اسلام آباد وقف قانون منسوخ کیا جائے

غیر اسلامی قانون سازی کے خلاف سراج الحق کی سینیٹ میں تحریک

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق ایک متحرک سیاست دان ہیں، ان کی کوشش ہے کہ جماعت اسلامی کو ملکی سیاست، عوامی ایشوز اور ملک میں آئین کے حقیقی تقاضوں کی روشنی میں قانون سازی کے عمل سے گزارا جائے، ایسے قانون بنائے جائیں جس سے ملک کا اسلامی، نظریاتی تشخص برقرار رہے۔ قومی ایشوز ہوں یا عوامی، وہ پارلیمنٹ میں فعال کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر منی لانڈرنگ سمیت قانون سازی کے لیے آٹھ مسودوں کی منظوری ہوئی، یہ قانون سازی اگر مکمل بحث اور ہر محرک کو اظہارِ خیال کا مکمل موقع دے کر کی جاتی تو بہتر فضا بنتی، مگر حکومت نے جیسے یہ طے کررکھا تھا کہ وہ تنہا ہی عالمی اداروں کی نیازمندی حاصل کرکے رہے گی، لہٰذا اس نے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بلڈوز کرکے قانون سازی کی۔ جماعت اسلامی اس قانون سازی کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے نام پر منظور کردہ  اسلام آباد دارالحکومت علاقہ جات وقف املاک ایکٹ 2020کے قانون بھی منظور کیے گئے۔ سینیٹر سراج الحق نے ایف اے ٹی ایف کے نام پر منظور کردہ  اسلام آباد دارالحکومت علاقہ جات وقف املاک ایکٹ 2020کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس قانون کی منسوخی کا باقاعدہ نوٹس سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ یہ نوٹس پارلیمانی قاعدے کی پیروی کرتے ہوئے سینیٹ کے قواعد وضوابط مجریہ 2012کے قاعدہ 94کے تحت جمع کرایا گیا ہے۔ اس قانون کو منسوخ کرنے کے لیے جو بل جمع کرایا گیا ہے اس کے اغراض ومقاصد میں لکھا گیا ہے کہ فیٹف کے نام پر منظورہ کردہ وقف املاک سے متعلق موجودہ قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کرکے ان اداروں کے لیے املاک وقف کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جوکہ سراسر ایک اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کے بھی منافی ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 227 (1)کے مطابق اسلام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ بل میں وقف کی شرعی حیثیت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وقف کا اسلامی تعلیمات میں بہت اہم مقام ہے، وقف خالصتاً اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ موجودہ ایکٹ جوکہ ایف اے ٹی ایف کے نام پر منظور کیا گیا ہے، موجودہ قانون میں وقف کے اسلامی تصور کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور موجودہ وقف کا قانون بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف کمشنر کے نامزد کردہ ناظم اعلیٰ اوقاف کو لامحدود اختیارات دے دیے گئے ہیں اور اس کو مساجد، مدارس، دینی اداروٖں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے چلنے والے اداروں کا مختارِ کل بنادیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ  دینی مدارس جوکہ لاکھوں طلبہ و طالبات کی تعلیم، رہائش، خوراک کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں اور معاشرے کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی بے لوث جدوجہد کررہے ہیں، ان کو ایک فرد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ وقف کرنے سے پہلے رجسٹریشن کرانے کے حوالے سے شرائط اور طریقہ کار وقف کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ وقف کی رجسٹریشن کے لیے جو طریقہ کار دیا گیا ہے وہ انتہائی مشکل اور ان اداروں کو ختم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ پہلے سے رجسٹرڈ اداروں کو دوبارہ تکلیف دہ صورتِ حال سے لازمی گزرنے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔ وقف کے ادارے کو کارپوریٹ ادارہ بنانے سے وقف کو ایک تجارتی اور مالی مفاد کا ادارہ بنادیا گیا ہے، جوکہ اس کی اسلامی روح کے خلاف ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ناظمِ اعلیٰ کو بذریعہ اعلامیہ اختیار دینا ٹھیک نہیں کہ وہ کسی بھی وقت وقف املاک کا قبضہ، اس کا انتظام و انصرام، کنٹرول اور دیکھ بھال اپنے زیر اختیارکرلے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق کسی بھی دینی خدمات، تقاریب، مذہبی، روحانی رسومات کی ادائیگی کے لیے ناظمِ اعلیٰ سے پیشگی اجازت  لینی پڑے گی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں ڈھائی کروڑ تک جرمانے کا اختیار ناظم اعلیٰ کو دیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ناظم اعلیٰ اوقاف کے حکم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا! اس قانون کے ذریعے سرکار نے وقف کے تحت قائم اداروں کو اپنی تحویل میں لینے کا انتظام کیا ہے۔ ناظم اعلیٰ اوقاف کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مذہبی اسلامی اداروں کو تعلیم دینے، تدریس کے لیے نصاب بنانے کے لیے ہدایات جاری کرے۔ بل کے اغراض ومقاصد کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں صدقہ، خیرات، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی بے پناہ ترغیب ملتی ہے۔ لہٰذا مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی خاطر املاک اور اموال وقف اور خرچ کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ موجودہ قانون کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت میں وقف کیے گئے یا وقف کی جانے والی جائدادیں، اداروں کو قائم کرنا اور چلانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا اس قانون کا منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔
