مہنگائی اور حکومتی اقدامات۔۔۔

مہنگائی روکنے کا کام ٹائیگر فورس کے سپرد کرنے سے ملک میں انتشار، بدنظمی اور افراتفری کو فروغ ملے گا

وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی روکنے کا کام ٹائیگر فورس سے لینے کا عندیہ دیا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جانچنے کا کام ٹائیگر فورس کو تفویض کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے یہ ہدایت جاری کی ہے کہ ہمارے رضا کار اپنے قرب و جوار میں باقاعدگی سے دال، آٹا، چینی اور گھی کی قیمتیں معلوم کریں اور انہیں ٹائیگر فورس کے پورٹل پر ڈالیں، آئندہ ہفتے اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ٹائیگر فورس کے رضا کاروں سے ملاقات کروں گا جس میں صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی نے اس وقت عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے، حکومت تمام تر اعلانات اور اقدامات کے باوجود اس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
چینی اور آٹے کے بحران کے بعد کمیشن کی تشکیل، اس کی رپورٹ اور پھر اس رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کروایا گیا۔ وزیراعظم نے بار بار اعلانات کیے کہ آٹے اور چینی کے ذخیرہ اندوز مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ مگر رپورٹ در رپورٹ اور کمیٹی در کمیٹی کے بار بار قیام کے باوجود چینی ایک سو دس روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہے، اور حکومت آج تک شوگر مافیا کے کسی ایک رکن کو گرفتار کرکے سزا دینا تو بعد کی بات ہے، واضح طور پر نامزد تک نہیں کرسکی۔ آٹے کی مہنگائی اور قلت دور کرنے کے لیے گندم کی کٹائی کے دنوں میں حکومت نے بڑے زور شور سے گندم خریداری کی مہم چلائی، کسانوں کو عام مارکیٹ میں بازار کی قیمت پر گندم کی فروخت کی اجازت نہیں دی گئی، اور جبراً سرکاری قیمت پر ان سے گندم خرید کر سرکاری گوداموں میں بھر دی گئی، حتیٰ کہ بعض جگہ کسانوں کی اپنے آئندہ سال کے بیج اور خاندان کی ضروریات کے معمول کے مطابق ذخیرہ کی گئی گندم بھی زبردستی ان سے چھین لی گئی، پھر اعلانات کیے گئے کہ گندم کی کوئی قلت نہیں، فلور ملوں کو ان کی ضرورت کے لیے وافر گندم فراہم کی جا رہی ہے۔ حکومت نے بیرونِ ملک سے گندم کی درآمد کے انتظامات بھی کیے، مگر عام آدمی کو آٹا سستا نہ سہی مقررہ نرخ پر بھی نہ ملنا تھا نہ ملا، بلکہ اب تو یہ پنجاب میں مہنگے داموں بھی دستیاب نہیں۔ عالمی منڈی میں پیٹرول انتہائی سستا بلکہ مفت کے بھائو ہوگیا، حکومت نے اس کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کا اعلان کیا، قیمتوں میں پچیس روپے تک کمی کا اعلان کیا، مگر پیٹرولیم مصنوعات کے ڈیلروں نے حکومت کی قیمتوں پر پیٹرول فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں حکومت کی حکم عدولی کا اعلان ہی نہیں کیا، اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ حکومت نے سخت کارروائی کی تنبیہ در تنبیہ کی، مگر کسی نے اسے پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی، اور پی ایس او کے سوا تمام کمپنیوں نے تیل کی فراہمی بند کردی، مگر حکومت کچھ نہ کرسکی، اور آخر ان کے سامنے ہتھیار ڈال کر پیٹرول کی قیمتیں بڑھاکر پرانی سطح پر لے آئی گئیں۔ یہی حال دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے متعلق حکومتی پالیسیوں کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزوں کے سامنے مکمل بے بس نظر آرہی ہے۔ اچھی حکمرانی تو دور کی بات ہے، حکمرانی نام کی کسی چیز کا کہیں وجود دکھائی نہیں دیتا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت جو بھی اعلان کرتی ہے، معاملہ اس کے الٹی سمت چلنے لگتا ہے۔ وزیراعظم جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں اُس کا معاملہ بہتری یا سدھار کی جانب جانے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے، گویا بقول شاعر ؎۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

