دہشت گردی کا” بھارتی“ چہرہ؟۔

ترجمہ : ابو الحسن اجمیری

معروف امریکی جریدے ’فارن پالیسی‘ نے گزشتہ دنوں ایک مضمون کے ذریعے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کا کردار بھی ایسا نہیں کہ نظرانداز کردیا جائے۔ اس مضمون میں رافیلو پینٹوشی نے جہادی تنظیموں کے رابطے بھارتی سرزمین پر موجود جہادیوں سے جوڑنے اور ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ مضمون دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف تو یہ بتایا گیا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند بھی کم نہیں، اور وہ بھی دنیا کو خرابیوں کی طرف مزید دھکیلنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، اور دوسری طرف جہادیوں کی نئی تصویر دکھانے کی سعی کی گئی ہے، یعنی یہ کہ جہادیوں نے بھارتی سرزمین کو بھی مسکن بنایا ہے۔ اس دو دھاری تلوار جیسے مضمون کا بنیادی مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو ایک طرف تو بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی سرگرمیوں پر متوجہ ہونا چاہیے اور دوسری طرف بھارتی مسلمانوں میں پائے جانے والے جہادیوں کی سرگرمیاں کنٹرول کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اس نوعیت کے تجزیے بھارتی مسلمانوں کی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ کرسکتے ہیں، کیونکہ جہادیوں کا نام لے کر ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ کو مزید ہموار کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
’فارن پالیسی‘ کے زیرِ نظر مضمون کو پاکستان بھر کے اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا۔ چند اخبارات نے اِسے شہ سُرخی کا درجہ بھی دیا۔ اس نوعیت کے تجزیوں پر مبنی خبریں شائع کرتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ تجزیہ کار بین السطور کیا کہنا چاہتا ہے۔ مضمون میں بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی اُس سفاک ذہنیت کا تجزیہ نہیں کیا گیا جس نے بھارتی مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ خیر، یہ مضمون اس قابل ہے کہ اِسے پورا کا پورا پڑھا جائے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ مغرب کا ذہن آج بھی ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کا ماہر اور عادی ہے۔ یہ فن ہمیں بھی سیکھنا چاہیے۔

…٭…٭…

اب جبکہ دنیا بھر میں اسلامو فوبک اور یہودی مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے سفید فام انتہا پسند شہ سُرخیوں میں ہیں، دہشت گردی پر توجہ کا مرکز تبدیل ہوچکا ہے۔ بہت سے ماہرین انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کو دہشت گردی کے منبع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ طرزِفکر اسلامی جہادیوں کی تنظیم ’’داعش‘‘ کی جانب سے دنیا بھر کے نوجوانوں میں پھونکی جانے والی مقدس جنگ (جہاد) کی روح کو نظرانداز کردیتی ہے۔ داعش کے اثرات دنیا بھر کے جہادیوں میں نمایاں ہوئے اور اب بھارت اور وسطِ افریقا کے جہادیوں کی شکل میں بھی انہیں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اگست میں خراسان صوبے کی جلال آباد جیل پر حملے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقامی جہادیوں کے مقابلے میں بین الاقوامی انداز سے کام کرنے والے داعش کے جہادیوں کا طریق کار اور مطمحِ نظر کیا ہے۔ طالبان بھی اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے بے تاب رہتے ہیں مگر داعش کے حمایت اور تربیت یافتہ جہادیوں (اسلامک اسٹیٹ اِن خراسان پراونس یا آئی ایس کے پی) نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے بڑے پیمانے کے حملے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک طرف تو طالبان قطر میں امریکہ سے معاہدے کی خاطر بات چیت میں بہت سے مطالبات سے دست بردار ہوتے جارہے تھے اور دوسری طرف داعش کے جنگجوؤں میں ایک بین الاقوامی گروپ بھی شامل تھا جس کے متعدد ارکان کا تعلق افغانستان، بھارت، تاجکستان اور پاکستان سے تھا۔
طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ زیادہ حیرت انگیز دکھائی نہیں دیتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ داعش کے جنگجوؤں میں بھارت اور وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کی موجودگی ایک نئی حقیقت ہے۔ 2019ء میں ایسٹر کے موقع پر سری لنکا کے چرچ پر حملے، 2017ء میں سالِ نو کی آمد پر ترکی کے شہر استنبول میں حملے، اور 2017ء ہی میں نیویارک اور اسٹاک ہوم میں ٹرک حملے یہ بتاتے ہیں کہ جہادی اپیل اب دنیا بھر کے نوجوانوں کو متاثر کررہی ہے اور اس کے اثر و نفوذ کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ حملوں کی منصوبہ بندی اور منصوبے پر عمل کے حوالے سے وسطِ ایشیا اور جنوبی ایشیا کے جہادیوں کا بڑھتا ہوا کردار انتہائی خطرناک اثرات کا حامل ہے۔
وسطِ ایشیا اور بھارت کے لیے جہادی نظریات نئے نہیں۔ 1990ء کے اوائل میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد تاجکستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں بھی جہادی فیکٹر نمایاں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاجکستان میں جہادیوں کے خلاف حمایت اصلاً شمالی افغانستان سے ابھری۔ طالبان اور القاعدہ کے خلاف لڑائی جاری تھی۔ تاہم یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بہت سے نوجوان بالآخر القاعدہ کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ نائن الیون کے بعد جب القاعدہ پر افغانستان کی سرزمین تنگ کردی گئی تب اُس نے وادیٔ فرغانہ کو اپنا گڑھ بنایا جس کی سرحد ازبکستان، تاجکستان اور کرغیزستان پر محیط تھی۔ تینوں ریاستوں کے سرحدی علاقوں میں ایسی برادریاں آباد تھیں جو اپنے اپنے دارالحکومت کے خلاف لڑتی رہتی تھیں۔ دی اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، جندالخلافہ، دی اسلامک جہاد یونین اور متعدد تاجکستانی گروہوں نے وہ نیٹ ورک فراہم کیے جن کی مدد سے وسطِ ایشیا کے لوگ بالآخر افغانستان اور پاکستان میں لڑتے پائے گئے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان گروہوں کے اثرات قدرے محدود تھے۔
بھارت میں جہادی نظریات کی تاریخ طویل ہے۔ تحریکِ دیوبند نے بھارتی سرزمین پر جنم لیا جو دوسروں کے ساتھ ساتھ طالبان کے لیے بھی تحریک و تحرک کا ذریعہ رہی ہے۔ انتہا پسند گروہوں نے (مقبوضہ) کشمیر میں بھی ایک ایسی لڑائی چھیڑ رکھی ہے جسے نامکمل جہادی ایجنڈے کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر کشمیری ایسے قوم پرست ہیں جو نئی دہلی سے نالاں ہیں، مگر انتہا پسند گروہوں نے کشمیر کی صورتِ حال کو ان مقامات میں شامل کررکھا ہے جہاں مسلمانوں کو غیر معمولی مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس ’’وراثت‘‘ کے باوجود بھارت اور وسطِ ایشیا کی سرزمین نے ایسے نمایاں جہادی پیدا نہیں کیے جو دنیا بھر میں کچھ بھی کرتے پھریں اور توجہ پائیں۔ بھارتی جہادی بھارت کی حدود تک محدود رہے ہیں۔ وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے جہادی افغانستان اور پاکستان میں کہیں کہیں دکھائی دیئے ہیں۔ مگر خیر، اب منظرنامہ بدل رہا ہے۔
جہاد کو مقصد بناکر لڑی جانے والی لڑائی اور عالمگیر اسلامی تحریک کا حصہ بننے کا تصور نوجوانوں کو ہمیشہ اپیل کرتا رہا ہے۔ پہلے کوئی بھی شدت پسند گروہ مقامی مقاصد کے لیے لڑتا تھا۔ داعش نے عالمگیر تحریک کا تصور پروان چڑھایا، اور یوں جہاد میں حصہ لینا نوجوانوں کے لیے زیادہ پُرکشش ہوگیا۔ عالمی جہادی تحریک میں حصہ لینے کے حوالے سے بھارت اور شام سب سے بڑا ٹرننگ پوائنٹ تھے۔ شام کی لڑائی میں کم و بیش 100 ممالک کے جہادیوں نے حصہ لیا جن میں بھارتی اور وسطِ ایشیائی بھی شامل تھے، تاہم اُن کا تجربہ بہت مختلف نوعیت کا رہا۔
وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے بہت جلد داعش کے علاوہ القاعدہ سے جُڑے گروہوں میں بھی گھل مل گئے۔ مثلاً تاجکستان کے سابق کرنل گل مراد کلیموف داعش میں کمانڈر کے منصب تک پہنچے۔ بھارت کے جہادیوں کا تجربہ اس کے برعکس تھا۔ عرب دنیا اور بالخصوص خلیج فارس کے خطے میں غریب ایشیائیوں کو بالعموم کمتر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے جہادیوں کا بھی یہی معاملہ رہا۔ ان کے عرب میزبان اُنہیں زیادہ احترام نہیں دیتے تھے۔ یہ نسل پرستانہ رویہ بھی بھارتی جہادیوں کو داعش کی طرف بڑھنے اور اس کے نظریات کو گلے لگانے سے روک نہیں سکا۔ بھارتی جہادیوں کی ایک بڑی تعداد نے افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ آف خراسان پراونس کے پرچم تلے لڑنے کو ترجیح دی۔
داعش کے ابھرنے کے بعد سے وسط ایشیا کے جہادی ترک سرزمین پر بڑے حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ 2016ء میں کمال اتاترک ایئرپورٹ پر، اور 2017ء میں نئے سال کی آمد کے موقع پر استنبول کے ایک مشہور نائٹ کلب پر حملے میں وسط ایشیا کے جہادیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2017ء میں نیویارک اور سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ہجوم پر ٹرک چڑھانے کے واقعات میں وسط ایشیا کے جہادی ہی ملوث تھے۔
بھارتی جہادیوں کے لیے بین الاقوامی کردار محدود رہا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے علاوہ صرف شام میں لڑائی میں حصہ لیا ہے۔ جلال آباد (افغانستان) کی جیل پر حملے کے علاوہ بھارتی جہادیوں کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک گوردوارے پر حملے میں بھی استعمال کیا گیا۔ حملوں کے لیے بھارت کے سکھ ایک قابلِ قبول ہدف ہیں اور اُن پر حملوں کے لیے بھارت ہی کے باشندوں کا استعمال اس لیے قابلِ ترجیح ہے کیونکہ ایسی صورت میں بھارت بھی نمایاں ہوتا ہے۔
داعش نے گزشتہ برس بھارت میں اپنے باضابطہ ذیلی گروہ کے قیام کا اعلان کیا، گوکہ کشمیر میں ملوث ہونے کے معاملے میں وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق کشمیری مجاہدین نے داعش یا کسی اور بیرونی گروہ کے ملوث ہونے کو کبھی زیادہ پسند نہیں کیا کیونکہ اِس سے اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ داعش کے تحت جاری ہونے والے ایک جریدے ’النباء‘ نے حال میں تین ایسے کشمیریوں کی شہادت کا نوٹس شائع کیا جو داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر لڑتے ہوئے جان کی بازی ہارے تھے۔ بھارت میں جہادی ذہن رکھنے والے نوجوان جنوبی ریاست کیرالا میں داعش کے نیٹ ورک سے رابطہ کرکے عالمی جہادی نیٹ ورک سے جُڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کا داعش یا کسی اور عالمی نیٹ ورک کا حصہ بننا نیا رجحان ہے۔ اب تک بھارتی نوجوان بیرونِ ملک جہادی سرگرمیوں میں خال خال ہی رہے ہیں۔ جن نوجوانوں نے بھارتی سرزمین پر جہاد شروع کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی خاصے محدود رہے ہیں۔ چند ایک ہی نے بیرونِ ملک کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک دھیرین باروٹ بھی تھا۔ یہ نومسلم نائن الیون کے واقعات کے ایک منتظم خالد شیخ محمد سے رابطے میں تھا۔ اُسے 2005ء میں برطانیہ میں دھماکے کی منصوبہ بندی پر سزائے قید سنائی گئی تھی۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی بھارت میں ہے۔ اس کے باوجود عالمگیر جہادی نیٹ ورک میں بھارت کا حصہ برائے نام ہے۔ ہاں، جہاد کی طرف جھکاؤ رکھنے والی نئی نسل کو بہت سے معاشی، سیاسی اور نظریاتی عوامل اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں۔
