حکمراں طبقہ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہے
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم مانتے ہیں عوام مہنگائی سے پریشان ہیں، اور ہم اسی ہفتے عوام کو مہنگائی سے ایک بڑا ریلیف دینے کی کوشش کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب اپوزیشن جماعتوں نے 16 اکتوبر سے ایک بڑے جلسے سے حکومت مخالف تحریک کے آغاز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن کے اعلان کے مطابق یہ تحریک ملک گیر ہوگی اور حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے دبائو کو کم کرنے کے لیے کسی حد تک عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے، مگر کیا واقعی یہ ممکن ہوسکے گا؟ کیونکہ پاکستان کی ریاست، حکومت اور معاشرے کے بڑے بڑے بحرانوں یا مختلف نوعیت کے مسائل میں ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ جو عمومی طور پر عام لوگوں کی ضرورت سے جڑا ہوا ہے وہ خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ہے۔ ہماری بڑی بڑی سیاسی بحثوں میں عام لوگوں کے بنیادی مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں، یا یہ حکمران طبقات کی اوّلین ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست، جمہوریت اور عام فرد کے درمیان ایک بڑی سیاسی خلیج پائی جاتی ہے۔ اس وقت قومی سطح پر جو بحث عام آدمی سے جڑی ہوئی ہے وہ مہنگائی کی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی کو حکمرانی کے اس نظام سے فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف ملنے کی امید کم ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ روزانہ کی بنیادوں پر بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی بڑے بڑے سیاسی دعوے تبدیلی کے تناظر میں کیے تھے۔ ابتدا میں عمران حکومت کا بیانیہ یہی تھا کہ ہمیں اقتدار مشکل اور بحران کی حالت میں ملا ہے اور فوری ریلیف ممکن نہیں۔ اسی طرح زیادہ تر غلطیوں کو سابقہ حکمران طبقات سے جوڑا گیا تھا کہ ان کی غیر منصفانہ معاشی پالیسیوں کے باعث حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتوں کے پاس ایسا کوئی جادوئی فارمولا نہیں ہوتا کہ وہ راتوں رات حالات کو تبدیل کرسکیں۔ اس لیے جو بڑے بڑے سیاسی دعوے عمران حکومت نے کیے تھے ان میں بھی جذباتیت کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ لیکن اب کیونکہ اس حکومت کو دو برس سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا ہے اور یہ حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے، اس لیے اب جب حکمران طبقہ محض سابقہ حکمرانوں پر الزامات لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حکمت عملی عوام میں قبولیت حاصل نہیں کرپاتی۔
چینی، آٹا، ادویہ، بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات،کھانے پینے کی روزمرہ کی اشیا، علاج معالجہ کی مہنگائی سمیت بہت سے بنیادی مسائل پر عوام میں یقینی طور پر انتہائی بے چینی پائی جاتی ہے۔ حکمران طبقہ عوام کو ریلیف دینے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ اگرچہ ’احساس پروگرام‘ سمیت کچھ پروگراموں کی مدد سے عام یا کمزور طبقات کو معاشی ریلیف بھی دیا جارہا ہے، لیکن مجموعی طور پر عوام واقعی بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ایسے میں حکمران طبقات ہوں یا حزبِ اختلاف… ان کے مسائل بھی عوام سے جڑے نظر نہیں آتے۔ سیاست کے ان بڑے لوگوں کے مسائل بڑی نوعیت کے ہیں جن میں ذاتیات پر حملے، الزام تراشی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، حکومتوں کو گرانے یا حکومتوں کو اپنی سطح پر مضبوط بنانے کے منفی کھیل نمایاں ہیں۔
