علامہ یوسف القرضاوی کی زیر نظر اہم کتاب داعی کی مطلوبہ ثقافت کو تفصیلاً بیان کرتی ہے، جناب سلطان احمد اصلاحی نے اس کا عربی سے بڑا عمدہ اردو ترجمہ کیا ہے۔ اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ماضیِ قریب میں عالمِ عرب کی کم ہی شخصیتیں ہوں گی جنہیں اردو دنیا میں وہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہو جو ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے حصے میں آئی ہے۔ ان کی تصنیفات کا بڑا حصہ اردو میں منتقل ہوکر قبولِ عام حاصل کرچکا ہے، اور روزانہ اس کی فہرست میں اضافہ ہورہا ہے۔ پیش نظر کتاب ’’داعی کی مطلوبہ ثقافت‘‘ یا ’’فکری تربیت کے اہم تقاضے‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کا موضوع جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے علمی اور فکری تیاری کے ذیل میں دین کے ایک داعی کے لیے ان اہم نکات کی نشاندہی ہے جن کا لحاظ کیے بغیر وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ یوسف القرضاوی نے ذہن رسا پایا ہے اور ان کی نظر وسیع ہے۔ اس کے علاوہ وہ صرف ایک صاحبِ نظر اہلِ قلم ہی نہیں بلکہ ایک پُرجوش مبلغ اور داعی بھی ہیں۔ اس لیے ان صفحات میں اُن کے علمی خیالات و آرا ہی نہیں بلکہ اُن کے دعوتی تجربات و مشاہدات کا ایک بڑا حصہ بھی صفحہ قرطاس پر منتقل ہوگیا ہے، جس سے امید ہے خاص طور پر دعوتی حلقے اور ان میں بھی بالخصوص نوجوان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ موصوف ’’اخوان المسلمون‘‘ کے ایک سرگرم کارکن اور اس کے صفِ اوّل کے رہنمائوں کے قریب ترین ساتھیوں میں رہے ہیں۔ اس لیے آئندہ صفحات میں علمی و فکری تیاری کے ذیل میں بالواسطہ طور پر ’’اخوان‘‘ کے نقطہ نظر اور اس باب میں ان کے اندازِ فکر کی ایک جھلک بھی بڑی حد تک دیکھی جاسکتی ہے۔
بیسویں صدی کی اس عظیم اسلامی تحریک کے نقطہ نگاہ کو معلوم کرکے دوسری معاصر تحریکات بھی بجا طور پر اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور باہمی اخذ و استفادے سے ہر ایک کو اپنی کمیاں دور کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ ’’اسلامیات‘‘ کے ایک عام طالب علم کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ اِن شا اللہ افادیت سے خالی نہ رہے گا۔ بنیادی اسلامی مآخذ اور ان کے متعلقات سے اخذ و استفادے کے نہج و انداز کا ایک اچھا جائزہ اس میں آگیا ہے۔ قرآن و حدیث اور ان کے متعلقات کے علاوہ فقہ، اصولِ فقہ، علمِ کلام، تصوف، نیز عصری علوم مثلاً تاریخ، نفسیات، سماجیات، اخلاقیات وغیرہ کے سلسلے میں بھی اچھی خاصی معلومات اس میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
داعی کی علمی اور فکری تیاری کے ذیل میں پوری کتاب میں مصنف نے بات جس انداز سے کہی ہے اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ عربی زبان اور اسلام کے بنیادی مآخذ سے براہِ راست واقفیت کو داعی کے لیے ایک شرطِ لازم کی حیثیت سے تصور کرتے ہیں، جس کی طرف اشارے کی بھی چنداں حاجت نہیں۔ ضرورت صرف اس سے آگے کی باتوں کی طرف متوجہ کرنے کی ہے۔ خدا کرے کہ عربی دنیا سے باہر کے دعوتی حلقوں کے لیے یہ چیز عربی زبان اور بنیادی اسلامی مآخذ سے براہِ راست واقفیت بہم پہنچانے کے لیے ایک مہمیز کا کام دے سکے۔
