حضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں قیصرِ روم نے اپنا سفیر مدینہ منورہ میں بھیجا۔ قاصد نے دارالخلافہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پہنچ کر لوگوں سے خلیفہ وقت کے محل کا پوچھا کہ وہ کہاں ہے تاکہ میں اپنا مال و اسباب وہاں تک پہنچائوں
قوم گفتندس کہ او را قصر نیست
مرعم را قصر جان روشنے ست
قوم نے کہا: ہمارے بادشاہ کا کوئی محل نہیں۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کا محل تو ان کی جانِ پاک ہے جو اللہ تعالیٰ کے تعلقِ خاص اور تجلیاتِ قُرب سے منور ہورہی ہے، جس نے انہیں سارے جہان کے شاہی محلات سے مستغنی کردیا ہے۔
قاصدِ روم نے دل میں سوچا یہ کیسا بادشاہ ہے جو عام لوگوں میں رہتا ہے۔ اس کا کوئی حفاظتی دستہ ہے نہ رہنے کے لیے کوئی عالی شان محل۔ راستے میں ایک اعرابی خاتون سے خلیفہ کا پتا پوچھا تو اس نے کہا ’’آپؓ قبرستان کے پاس ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے ہیں‘‘۔
قاصد جب وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ بے خوف و خطر زمین پر آرام فرما رہے ہیں، نہ تخت و تاج پاس ہے اور نہ ہی فوج و لشکر۔ قریب پہنچ کر جب اس نے آپؓ کے چہرۂ مبارک کی زیارت کی تو آپؓ کی ہیبت سے وہ کانپنے لگا، اور اپنے دل میں کہنے لگا:۔
’’میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو دیکھا ہے، اور ایک عمر تک سلطانوں کا ہم نشین رہا ہوں، مجھے کبھی کسی سے خوف تک محسوس نہیں ہوا۔ معلوم نہیں اس شخص کی ہیبت سے میرے اوسان کیوں خطا ہوگئے ہیں! اس سوئے ہوئے اکیلے آدمی کو دیکھ کر میرا جسم کانپ رہا ہے۔ اس مرد گدڑی پوش کی ہیبت نے تو میرے ہوش اڑا دیئے ہیں۔
بے سلاح ایں مرد خفتہ بر زمیں
من بھفت اندام لرزاں چیست ایں
یہ شخص بغیر کسی ہتھیار کے اور بغیر کسی فوجی پہرے کے زمین پر اکیلا سویا ہوا ہے۔ مجھ پر ایسا لرزہ طاری ہے کہ اگر مجھے سات جسم اور عطا ہوجائیں تو اس لرزے کا تحمل نہ کرسکیں۔ پھر وہ دل میں سوچنے لگا؎۔
ہیبت حق است ایں از خلق نیست
ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست
یہ رعب و ہیبت اس گدڑی پوش کی نہیں ہے، دراصل یہ اللہ کی ہیبت ہے کیونکہ اس گدڑی پوش بادشاہ کا قلب اللہ کے قرب اور معیتِ خاصہ سے مشرف ہے۔ پس یہ اسی معیتِ حق کا رعب و جلال ہے جو اس مردِ حق کے چہرے سے نمایاں ہورہا ہے‘‘۔ قاصد انہی باتوں میں کھویا ہوا تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ کی آنکھ کھل گئی۔
سفیرِ روم نے آگے بڑھ کر بڑے ادب کے ساتھ آپؓ کو سلام کیا۔ آپؓ نے نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا، سفیر کو اپنے پاس بٹھا کر تسلی دی اور قیصرِ روم کا پیغام وغیرہ لینے کے بعد آپؓ دیر تک اس کے ساتھ معرفت کی باتیں کرتے رہے۔
قاصد ِ روم آپؓ کے اخلاقِ حسنہ اور سادگی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے دل سے کفر و شرک کا زنگ دور ہوگیا۔ یہ قاصد حضرت عمرؓ کی صحبت کے فیض سے مشرف بہ اسلام ہوکر باطنی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ ؎۔
ہر کہ ترسد از حق و تقوی گزید
تر سداز وے جن و انس و ہر کہ دید
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:۔
’’جو خدا سے ڈرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے اس سے جن اور انسان سب ڈرتے ہیں، اور جو بھی اس کی طرف دیکھے گا اُس پر اس مردِ حق کی ہیبت غالب ہوگی‘‘۔
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
درسِ حیات: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان کا مقام و مرتبہ بلند فرما دیتا ہے۔