سید مودودیؒ نسلوں کے رہنما

کچھ لوگوں کو ان کا جنون فارغ نہیں بیٹھنے دیتا۔ کام کا جنون ان کے سر پر سوار رہتا ہے۔ محمود عالم صاحب کا شمار بھی انھی لوگوں میں ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ عمر کی 74 بہاریں دیکھ چکے ہیں، لیکن کام میں اس طرح جتے رہتے ہیں کہ جوان بھی دیکھیں تو شرماجائیں۔ اللّٰھم زد فزد۔ (آمین) ان کی طبیعت بقول حسرتؔ اک طرفہ تماشہ ہے۔ بیک وقت مختلف کاموں کو نمٹاتے رہتے ہیں۔ ایک طرف تاریخ جماعت اسلامی کی تحقیق و ترتیب جیسے کٹھن منصوبے میں مصروف ہیں، جلد اول جو648 صفحات پر محیط ہے، طبع ہوچکی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ خاموشی سے انگریزی سے اردو ترجمہ کا ایک اور کام بھی مکمل کرتے چلے گئے۔ کتاب کا نام Creation of Bangladesh Myths Exploded اردو ترجمہ ’’بنگلہ دیش کا قیام، فسانے اور حقائق‘‘۔ خیال رہے کہ معیاری ترجمہ کا کام طبع زاد کام سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ طبع زاد کام میں خیالات کے اظہار میں الفاظ اور اسلوب کی قید نہیں ہوتی، اس کے برعکس ترجمہ میں اسلوب اور الفاظ کے انتخاب میں مترجم محدود دائرے میں محصور ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سطر کا ترجمہ گھنٹوں اور بعض دفعہ دنوں پر محیط ہوجاتا ہے۔
’’محمود عالم صاحب، ہماری اطلاع کے مطابق تاریخ جماعت اسلامی کی جلد دوم پر کام میں مصروف تھے۔ ابھی یہ کام چل ہی رہا تھا کہ ان کی نئی کتاب’’سیّد مودودی نسلوں کے رہنما‘‘ طبع ہوکر ہمارے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ اس وقت اسی کتاب پر گفتگو مقصود ہے۔ یہ کتاب سید مودودیؒ کی شخصیت اور ان کے محاسن پر مشتمل ہے۔ یوں تو سید صاحب کی شخصیت پر بیسیوں کتابیں موجود ہیں، لیکن اس کتاب کی ایک انفرادیت اس کا عنوان ہے، جو نہایت عمدہ اور بہت بامعنی ہے۔ ’’سید مودودیؒ… نسلوں کے رہنما‘‘ کا عنوان سید مودودی پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ دوسری اہم چیز ایران کے قومی شاعر صادق سرمد کی رباعی ہے۔ کتاب کھولتے ہی سب سے پہلے نظر ان دو اشعار پر پڑتی ہے، جنھیں پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہوجاتی ہے۔ ان دو اشعار میں وہ مضمون ادا ہوگیا ہے جو بیسیوں صفحات کی تحریر میں بھی ممکن نہ تھا۔

روح اقبال از بدانش می تپید
آخر آں دانائے راز آمد بدید
چشم حق بیں اندریں عصر جدید
ہمسر سید ابوالاعلیٰ نہ دید