مصنف نے ہر ہر موضوع سے متعلق اپنے معاصرین کے کاموں کا حوالہ کتاب میں بڑی فراخ حوصلگی سے دیا ہے اور ان سے استفادہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ مستقل کتابوں کے علاوہ منفرد مضامین کا ذکر بھی اسی اہتمام سے کیا ہے اور عالمِ عرب سے باہر کی شخصیتوں کے کام کا تعارف کرانے میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لیا ہے بلکہ پوری قدر افزائی کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے۔ برصغیر ہندو پاک کی حد تک یہ چیز ہمارے لیے عبرت آموز ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں عام طور پر معاصرین کے چھوٹے موٹے کاموں کا تو خیر ذکر ہی کیا، ان کے بڑے بڑے کارناموں کو پسِ پشت ڈال دینے کو ایسا لگتا ہے گویا کارِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ اس ذیل میں مختلف موضوعات سے متعلق اہم اردو تصنیفات کا اضافہ ہم نے اپنی طرف سے کردیا ہے۔ غالباً اجنبی زبان میں ہونے کے سبب وہ موصوف کی نگاہ میں نہ آسکی ہوں گی، لیکن اپنے موضوع پر وہ جس اہمیت کی حامل تھیں اس کے پیش نظر ان کا ذکر نہ کرنے سے ایک بڑی تشنگی باقی رہ جاتی۔
مختلف مقامات پر کتاب میں ذکر کردہ احادیث کو اصل مآخذ سے رجوع کرنے پر اندازہ ہوا کہ مصنف نے زیادہ تر حدیثوں کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کہیں کہیں فٹ نوٹس کے ذریعے ہم نے اس اختلاف کو واضح بھی کردیا ہے۔ ترجمے کے سلسلے میں ہماری ناچیز رائے ہے کہ الفاظ کی پابندی کرکے اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ ترجمے کی اصل خوبی یہ ہے کہ ایک زبان میں کہی ہوئی بات دوسری زبان میں اس کے اپنے اسلوب اور طرزِ ادا کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیان کی جائے۔ یہ مقصد لفظی ترجمے سے کسی صورت حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہم نے اس ترجمے میں اپنی حد تک پوری کوشش کی ہے کہ مصنف کی عربی زبان میں کہی گئی بات اردو کے اپنے اسلوب میں ادا کی جاسکے۔ البتہ اس سلسلے میں زیادہ آزاد روی سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ ہماری یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہے، اس کا فیصلہ ناظرین ہی کرسکیں گے۔
مختلف مقامات پر حسبِ ضرورت ہم نے اپنی طرف سے تعلیقات کا اضافہ کردیا ہے جو امید ہے اِن شا اللہ افادیت سے خالی نہ ہوں گی۔ اسی طرح مدعا کی توضیح اور گفتگو کو مربوط کرنے کے لیے قوسین کی عبارت کا اضافہ ہماری طرف سے ہے۔
وماتوفیقی الاباللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘
علامہ یوسف القرضاوی نے کتاب پر مبسوط مقدمہ لکھا ہے، اس میں سے کچھ حصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ علامہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’دین کا ایک داعی حق و باطل کی اس کشمکش سے کامیابی کے ساتھ اُسی وقت عہدہ برآ ہوسکتا اور ظلم و جہل اور فتنہ و فساد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کا چراغ اُسی وقت جلائے رکھ سکتا ہے جب کہ باطل کی اس پوری فوج سے لڑنے کے لیے اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح مسلح کرلیا ہو اور دشمن کے ہر حملے کا پوری قوت کے ساتھ جواب دینے کی پوزیشن میں ہو۔