بھارت اور وسطِ ایشیا سے لاکھوں نوجوان بیرونِ ملک کام کرکے جو کچھ کماتے ہیں وہ وطن بھیجتے ہیں۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے نوجوانوں کو جہادی کلچر کی طرف متوجہ کرنا خاصا آسان ہوتا ہے۔ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے بھارتی باشندوں اور روس میں کام کرنے والے وسطِ ایشیا کے نوجوانوں کو جہادی رجحان کی طرف جھکنے کی ترغیب دینا قدرے آسان ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں دنیا بھر کی معیشتیں کمزور پڑی ہیں۔ کام کے لیے بیرونِ ملک جانے والوں کی تعداد گھٹی ہے، اور دوسری طرف ملک کے اندر بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بعض سیاسی تبدیلیوں نے بھی معاملات کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی نے مسلم مخالف بیانیہ اختیار کرکے مسلمانوں کی نئی نسل کو جہادی کلچر کی طرف دھکیلا ہے۔ وسطِ ایشیا میں معاملات کی نوعیت اگرچہ مختلف ہے تاہم اثرات کچھ ایسے ہی برآمد ہورہے ہیں۔ وسطِ ایشیا کی حکومتیں سیاسی مخالفین کا تعاقب کرتی ہیں، مگر اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ سیاسی مخالفین کو قابو میں رکھنے یا اُن کا قلع قمع کرنے کی کوششیں کس حد تک کارگر ثابت ہوئی ہیں، اور بیرونِ ملک مقیم آبادی کو انقلابی نظریات و تصورات سے دور رکھنے میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوسکی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ بھارت اور وسطِ ایشیا سے شام اور عراق جانے والے جہادیوں کا کیا ہوگا؟ کیا وہ وطن واپس آسکیں گے؟ چند ایک ایسا کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ اکثریت کے بارے میں گمان ہے کہ وہ اپنے نیٹ ورک قائم کرکے کسی اور جگہ خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ بھارت اور وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں کا اپنے خطے سے باہر کے نیٹ ورک سے رابطہ بھی ہوسکتا ہے۔ جرمنی میں سالِ رواں کے اوائل میں تاجکستان سے تعلق رکھنے والے ایسے جہادیوں کا نیٹ ورک پکڑا گیا جو البانیہ میں قائم کسی جہادی نیٹ ورک سے جُڑے ہوئے تھے۔ ان کے رابطے افغانستان اور شام میں داعش کے نیٹ ورک سے تھے۔ انہیں مبینہ طور پر یورپ میں حملوں کا حکم ملا تھا۔ یورپ بھر میں وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کے نیٹ ورکس کا سراغ لگایا گیا ہے۔ یوکرین میں حکام نے ایسے جہادیوں کا سراغ لگایا ہے جو شام میں جاری لڑائی سے جان چھڑا کر آئے تھے۔
بھارت میں جہادی ذہن رکھنے والے نوجوان کم ہیں اور اِن کا مرکز مجموعی طور پر جنوبی بھارت ہے۔ یہ نوجوان اصلاً معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقریروں سے متاثر ہیں جو معاملات کی درستی کے لیے طاقت کے استعمال کو کسی حد تک درست قرار دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خیالات نے دنیا بھر میں لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔
اس وقت دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زیادہ توجہ انتہائی دائیں بازو کے گروپوں پر دی جارہی ہے۔ یورپ میں اس حوالے سے واضح سیاسی تقسیم موجود ہے۔ یورپ کے تناظر میں انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کی تقسیم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ جہادی کلچر سے پیدا ہونے والے اُن خطرات سے چشم پوشی برتی جائے جو اس وقت شکل یا ہیئت بھی بدل رہے ہیں۔ بھارت اور وسطِ ایشیا سے ابھرنے والی دہشت گردی پر توجہ نہ دینا انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ فی الحال یہ بہت حد تک مقامی نوعیت کا معاملہ ہے، تاہم توجہ نہ دیئے جانے پر یہ پنپ کر ایک بڑے خطرے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
۔(رافیلو پینٹوشی رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ایسوسی ایٹ فیلو اور سنگاپور کے ایس راجا رتنم انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے وزٹنگ سینئر فیلو ہیں۔ وہ ’’وی لو ڈیتھ ایز یو لو لائف : برٹینز سب اربن ٹیررسٹس‘‘ کے مصنف ہیں۔) ۔