جو قوم فاقہ مستی اور سائنسی خلا میں کھڑے ہوکر ایٹم بم بنا سکتی ہے اُسے نظریے کی قوت اور قائدانہ بصیرت حاصل ہوجائے تو وہ عالمی قوت بھی بن سکتی ہے
وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ پاکستان کو ایک عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کی حکومت پاکستان کو ایک خود انحصار ملک اور مستقبل کی عالمی طاقت بنانے کی خواہاں ہے۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 8 اکتوبر 2020ء)۔
پاکستان کے حکمرانوں میں پاکستان کو کچھ نہ کچھ بنانے کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ کوئی حکمران پاکستان کو جاپان بنانا چاہتا ہے، کوئی پاکستان کو کوریا میں ڈھالنا چاہتا ہے، اب عمران خان نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو مستقبل کی عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمران جب پاکستان کو کچھ بنانے کا اعلان کرتے ہیں تو اُن کی بات میں ’’خطابت‘‘ تو ہوتی ہے، ’’صداقت‘‘ اور ’’یقین‘‘ نہیں ہوتا۔ مولانا مودودیؒ کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔ اس فقرے کا ایک ایک لفظ یقین میں ڈوبا ہوا ہے۔ مولانا کو اپنی روح کی گہرائیوں میں معلوم تھا کہ اگر مسلمان قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھیںگے تو کوئی طاقت انہیں دنیا پر غالب آنے سے نہیں روک سکے گی۔ مولانا کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ مسلمان ماضی میں قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھے تھے اور پوری دنیا پر چھا گئے تھے۔ چنانچہ جو ماضی میں ہوچکا ہے وہ حال اور مستقبل میں بھی ہوسکتا ہے۔ یہ صرف مولانا کی بات نہیں، دنیا کا ہر بڑا لکھنے والا، دنیا کا ہر بڑا مدبر اور رہنما اپنے ایمان اور ایقان سے ایک نئی دنیا خلق کرتا ہے۔ ذرا اقبال کی نظم کے یہ اشعار تو ملاحظہ کیجیے:۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا
کبھی جو آمادۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
اقبال کے ان اشعار کا ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ اقبال جو کچھ کہہ رہے تھے اس پر انہیں کامل یقین تھا۔ یہ صرف خطابت نہیں تھی… اس خطابت میں صداقت اور یقین بھی موجود تھا۔ اقبال کی یہ پکار کوئی سیاسی بیان نہیں تھا… بلکہ یہ ان کی روح سے بلند ہونے والی صدا تھی۔ اقبال کی صدا کے ایک حصے کو ہم نے حقیقت بنتے دیکھا ہے۔ امتِ مسلمہ میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوئی، اس نے پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم کی۔ مسلم امہ میں جگہ جگہ اسلامی تحریکیں نمودار ہوئیں۔ جہاں تک مغربی تہذیب کا معاملہ ہے تو ہم سب اسے بحران میں مبتلا ہوتے دیکھ رہے ہیں، اور مغربی تہذیب کے بحران کی اطلاع اب خود مغرب کے دانش ور دے رہے ہیں۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے یقین میں ڈوبی ہوئی ایک اور شخصیت پیدا کی۔ یہ تھے قائداعظم محمد علی جناح… ذرا قائداعظم کے یہ دو بیانات تو پڑھیے۔ قائداعظم نے 24 نومبر 1945ء کو پشاور میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں، ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، ایک نبیؐ کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگ انہیں سیاسی طور پر ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ یہاں ہمارا کوئی دوست نہیں۔ انگریز ہمارے دوست ہیں نہ ہندو۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہمیں ان دونوں کے خلاف لڑنا ہے۔ اگر یہ دونوں ہمارے خلاف متحد ہوجائیں تب بھی ہم ان سے نہیں ڈریں گے۔ ہم ان کی مشترکہ قوت سے ٹکرائیں گے اور اِن شا اللہ فتح بالآخر ہماری ہوگی‘‘۔
قائداعظم نے 26 فروری 1948ء کو امریکی میڈیا کے نام ایک پیغام میںکہا:۔