باطل کے خلاف اس جنگ میں ایک داعی کے لیے اگر کوئی اسلحہ کارگر ہوسکتا ہے تو وہ سب سے پہلے ’ایمان‘ کا اسلحہ ہے کہ اس کے بغیر دوسرے تمام اسلحہ بے کار، اور ان کا گھٹل قرار پانا یقینی ہے۔ لیکن یہ ایمان کوئی معمولی چیز نہیں، صرف زبانی جمع خرچ سے اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان صحیح معنوں میں ایمان اُسی وقت قرار پاتا ہے جبکہ وہ انسان کے رگ و پے میں سرایت کر جائے اور اس کی عملی زندگی اس کی شہادت پیش کرنے لگے۔
دوسری چیز ’’حُسنِ اخلاق‘‘ ہے کہ وہ اخلاقِ عالیہ کا پیکر ہو، اور یہ چیز اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہو۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے اندر صحیح معنوں میں ایمان جاگزیں ہوجائے تو اُس کے اندر اس حُسنِ اخلاق کا پایا جانا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ’ایمان‘ کے ساتھ بطور لازم و ملزوم کے پیش کیا ہے۔
’’مسلمانوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو‘‘۔ (ابودائود، دارمی)
دین کے ایک داعی کے لیے ’’حُسنِ اخلاق‘‘ کی اس اہمیت کے سلسلے میں اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن داعیِ اوّل صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وصف سے متصف گردانتا ہے:
’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔ (القلم:4)
اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر اپنا احسان جتاتے ہوئے اسے آپؐ پر اپنا خصوصی انعام قرار دیا ہے:
’’یہ اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ تم ان کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے گرد سے چھٹ جاتے‘‘۔ (آل عمران: 159)
حق و باطل کے اس کارزار میں کام آنے والا تیسرا اسلحہ ’علم اور ثقافت‘ کا ہے۔ روحانی اور اخلاقی ہتھیاروں کے پہلو بہ پہلو یہی فکری اسلحہ وہ تیسری چیز ہے جس کے ذریعے اس معرکے کو سر کیا جاسکتا اور اس مہم میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ دعوت دراصل ایک طرح کی معنوی داد و دہش ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ جو خود اندر سے خالی اور نورِ علم سے بے بہرہ ہوگا وہ دوسروں کو اس سے کیونکر فیض یاب کرسکتا ہے! جو خود خالی ہاتھ ہے وہ دوسرے کو کیا دے سکتا ہے! جو شخص صاحب ِ نصاب ہی نہیں اس کے زکوٰۃ ادا کرنے کا سوال ہی کیا پیدا ہوتا ہے!
آئندہ صفحات میں ہم نے دعوتِ دین کے اس تیسرے تقاضے سے بحث کی ہے۔ دعوت کا فکری پہلو یعنی کہ اس پس منظر میں داعی کو کن کن پہلوئوں سے تیار ہونا چاہیے۔ وہ خود اپنے کو اس میدان کے لیے کس طرح تیار کرے، یا اگر دوسرے لوگ اسے اس مقصد کے لیے تیار کرنا چاہیں تو انہیں اس سلسلے میں کن امور کو پیش نظر اور کن باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ داعی کی مطلوبہ ثقافت کیا ہونی چاہیے۔ اگر ہم اس مقصد کے لیے کسی مدرسے یا کسی کالج کا قیام عمل میں لانا چاہیں، یا اگر کچھ لوگ خود اپنے طور پر اس کام کے لیے اپنے کو تیار کرنا چاہیں تو اس کے سلسلے میں انہیں ہم کیا مشورہ دے سکتے ہیں؟
گفتگو طویل ہوگئی جو بجائے ایک مقالے کے ایک کتاب کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ ویسے یہ موضوع خاصا اہم ہے، خاص طور پر آج کے حالات میں، جب کہ عالمِ اسلام میں ہر جگہ اس مقصد کے لیے الگ الگ اداروں اور انجمنوں کا قیام پیش نظر ہے، شاید یہ گفتگو کچھ زیادہ بے موقع اور بے محل بھی نہ ہوگی۔