اس نوٹس کے لیے سینیٹ کے اجلاس کا انتظار ہے اور جماعت اسلامی کی کوشش ہوگی کہ وہ اسے ایوان میں پیش کرے اور ایوان سے اس کی منظوری لی جائے۔ اب سینیٹ کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے لیے سوال ہے کہ کیا وہ اس کی حمایت کریں گی؟
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020کو بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے باقاعدہ نوٹس سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ نوٹس سینیٹ کے قواعد و ضوابط مجریہ 2012کے قاعدہ 94کے تحت جمع کرایا گیا ہے۔ اس قانون کو منسوخ کرنے کی وجوہات میں لکھا گیا ہے کہ موجودہ قانون منظور ہونے سے قبل پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ایک اتھارٹی تھی جس کی ملک کے اندر طب کے امور کی نگرانی کی ذمہ داری تھی، جس کے پاس میڈیکل اور ڈینٹل ڈگری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے،کلیئرنس سرٹیفکیٹ، تجرباتی سرٹیفکیٹ اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کو بیرونِ ملک ملازمت کے لیے میڈیکل کلیئرنس لیٹر جاری کرنے کا بھی اختیار تھا۔ اس سے قبل میڈیکل کے شعبے میں داخلے کے بعد پانچ سال میں پانچ امتحانات ہوتے تھے، اس کے بعد پروویژنل میڈیکل سرٹیفکیٹ ملتا تھا اور ڈاکٹر ہائوس جاب کے لیے اہل ہوتے تھے۔ اب پانچ امتحانات دینے کے بعد ہاؤس جاب کے لیے چھے ماہ بعد دوبارہ امتحان دینا پڑے گا اور ہاؤس جاب کے بعد ایگزٹ امتحان دینا پڑے گا۔ جبکہ موجودہ قانون کے مطابق میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو لامحدود اور بغیر ریگولیشن کے خودمختاری دی گئی ہے جو کہ اہم شعبے میں عوام کی صحت کے تحفظ پر سمجھوتا کرنے کے مترادف ہے۔کالجوں کو اسٹاف بڑھانے اور فیسوں کے تعین کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ موجودہ قانون کے منظور ہونے سے  میڈیکل کے شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات پر آئے روز فیسوں میں اضافے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون کی شق (1)4کے مطابق کونسل جو کہ کمیشن کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی مجاز ہے، اس میں میڈیکل شعبے کے ماہرین کے بجائے غیر متعلقہ افراد کو ممبرز بنایا جائے گا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ قانون کی شق(2a) 8کے مطابق ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے فارغ کرنے کا اختیار حاصل کرلیا گیا ہے تاکہ ملازمین کے سروں پر کسی بھی وقت برطرفی اور فارغ کرنے کی تلوار لٹکتی رہے۔ جبکہ اس سے قبل ممبرز کی تقرری کا کافی حد تک شفاف طریقہ کارتھا اور ڈاکٹروں کے نمائندہ افراد ہی ممبر بنتے تھے، لیکن اب ممبرز کی تقرری کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو دے دیا گیا ہے، اور ممبرز کی اہلیت بھی ڈاکٹروں کے شعبے سے متعلق نہیں ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق طبی شعبے کے نصاب کی تیاری اور چیکنگ کا اختیار ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے جو کہ طبی شعبے کے ساتھ زیادتی ہے اور اس طرح طب کا شعبہ بالکل ہی ختم ہوجائے گا۔ اس سے قبل بیرون ملک سے جو ڈاکٹر تعلیم مکمل کرکے پاکستان آتے تھے ان کو پی ایم ڈی سی کے پاس ٹیسٹ دینا ہوتا تھا، لیکن اچانک اس قانون کے ختم ہونے سے ان سب کے مستقبل کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ صدرِ پاکستان نے 20اکتوبر 2019ء کو پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 جاری کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل اور تمام ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردیا تھا، اورآرڈیننس کو سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس کو سینیٹ نے نامنظور کرتے ہوئے مسترد کردیا۔ میڈیکل کے شعبے کے مختلف افراد کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذکورہ آرڈیننس کو چیلنج کیا گیا، جس کو ہائی کورٹ نے ختم کردیا، اور اپنے فیصلے میں کچھ قانونی نکات اٹھائے تاکہ حکومت قانون سازی کرتے ہوئے ان کو بھی مدنظر رکھے۔ لیکن حکومت نے انتہائی عجلت کے ساتھ اس قانون کو مورخہ 16ستمبر 2020ء کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں اُس وقت منظور کرلیا جب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ جاری قانون سازی کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ پر تھے۔