’’پاکستان وہ پہلی اسلامی ریاست ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی ریاست کا درجہ رکھتی ہے۔پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا دستور نہیں بنایا، مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی حتمی صورت کیا ہوگی۔ البتہ مجھے اتنا یقین ہے کہ یہ جمہوری طرز کا ہوگا جو اسلامی اصولوں کا مظہر ہوگا۔ یہ اصول عملی طور پر آج بھی اسی طرح قابلِ اطلاق ہیں جس طرح 1300 سال پہلے تھے‘‘۔
قائداعظم کی ان گفتگوئوں سے ثابت ہے کہ انہیں 1945ء میں یقین تھا کہ اگر انگریز اور ہندو متحد ہوگئے تب بھی پاکستان ضرور بنے گا۔ اور پاکستان بنا۔ اسی طرح قائداعظم کو یقین تھا کہ اسلام آج بھی اسی طرح قابلِ اطلاق ہے جس طرح وہ 1300 سال پہلے قابلِ اطلاق تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک عالمی طاقت بن سکتا ہے؟
یہ حقیقت راز نہیں کہ پاکستان پیدائشی طور پر ایک عالمی طاقت تھا۔ پاکستان کے نظریے، قائداعظم کی بصیرت اور برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کے اتحاد نے اسے ’’تاریخ کے عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں لاکر دکھایا تھا، اور یہ ایک بہت بڑا پُرامن انقلاب تھا۔ یہ ایک ’’سیاسی انہونی‘‘ تھی جس کی توقع نہ انگریزوں کو تھی، نہ ہندوئوں کو۔ انگریز دنیا کی واحد سپر پاور تھے اور ہندو بھارت کی غالب اکثریت تھے۔ ان سے لڑنا آسان نہیں تھا، اور ان سے لڑ کر فتح یاب ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ مگر نظریے کی طاقت، قائداعظم کی قیادت کی بصیرت، اور عوام کے اتحاد کی قوت نے ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیا۔ پاکستان ’’ناممکن کی جستجو‘‘ تھا، مگر اسے پاکستان کے نظریے نے ’’ممکن کی جستجو‘‘ بناکر کھڑا کردیا۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں سارے انقلابات نظریے کی بنیاد پر آئے ہیں۔ فرانس کے انقلاب کی پشت پر آزادی اور جمہوریت کا نظریہ تھا۔ روس اور چین کے انقلابات کی پشت پر سوشلزم ایک نظریے کی حیثیت سے موجود تھا۔ پاکستان کی تخلیق کی پشت پر اسلام کی قوت تھی۔ جو نظریہ پاکستان کو ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں لاسکتا ہے، وہ نظریہ آج پاکستان کو عالمی طاقت بھی بنا سکتا ہے۔ زندگی کا ایک بنیادی اصول ہے ’’بڑا سوچو اور بڑے بن جائو‘‘۔ اقبال نے بڑا سوچا اور بڑے بن گئے۔ مولانا مودودی نے بڑا سوچا اور بڑے بن گئے۔ قائداعظم نے بڑا سوچا اور پاکستان بناکر دکھا دیا۔ مگر بڑا سوچنے والے کو بڑا کردار بھی پیدا کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ بڑا سوچنے کا مطلب شیخ چلی بن جانا نہیں۔ جو بڑا سوچتا ہے اُسے بڑا سوچنے اور بڑا عمل کرنے کے تقاضے بھی پورے کرنے پڑتے ہیں۔
پاکستان کے عالمی قوت ہونے کی بات پاکستان کے نظریے سے قطع نظر بھی مذاق نہیں۔ پاکستان تخلیق ہوا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھا۔ عالمی برادری میں اس کا نمبر پانچواں تھا، یعنی وہ دنیا کی پانچویں بڑی ریاست تھا۔ آج پاکستان متحد ہوتا تو اس کی آبادی40 کروڑ ہوتی۔ وہ دنیا میں چین، بھارت اور یورپی یونین کے بعد چوتھی بڑی منڈی ہوتا۔ اس کا اثر ایک جانب بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں پر ہوتا، دوسری جانب وہ مشرق وسطیٰ پر اثرانداز ہوتا، تیسری جانب اس کی جڑیں وسطی ایشیا تک پھیلی ہوتیں۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے نظریے سے غداری کرتے ہوئے پاکستان کو آدھا کر دیا۔ لیکن یہ آدھا پاکستان بھی کم اہم نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان بچا کھچا پاکستان تھا۔ یہ پاکستان سوئی بھی نہیں بناتا تھا، مگر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو صاحب ایٹم بم کے حوالے سے بڑا سوچ رہے تھے، اور یہ بڑی سوچ بالآخر حقیقت بن کر ابھری۔ بھٹو صاحب نے ایٹم بم بنانے کی آرزو کی، اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس آرزو کو حقیقت بنایا اور پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ایٹم بم کے سلسلے میں کامل قومی اتفاقِ رائے موجود تھا۔ اس سلسلے میں سول اور فوجی کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ بھٹو صاحب ایٹم بم کے لیے جتنا بے تاب تھے جنرل ضیا الحق بھی ایٹم بم کے سلسلے میں اتنا ہی بے تاب تھے۔ اس قومی اتفاقِ رائے نے ایک بار پھر ناممکن کو ممکن بنادیا۔ چنانچہ ہماری تاریخ کی صورت یہ بنی: قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر قدیر نے پاکستان بچایا۔ اقبال نے کہا ہے ؎۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
پاکستانی قوم نے ایٹم بم کے سلسلے میں یقینِ محکم کا مظاہرہ کیا اور عملِ پیہم پیش کیا۔ نتیجہ یہ کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم میں امکانات موجود ہیں، مگر امکانات کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے نظریاتی قوت ہمارے پاس نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے ایٹم بم بھی ایک نظریاتی تناظر میں بنایا۔ بھارت کا خوف نہ ہوتا تو ہم ایٹم بم بھی نہیں بنا سکتے تھے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جو قوم فاقہ مستی اور سائنسی خلا میں کھڑے ہوکر ایٹم بم بنا سکتی ہے اُسے نظریے کی قوت اور قائدانہ بصیرت حاصل ہوجائے تو وہ عالمی قوت بھی بن سکتی ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ سوویت یونین افغانستان میں آیا تو پاکستان کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ لاحق ہوگیا۔ اس صورتِ حال میں جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا، اور دس سال کی مزاحمت کے بعد بالآخر سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوگئی۔ بلاشبہ اس شکست میں جہاد اور مجاہدین کا کردار بنیادی تھا، لیکن یہ جہاد پاکستان کی مدد کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں مزاحمتی عمل کی حمایت اُس وقت کی جب امریکہ افغان جہاد کے حوالے سے کہیں موجود نہ تھا۔ پاکستان کی نظریاتی قوت تھی جس نے اسے سوویت یونین کے خلاف صف آراء بھی کیا اور اسے کامیاب بھی بنایا۔ پاکستان کی نظریاتی قوت ایک سپرپاور کو منہ کے بَل گرا سکتی ہے تو پاکستان کو عالمی طاقت بھی بنا سکتی ہے۔
کھیل زندگی کا بہت ہی معمولی شعبہ ہے، مگر ہمارے حکمرانوں نے کھلاڑیوں کی سرپرستی کی، انہیں اداروں کا معاشی تحفظ فراہم کیا، انہیں ذرائع ابلاغ کی شہرت مہیا کی، چنانچہ ہم نے کرکٹ میں عمران خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد، سرفراز نواز، ماجد خان، آصف اقبال، وسیم اکرم، شعیب اختر اور وقار یونس جیسے عالمی سطح کے کرکٹر پیدا کیے۔ ہم نے ہاکی میں صلاح الدین، شہناز، سمیع اللہ، کلیم اللہ، منظور جونیئر اور حنیف خان جیسے کھلاڑیوں کو جنم دیا۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان اسکواش، ہاکی اور کرکٹ میں عالمی نقشے پر موجود تھا اور پوری دنیا ہمارے کھلاڑیوں کی عالمی سطح کی اہلیت و صلاحیت کو تسلیم کرتی تھی۔ ہم کھیل کی سرپرستی کرکے پاکستان کو کھیل کی عالمی طاقت بنا سکتے ہیں تو ہم علم اور عالموں کی سرپرستی کرکے علم و دانش کے دائرے میں بھی عالمی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے علم و دانش کی سرپرستی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں ہے۔ انہیں عالم فاضل قوم نہیں، ایک جاہل قوم درکار ہے۔ اس لیے کہ قوم پڑھ لکھ گئی تو وہ پاکستان کی نااہل اور کرپٹ فوجی اور سیاسی اشرافیہ کو کیوں برداشت کرے گی؟ وہ چار دن میں اُن کے خلاف بغاوت کردے گی۔ چنانچہ پاکستان کے حکمران طبقے نے بڑی کدوکاوش کے ساتھ پاکستانی قوم کو علم اور شعور سے دور رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت ملک کے نظریے سے گہری جذباتی وابستگی رکھتی ہے، چنانچہ اسے نظریاتی شعور سے آراستہ کیا جائے تو وہ علم و دانش اور ایجاد و اختراع کے میدان میں بھی کارنامے سرانجام دے کر دکھا سکتی ہے۔