احادیث صحیحہ کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور رحمۃ للعالمین

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص خاموش رہا، اس نے نجات پائی۔ (احمد، ترمذی، دارمی)۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کے طور پر بھیجا، جیسا کہ ارشاد باری ہے:۔
’’اور اے نبیؐ! ہم نے تم کو تمام جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘(الانبیاء:21:107)۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انس و جن، مومن و کافر ہر ایک کے لیے رحمت اور ان کو اللہ کی طرف دعوت دینے والے ہیں تاکہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
’’آپ کہہ دیجیے (دنیا جہان کے) لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (پیغمبر) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو اللہ پر اور اس کے رسول پیغمبرامّی پر جو اللہ پر، اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتا ہے، ایمان لائو اور اس کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پائو۔‘‘(الاعراف:7:158)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے عالم کے لیے رحمت اور سب مخلوقات پر حجت ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں پر احسان ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:۔
’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انھیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک کرتا اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتا ہے۔ پہلے تو یہ لوگ صرف گمراہی میں تھے۔‘‘ (آل عمران:3:164)۔
ابونضرۃؓ سے روایت ہے کہ مجھے اس بندے نے جس نے ایام تشریق کے دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا تھا، بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ ایک ہے، خبردار! کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں، اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ پر برتری حاصل ہے، مگر تقویٰ سے‘‘۔ اس حدیث سے یہ واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ کسی شخص کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں اور نہ ان میں کوئی فرق ہے مگر تقویٰ کے لحاظ سے۔ جتنا انسان زیادہ تقویٰ رکھتا ہو، وہ دوسری رنگت رکھنے والوں اور زبان بولنے والوں سے زیادہ افضل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان و فضل سے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مکارم اخلاق کی ساری صفات مثلاً سخاوت، کرم، عفو، درگزر، بردباری، درست سوچ، نرمی، صبر، تواضع، عدل و انصاف، رحمت، احسان، شجاعت و قوت وغیرہ جمع کردی تھیں جو بے شمار لوگوں کے اسلام قبول کرنے اور ان کے جہنم سے آزاد ہونے کا سبب بنیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ خلق کی وجہ سے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں:۔
1۔ ثمامۃ بن اثال ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو اور درگزر کی وجہ سے اسلام قبول کیا، فرماتے ہیں: (اے نبیؐ) اللہ گواہ ہے روئے زمین پر کسی کا چہرہ مجھے آپؐ کے چہرے سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا لیکن آج آپؐ کے چہرے سے زیادہ مجھے کوئی اور محبوب نہیں، اللہ گواہ ہے کسی اور دین سے مجھے آپؐ کے دین سے زیادہ نفرت نہیں تھی لیکن آج آپؐ کا دین مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے، اللہ گواہ ہے کوئی شہر آپؐ کے شہر سے زیادہ مجھے مبغوض نہیں تھا لیکن آج آپؐ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔
2۔ ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا، جب صحابہ نے اسے ڈانٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا۔ یہ اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو اور مہربانی سے متاثر ہوکر کہنے لگا: ’’اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما، اور ہم دونوں کے سوا کسی اور پر رحم نہ فرما۔‘‘ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نصیحت آمیز اور تعلیمی انداز میں فرمایا:’’تم نے اللہ کی وسیع رحمت کو تنگ کردیا۔‘‘
3۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ بن الحکمؓ سے ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں نرمی فرمائی تو انہوں نے کہا: ’’میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوجائیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھا معلم اور بہترین تعلیم دینے والا دیکھا۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے جھڑکا، نہ مارا، نہ برا بھلا کہا۔‘‘