ترجمہ
’’روحِ اقبال اپنی دانش کے ساتھ بے چینی سے دھڑکتی تھی۔ بالآخر بدیر وہ دانائے راز میسر آگیا۔ حق کو دیکھنے والی آنکھ نے جدید زمانے میں سید ابوالاعلیٰ کا ہمسر کسی کو نہ دیکھا‘‘۔ ایک کمی یہ ہے کہ ان اشعار کا ترجمہ درج نہیں کیا گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ اردو دان حضرات کسی نہ کسی درجے میں فارسی کی شدبد بھی رکھتے تھے۔ افسوس آج کیفیت اس کے بالکل برعکس ہے۔ امید ہے کہ اگلی اشاعت میں اس کمی کو پورا کردیا جائے گا۔
یہ کتاب سید مودودیؒ پر باقاعدہ تصنیف نہیں، بلکہ اس موضوع پر دستیاب تحریری ذخیرے کا عمدہ انتخاب ہے۔ یہاں اس غلط فہمی کو رفع کرنا بھی ضروری ہے کہ تالیف یا انتخاب کوئی سہل کام ہے، یا آج کل کی زبان میںCut & Paste قسم کا کام ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تالیف یا انتخاب کے لیے ایک جانب اعلیٰ ادبی صلاحیت اور ذوق درکار ہوتا ہے، دوسری جانب دستیاب تحریری ذخیرے کے انبار سے معیاری تحریروں کا انتخاب بڑی عرق ریزی کا کام ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پوری کتاب کی ورق گردانی کے بعد بھی انتخاب کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ بیسیوں کتابوں کے مطالعے کے بعد جاکر انتخاب کا مرحلہ طے پاتا ہے۔ جس طرح ایک گل دستہ بنانا مہارت کا کام ہے۔ بیسیوں خوش رنگ پھولوں میں سے چنیدہ پھولوں کو ہنرمندی کے ساتھ ضروری کتر بیونت کے بعد گل دستہ کی شکل دی جاتی ہے، مؤلف کا کام بھی ایسی ہی ہنرمندی کا نام ہے۔ ہزاروں صفحات کی خواندگی کے بعد معیاری تحریروں کا انتخاب ہو پاتا ہے، پھر اس منتخب مواد کو حُسنِ ترتیب کے ساتھ کتاب کی شکل دی جاتی ہے۔ محمود عالم صاحب نے یہ کام بڑی عرق ریزی اور ہنرمندی کے ساتھ کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اس انتخاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں مولانا مرحوم کے نظریاتی حریفوں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، حنیف رامے کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب کے شروع میں مولانا کی نادر تصاویر نے کتاب کی خوب صورتی میں اضافہ کیا ہے۔ مولانا کے اہلِ خانہ کے علاوہ جن مشاہیر کے تاثرات کتاب میں شامل کیے گئے ہیں ان سب پر تبصرہ تو ممکن نہیں۔ صرف اے۔ کے۔ بروہی صاحب کا ایک حوالہ درج کرنا ضروری ہے۔
اے۔ کے ۔ بروہی صاحب اپنے وقت میں دنیا کے اعلیٰ ترین قانونی دماغ مانے جاتے تھے۔ دنیا مولانا مودودیؒ کو متکلم اسلام، اردو کے منفرد نثرنگار، بہادر اور اصولی سیاست دان اور اقامتِ دین کی منظم ترین عالم گیر تحریک بپا کرنے والی شخصیت کے طور پر جانتی ہے۔ لیکن بروہی ؒ صاحب نے مولانا کی ایک ایسی اعلیٰ ترین صلاحیت کا ذکر کیا ہے جس سے دنیا لاعلم تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’مولانا مودودیؒ اگر وکالت کا پیشہ اختیار کرتے تو یقیناً بہترین وکیل ہوتے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے پاکستان بھر میں کوئی وکیل ایسا دکھائی نہیں دیتا جو ان کی طرح مقدمہ پیش کرسکتا ہو‘‘۔
مولانا کی نثر نگاری پر بروہی صاحب کا تبصرہ بہت اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’وہ دلیل کو اس خوبی اور قوت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ ہم انھیں اردو زبان کے عظیم ترین نثرنگار ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ وہ اختصار اور جامعیت کے بادشاہ ہیں… حقیقت یہ ہے کہ میں اردو زبان میں مذہبی اور دینی موضوعات پر لکھنے والے کسی اور ادیب سے واقف نہیں جو اپنے نقطہ نظر کو اس قدر عالمانہ، مربوط اور جامع انداز میں پیش کرسکتا ہو جو مولانا مودودی کا خاصا تھا‘‘۔
بروہی صاحب کی مولانا سے عقیدت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو کتاب کا حصہ تو نہیں لیکن ایک تاریخی امانت کے طور پر اس کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ پروفیسر کریم بخش نظامانیؒ ایک مرتبہ میرے گھر تشریف لائے ہوئے تھے۔ کچھ اور احباب بھی مدعو تھے۔ انھوں نے بروہی صاحب کا یہ واقعہ سنایا۔کہنے لگے کہ ایک مرتبہ بروہی صاحب اپنی دلی کیفیت پر سخت پریشان تھے، ان کا کہنا تھا کہ میرے دل کی کیفیت بالکل ایسی ہوگئی ہے جسے تصوف کی زبان میں ’قبض‘ کہتے ہیں۔ میں نے مولانا کو فون کرکے آنے کی اجازت چاہی۔ اجازت مل گئی تو میں ایئرپورٹ سے سیدھا مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا گھٹنوں کی تکلیف کے باعث کرسی پر تشریف رکھتے تھے۔ میں بے اختیار ان کے قدموں میں زمین پر بیٹھ گیا، اور بیٹھتے ہی مجھے انتہائی شدت سے رونا آگیا۔ چند ہی منٹوں بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے قلب سے غبار چھٹ گیا اور آئینہ کی طرح مصفّا ہوگیا۔
اب لگے ہاتھوں ایسی شخصیت کی بات بھی کرلی جائے جو نظریاتی طور پر مولانا ؒ کے مخالف تھے۔ فیض احمد فیض اردو شاعری کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ نظریاتی طور پر وہ لینن ازم کے علَم بردار تھے، اسی بناء پر انھیں روس کی حکومت نے لینن ایوارڈ دیا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فیض صاحب ذاتی حیثیت میں انتہائی شریف الطبع انسان تھے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ’’مولانا پر پاکستان کی مخالفت کے الزام پر آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ فیض صاحب نے جواب دیا ’’بھئی یہ تو پاکستان بننے کے بعد انکشاف کیا گیا کہ وہ پاکستان کے مخالف تھے، ورنہ بننے سے قبل تو مسلم لیگ کے ورکر مودودی صاحب کی تحریروں کو پاکستان کے حق میں اور کانگریس سے مقابلے کے لیے استعمال کرتے تھے‘‘۔
قیام پاکستان کے مطالبے کی اساس دو قومی نظریے پر تھی، یعنی دینِ اسلام میں قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ایمان ہے۔ مسلم لیگ نے اسی بنیاد پر علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا تھا، جسے اقبال نے اپنے اشعار میں اس طرح بیان کیا تھا:۔