18ویں ترمیم کے بعد جس فعال اور متحرک انداز میں صوبائی حکومتوں کو اپنی اپنی صوبائی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنا، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری یا جعلی اشیا کی فراہمی کو روکنا تھا اس میں یہ عملاً ناکام نظر آتی ہیں۔ اب وفاق سے زیادہ صوبائی حکومتیں حکمرانی کے بحران کی براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ ان ہی صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے صوبوں میں مقامی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو بھی مفلوج یا یرغمال بنایا ہوا ہے۔ صوبائی حکومتیں سارے بحران کا ملبہ وفاق پر ڈالتی ہیں، جبکہ اب اصل ذمہ داری ان ہی صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح مہنگائی کو قابو کرنے یا کم کرنے کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان جو مؤثر رابطہ کاری یا تعاون درکار ہے اس کا بھی واضح فقدان نظر آتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی سطح پر کوئی مؤثر نگرانی، جواب دہی اور شفافیت کا نظام نظر نہیں آتا۔ اس کی بنیادی وجہ خود بیوروکریسی کا نظام بھی ہے جو عام آدمی کے مفاد سے زیادہ اپنے مفادات کے تحت کام کرتا ہے۔ خود منتخب سیاسی لوگ جو ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی ہیں، اپنے آپ کو اس نظام میں بے اختیار سمجھتے ہیں، اور اس کی بڑی وجہ جہاں حکومتی پالیسی ہے، وہیں وہ اس بحران کو بیوروکریسی کے نظام سے بھی جوڑتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی سطح پر ایسی پالیسیوں، فیصلوں یا عمل درآمد کے نظام سے جڑے معاملات جو براہِ راست لوگوں کا معاشی استحصال کرتے ہیں، ان کی جوابدہی کا کوئی مؤثر نظام نہیں۔ جن لوگوں نے ملک میں چینی اور آٹے کا بحران پیدا کیا وہ تاحال احتساب کے شکنجے میں نہیں جکڑے جاسکے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ بات کھل کر تسلیم کرنی ہوگی کہ وجوہات جو بھی ہیں اور مہنگائی کا جو بھی جواز درست یا غلط ہے، لوگ ان کی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کررہے ہیں۔ کیونکہ حکومت کا کام مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے، اور عوام کو ریلیف ملنے سے ہی حکومتوں کی ساکھ اور شفافیت قائم ہوتی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی براہِ راست حکومت ہے، ان دونوں صوبوں میں کچھ نہ ہونا یا بہتری نظر نہ آنا پی ٹی آئی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی سے جڑا سوال ہے، اور اس کا ردعمل عوام میں بتدریج بڑھ رہا ہے۔
حکمران طبقے کو سمجھنا ہوگا کہ محض بلند بانگ سیاسی نعروں، تقریروں یا جذباتیت پر مبنی گفتگو سے عام آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا، اس کو ہر صورت میں معاشی ریلیف درکار ہوتا ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے تو دوسری طرف بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی کیفیت ہے، ایسے میں کمزور، غریب یا بدحال لوگ کہاں جائیں؟ نئے لوگوں کو روزگار دینا تو دور کی بات، پہلے سے صاحبِ روزگار لوگوں کو جس برے طریقے سے بے روزگاری کا سامنا ہے وہ بھی سنگین بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ ایسی ٹھوس حکمت عملی، قانون سازی یا پالیسی سازی سمیت عمل درآمد کے نظام میں کوئی بڑی بنیادی تبدیلی نہیں کرسکے جو عام لوگوں کی حالت کو بدل سکے۔ وزیراعظم کو سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی کے جن کا علاج کسی روایتی اور فرسودہ پالیسی یا حکمت عملی سے ممکن نہیں۔ اس وقت مہنگائی کی جو غیر معمولی صورت حال ہے اُس میں واقعی غیر معمولی اور سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
اصولی طور پر مہنگائی کے خاتمے کے لیے سخت ’’ایمرجنسی‘‘ نافذ کرنا ہوگی۔ یہ کام اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت میں موجود تمام فریق یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتیں یا انتظامیہ مل بیٹھ کر کچھ علاج تلاش نہ کریں۔ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی بڑھتی ہوئی تشویش اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور فوری طور پر چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت مہنگائی سے جڑی وزارتوں اور بیوروکریٹس کو بلاکر ایک ہنگامی حکمت عملی یا پالیسی اختیار کریں۔ اس طرز کا اجلاس اس ہنگامی صورت حال کے پیش نظر ماہانہ یا دو ماہ کی بنیاد پر بلایا جائے، اور خود وزیراعظم اس اجلاس کی صدارت کریں اور جواب طلبی بھی کریں، تاکہ یہ احساس پیدا ہوکہ یہ مسئلہ حکومتی ترجیحات کا حصہ ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو جوابدہ بنانا ہوگا کہ وہ اس بحران کے حل میں کیا کچھ کررہی ہیں، اورکیا ٹھوس اقدامات ان کے پاس ہیں؟ یا کیا کچھ ان کو وفاق سے درکار ہے؟ تب ہی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کا علاج ممکن ہوسکے گا۔