے باعث ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام کے حکم کے مطابق شراب کا استعمال حرام ہے اور ہمیں تمام دینی احکامات پر عمل کرنا لازمی ہے، اور نتیجتاً ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھنے کا باعث بنیں گے۔
-8 دل کی دھڑکن میں تبدیلی کی تشخیص و علاج: دل کی دھڑکن کی تبدیلی فالج ہونے کے امکان کو ’’پانچ گنا‘‘ بڑھا دیتی ہے۔ اگر کسی فرد کی عمر 50سال سے زیادہ ہے تو اسے دل کی دھڑکن کی تشخیص کے لیے اپنے معالج سے رجوع کرنا بہتر ہوگا۔
-9 ذیابیطس (شوگر) کو کنٹرول کریں: اگر کسی انسان کو شوگر کا مرض لاحق ہے تو اسے فالج ہونے کا خطرہ خاصا بڑھ جاتا ہے۔ فالج اور شوگر سے بچائو کے لیے بنیادی عوامل اس سے قبل بیان کرچکا ہوں کہ صحت مند غذا و ورزش شوگر کو کنٹرول کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
-10 ذہنی تنائو و افسردگی: افسردگی اور دبائو سے فالج کی وجہ ذہنی تنائو ہے۔ دبائو، افسردگی، تنائو اور غصے کو ممکن حد تک کنٹرول میں رکھیں۔
اگر ہم پاکستان میں فالج کے مریضوں میں کمی کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ فالج کے نتیجے میں اموات کی شرح کم ہو تو ہم کو عوام الناس میں اس ’’دماغی اٹیک‘‘ (Brain Attack) سے تحریر شدہ درج بالا بچائو کی تدابیر کے لیے مختلف علاقائی و مقامی زبانوں میں مہم چلانی چاہیے۔ حکومت جب تک عوام میں شعور اجاگر کرنے اور صحت کی اہمیت کے تحت بچائو کی تدابیر و اقدامات نہیں اٹھائے گی یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے فالج کے مریضوں کی تعداد کو کم کرسکیں۔