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری

ادھر کانگریس کا یہ کہنا تھا کہ قومیت کی بنیاد وطن ہے۔ ایک وطن میں رہنے والے مسلمان اور ہندو دونوں ایک قوم ہیں۔ بدقسمتی سے اسی مؤقف کی حمایت دارالعلوم دیوبند نے بھی کی۔ سرخیلِ دیوبند مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اسی مؤقف کی حمایت کا اعلان کیا، جس کے جواب میں علامہ اقبال نے یہ کہا کہ:۔

عجم ہنوز نداند رموزِ دین ورنہ
ز دیوبند حسین احمد، ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر مقامِ محمدِ عربی است

ترجمہ
’’اہلِ عجم ابھی تک دین سے ناواقف ہیں، ورنہ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حسین احمد مدنی منبر و محراب سے یہ اعلان کریں کہ ملت کی بنیاد وطن پر ہے! حیرت ہے کہ وہ مقامِ محمدِ عربی سے کیسے بے خبر ہیں‘‘۔ مولانا مودودی وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے ’’مسلم قومیت‘‘ تحریر کی، جس میں دلائل سے یہ ثابت کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ قائداعظم کے رفیقِ کار ظفر احمد انصاری کے الفاظ ہیں کہ ہم لوگ ہمہ وقت یہ کتاب اپنے پاس رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے حق میں ہماری تقاریر،گفتگو اور تمام تر دلائل اسی تحریر سے اخذ کردہ تھے۔ فیض صاحب نے اسی حقیقت کا ذکر کیا ہے۔ افسوس، پھر بھی گلہ ہے ہم وفادار نہیں۔ یہ ہے ایک نظریاتی مخالف کی گواہی، افسوس ہے کہ ٹھوس تاریخی حقیقت کے بعد بھی بہت سے بندگانِ خدا ٹیپ کے بند کی طرح وہی غلط الزام دہراتے رہیں گے کہ مولانا قیام پاکستان کے مخالف تھے۔
فیض صاحب کے انٹرویو کے مندرجات پر بعض کرم فرما بہت برہم ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری عمر گزر گئی فیض صاحب کے حالات پڑھتے ہوئے، ہم نے کہیں نہیں پڑھا کہ فیض صاحب اور مودودی صاحب کبھی جیل میں ایک ساتھ بھی رہے ہیں، اور نہ ہی فیض صاحب کے ساتھ جیل میں رہنے والے ساتھی جنھوں نے جیل کے حالات پر تفصیل سے لکھا ہے، انھوں نے بھی کہیں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ انٹرویو نگار چونکہ جماعتی ہیں لہٰذا وہ ساقط الاعتبار ہیں۔ اللہ اللہ، کہاں وسیع النظری اور بالغ نظری کے دعوے، اور کہاں عملاً ایسی تنگ نظری! ان حضرات کی خد مت میں عرض ہے کہ یہ انٹرویو حسن رضوی مرحوم کے توسط سے ہوا تھا، وہ انٹرویو میں بہ نفس نفیس موجود تھے اور اس انٹرویو کو سب سے پہلے انھوں نے ہی جنگ لاہور کے رنگین صفحے پر مولانا مودودیؒ اور فیض صاحب دونوں کی تصاویر کے ساتھ چھاپا تھا، اور بعد میں شیما مجید صاحبہ نے فیض صاحب کے انٹرویوز کے کتابی مجموعے میں اسے شامل بھی کیا تھا۔
ڈاکٹر حمیداللہ ؒ دنیائے اسلام کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھی۔ وہ دنیا کی آٹھ زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے زندگی کا زیادہ عرصہ فرانس میں گزارا۔ وہ ایک فقیر منش عالم تھے جنھوں نے مغربی دنیا میں اسلام کی ترویج کی بے مثل خدمات انجام دیں۔ کوئی دن ایسا نہیںگزرتا تھا جب ان کے ہاتھ پر کوئی یورپین غیر مسلم ایمان نہ لاتا ہو۔ وہ کہتے ہیں: ’’مولانا مودودی بہت بڑے آدمی تھے، اور بہت بڑے آدمیوں میں ایک بات یہ ہوتی ہے کہ اگر انھیں ان کی کسی غلطی کی جانب متوجہ کرایا جائے تو وہ احساس ہوتے ہی عالی ظرفی سے مان لیتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ انھوں نے ایک بار مولانا کی تحریر میں تاریخ اسلامی کی ایک واقعاتی غلطی کی نشان دہی کی، تو مولانا نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ اس غلطی کی تصحیح پر شکریہ بھی ادا کیا۔ اگر یہ خط شاملِ اشاعت کرلیا جاتا، تو بہت بہتر ہوتا۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا انٹرویو تو ایسا تھا کہ ہر تحریکی کارکن کو لازماً پڑھنا چاہیے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، مولانا اصلاحی نے بڑے واضح الفاظ میں یہ بات کہی کہ میں مولانا مودودیؒ کا مخالف کبھی نہیں رہا، ہاں ان کے بعض اقدامات سے اتفاق نہیں رکھتا، اور علمی دنیا میں یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے جیسی میری ناز برداری کی، ایسی نازبرداری تو بیوی اور بچے بھی نہیں کرسکتے۔ میرے سخت سے سخت اور کڑے سے کڑے تبصرے کا انھوں نے مجلسِ شوریٰ، اجتماع، یا انفرادی ملاقات میں کبھی دو بدو جواب نہیں دیا، بلکہ کم سے کم اور نرم سے نرم لہجے میں جواب دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد مولانا اصلاحیؒ نے جو کچھ کہا وہ ایک جانب تو مولانا اصلاحیؒ کی عالی ظرفی کی انتہا ہے، دوسری جانب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مولانا مودودی ضبط و تحمل کے کیسے کوہِ گراں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’گاؤں کی اس خاموش فضا میں جب میں سوچتا ہوں کہ اگر میں کسی کے ساتھ ایسا حُسنِ سلوک کرتا اور وہ جواب میں میرے ساتھ ایسا رویہ رکھتا تو میرے لیے اُس کے ساتھ سلسلۂ کلام تک برقرار رکھنا مشکل اور سماجی تعلق کو نبھانا ناممکن ہوجاتا، لیکن مولانا مودودی نے طویل عرصے تک بڑی ثابت قدمی سے رفاقت اور دوستی کے اس تعلق کو نبھایا‘‘۔
حنیف رامے معروف ترقی پسند دانش ور تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریاتی ارکان میں سے تھے۔ مولانا کے حوالے سے انھوں نے بڑا خوب صورت تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’مولانا نے اسلام کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی پوری دنیامیں پہنچایا‘‘۔ اردو کی خدمت کے حوالے سے تو وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ’’اردو کی جتنی خدمت ابوالاعلیٰ مودودی نے کی وہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی نہیں کی‘‘۔
پاکستان میں سید مودودیؒ پر ہونے والے کام کے حوالے سے عرصۂ دراز سے شدت کے ساتھ ایک احساس غالب رہا ہے۔ آج جب اس احساس کا اظہار کرنا چاہا تو بقول غالب

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

معلوم ہوا کہ شاہ نواز فاروقی (اللہ ان کی عمر اور قلم میں برکت عطا فرمائے، آمین) نے وہ بات زیادہ بہتر پیرائے میں اپنی تقریظ میں کہہ ڈالی۔ فاروقی صاحب کہتے ہیں:
’’مولانا کے عالمگیر اثرات کے باوجود مولانا کی شخصیت اور فکر پر اس طرح کام نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔ مغرب میں جہاں عموماً تحقیقی کاموں کی سطح بلند ہوتی ہے، مولانا پر جو کام ہوا ہے اسے زیادہ سے زیادہ تسلی بخش کہا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر میں مولانا پر اعتراض کرنے والوں کی سطح بلند ہوسکی نہ مولانا سے اظہارِ عقیدت کرنے والے ان کی فکر اور شخصیت سے انصاف کرسکے۔ ہمارے یہاں مولانا پر جو کام ہوا ہے اُس میں مولانا کو ریزہ ریزہ کرکے دیکھا گیا ہے۔ چنانچہ مولانا کی شخصیت اور فکر کی کلیّت ابھی تک عالمانہ شان کے ساتھ ہمارے سامنے نہیں آسکی ہے۔‘‘