اس پس منظر میں مَیں نے ایک داعی کے لیے چند باتوں کی نشاندہی کی ہے جس کے لیے میں نے ’’ثقافت‘‘ کی نئی اصطلاح استعمال کی ہے۔ داعی کی یہ مطلوبہ ثقافتیں درج ذیل ہیں:
-1 اسلامی ثقافت، -2 تاریخی ثقافت، -3 ادبی ثقافت، -4 انسانی ثقافت، -5 علمی ثقافت، اور -6 ثقافتِ واقعیہ، یعنی حالاتِ حاضرہ پر نظر۔
داعی کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ان تمام ’ثقافتوں‘ سے خود کو بھرپور طریقے پر آراستہ کرنے کی کوشش کرے، انہیں اچھی طرح ہضم کرے اور انہیں زیادہ سے زیادہ اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرے۔ جب تک وہ خود ان کیفیات سے پوری طرح سرشار نہ ہو، دوسروں کو ان سے سرشار کرنے میں اُسے کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی‘‘۔
پہلے باب میں اسلامی ثقافت اور اس کے عناصرِ ترکیبی کی وضاحت ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی ثقافت کا دوسرا مآخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ تیسرے باب میں فقہ اسلامی سے مناسبت کی وضاحت ہے۔ چوتھے باب میں تاریخی ثقافت، پانچویں میں ادبی ثقافت، چھٹے میں انسانی ثقافت، ساتویں میں علمی ثقافت، آٹھویں میں حالاتِ حاضرہ پر نظر ہے۔
ایک مسلمان داعیِ دین کو ہر طرح سے دینی اور علمی لحاظ سے مسلح ہونا ضروری ہے۔ اس کتاب میں مختلف پہلوئوں پر سیر حاصل بحث کرکے علامہ صاحب نے دعوتی لٹریچر میں وقیع اضافہ کردیا ہے۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ خوب صورت اور رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔ قیمت نہایت مناسب ہے، تحریک اسلامی کے ہر فرد کے لیے نعمت ہے۔
۔25جلدوں پر مشتمل کلیات سرسید کی اشاعت کا منصوبہ
ڈاکٹر عطا خورشید اور عبدالرحمٰن ایڈووکیٹ کا مشترکہ علمی کارنامہ
”سرسید احمد خاں(1817ء۔1898ء)نے اپنی 80 سالہ طویل زندگی میں تقریباً 40 سے زائد تصنیفات و تالیفات اور ہزار سے زائد چھوٹے بڑے مقالات اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔“ یہ کہنا ہے ڈاکٹر عطا خورشید کا، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری میں شعبہ مشرقیات کے انچارج ہیں۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ سرسید کی تقریباً تمام تصنیفات و تالیفات، سوائے ایک دو کے، سرسید کی حیات میں ہی شائع ہوچکی تھیں۔ اُن کے بیشتر مقالات اُن کے اپنے جاری کردہ ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے۔ سرسید کی حیات میں ہی مختلف لوگوں نے اُن کے مقالات جمع کرکے مجموعہ کی صورت میں شائع کرنا شروع کردیے تھے جن میں سرفہرست لاہور کے فضل الدین ککّے زئی اور محمد امام الدین گجراتی تھے جنھوں نے بالترتیب1895ء اور1898ء میں لاہور سے ہی اپنے مجموعے شائع کیے۔ 1895ء سے شروع ہونے والا یہ اشاعتی سلسلہ آج تک جاری ہے، اور اب تک مقالاتِ سرسید کے تقریباً 30 مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جن میں شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی کا مرتب کردہ ’’مقالاتِ سرسید‘‘ بھی شامل ہے جسے مجلس ترقی ادب، لاہور نے1962ء سے 1965ء کے دوران 16جلدوں میں شائع کیا۔ اِن 16 جلدوں میں تقریباً 404 مقالات شامل ہیں۔ 2019ء میں سرسید پر اُن کی تیار کردہ ایک ببلیوگرافی ’’سرسید احمد خاں: وضاحتی موضوعاتی کتابیات‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ لوگ اب تک اسمٰعیل پانی پتی کے مرتبہ ’’مقالاتِ سرسید‘‘ کو ہی حرفِ آخر سمجھتے آئے تھے اور لوگوں کو یہ یقین تھا کہ سرسید نے صرف اسی قدر ہی لکھا ہے۔ ڈاکٹر عطا خورشید نے اپنی مرتبہ کتابیات میں سرسید کی چھوٹی بڑی تقریباً ایک ہزار سے زائد تحریروں کی نشاندہی کی۔ وہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح وہ تحریریں جو پانی پتی کے مرتبہ مجموعوں میں شامل نہیں ہیں، چَھپ کر منظرعام پر آئیں تاکہ سرسید پر تحقیق کے نئے دَر وا ہوں۔ اسی دوران اُن کی ملاقات سپریم کورٹ کے مشہور وکیل اور عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین اے رحمٰن سے ہوئی جو خود اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ سرسید کی ساری تحریریں یکجا کرکے کلیات کی شکل میں شائع کی جائیں۔
اے رحمٰن نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ اولڈ علی گیرین ہونے کے ناتے وہ سرسید پر کوئی علمی کام کرنا چاہتے تھے۔ اُن کے ذہن میں کلیات سرسید تیار کرنے کی خواہش تھی۔ 2017ء میں جب عالمی طور پر سرسید کی دو صد سالہ تقریبات منائی جارہی تھیں، اس سلسلے میں دہلی کی علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی طرف سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ انجینئرنگ کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں عالمی اردو ٹرسٹ، نئی دہلی کی طرف سے بحیثیت چیئرمین اے رحمٰن نے ’’کلیات سرسید‘‘ کی تیاری اور اشاعت کا اعلان کیا۔ لیکن یہ کام تن تنہا کرنے کا نہیں تھا، لہٰذا وہ کسی فعال اور باصلاحیت معاون کی تلاش میں رہے، اور یہ تلاش تین سال بعد اُس وقت پوری ہوئی جب اُن کی ملاقات ڈاکٹر عطا خورشید سے ہوئی، اور جب اُن کی تیار کردہ ببلیوگرافی دیکھی تو اُنھیں اپنا خواب شرمندئہ تعبیر ہوتا معلوم ہوا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ اُسی وقت سے مواد کی فراہمی کا کام شروع کردیا اور صدی تقریبات کے حوالے سے یوم صدی تقریبات 2020ء میں اس کی رونمائی کو ضروری سمجھتے ہوئے اس کی جلد اول اور آخری جلد کی اشاعت کی گئی ہے۔
اے رحمٰن نے اپنی گفتگو کے درمیان یہ بھی بتایا کہ اس کلیات میں سرسید کی فارسی و عربی تحریروں کو ان کے اردو ترجمے کے ساتھ شائع کیا جائے گا تاکہ غیر فارسی و عربی داں طبقہ بھی ان تحریروں سے مستفید ہوسکے۔ اس سے قبل کے مجموعوں میں ترجمے کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ ترجمے کے لیے ماہر مترجمین کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر عطا خورشید نے بتایا کہ کلیات جلدوں پر مشتمل ہوگی اور سبھی جلدیں تقریباً 600سے زائد صفحات پر مشتمل ہوں گی۔ اگر کوئی جلد اس سے زائد صفحات پر ہوئی تو اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ فی الوقت پہلی اور آخری جلد شائع کی جارہی ہے۔ احتراماً اور تبرکاً پہلی جلد میں سیرۃ النبیؐ پر لکھے سرسید کے مقالات جمع کیے گئے ہیں، جبکہ آخری جلد میں مذہبی موضوعات پر لکھے گئے تقریباً 60 چھوٹے بڑے مقالات جمع کیے گئے ہیں ،جن میں نصف سے زائد ایسے مقالات ہیں جو سرسید کی وفات کے بعد پہلی بار منظرعام پر آرہے ہیں۔
کلیات سرسید عالمی اردو ٹرسٹ، نئی دہلی کی طرف سے شائع ہورہی ہے۔