وزیراعظم عمران خان نے اب مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اپنی تشکیل کردہ ٹائیگر فورس کو متحرک کرنے کا اعلان کردیا ہے، حالانکہ اس اقدام کا جواز ہی موجود نہیں۔ ایک ایسی فورس جس کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں، وہ کس طرح دکان داروں یا تاجروں پر مسلط کی جا سکتی ہے؟ ٹائیگر فورس کے رضاکار کس قانون کے تحت اشیائے ضروریہ کم قیمت پر فروخت کرنے پر دکان داروں کو مجبور کریں گے، جب کہ دکان داروں کے پاس ایک معقول جواز اور دلیل موجود ہے کہ انہیں تھوک فروشوں، تیار کنندگان یا کمپنیوں کی جانب ہی سے چیزیں مہنگی مل رہی ہیں تو وہ کیوں کر انہیں سستا بیچ سکتے ہیں؟ اور پھر کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جن چیزوں کا کنٹرول خود حکومت کے پاس ہے اور جو اشیائے صرف کی پیداواری لاگت کی کمی بیشی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں جب حکومت ان کے نرخ آئے روز بڑھاتی جائے گی تو اشیاء کی قیمتیں کیوں کر کم کی جا سکیں گی! بجلی، پیٹرولیم مصنوعات اور گیس وغیرہ کسی بھی چیز کی تیاری اور پیداواری لاگت کی کمی بیشی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، کیا حکومت اس حقیقت سے انکار کرسکتی ہے کہ وہ خود آئے روز ان کی قیمتیں بڑھا کر دیگر تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا جواز فراہم کررہی ہے۔ پھر ٹیکسوں کی بھرمار اور ان کی بھاری شرح بھی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا سبب ہے۔ صنعت کار اور تاجر یہ ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کرائیں یا نہ کرائیں، عوام سے بہرحال وصول کرلیتے ہیں، اور یوں ان ٹیکسوں کے نام پر بھاری منافع کماتے ہیں۔ وزیراعظم غور فرمائیں کہ اگر معمولی سے معمولی چیز پر بھی حکومت جی ایس ٹی کے نام پر اپنا عائد کردہ سراسر ناجائز غنڈہ ٹیکس واپس لے لے تو کیا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں واضح کمی نہیں لائی جا سکتی؟ ان حالات میں پہلے سے بہت سے سرکاری محکموں کی موجودگی میں اگر ٹائیگر فورس کو تاجروں اور دکان داروں سے قیمتوں اور ذخیروں کی جانچ پڑتال کا اختیار دیا گیا تو اس کے مثبت کے بجائے منفی نتائج سامنے آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس سے معاشرے میں فساد سامنے آئے گا اور بلاوجہ کے تنازعات جنم لیں گے۔ مرکز اسلامی پشاور میں علماء و فضلاء سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے حکومت کو بجا طور پر انتباہ کیا ہے کہ ’’حکومتی ٹائی ٹینک مہنگائی کے سونامی میں غوطے کھا رہا ہے۔ عوام کو ریلیف کے سبز باغ دکھانے والوں نے غریبوں کو مہنگائی کے بھنور میں پھنسا دیا ہے، حکومت نے مہنگائی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ عوام کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ دن بدن مہنگائی کا گراف اوپر اور حکومت کا گراف نیچے جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب حکومت خود مہنگائی کے بوجھ تلے دب جائے گی۔ حکومت کو اندازہ ہی نہیںکہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں کس قدر پریشان ہیں۔ وزیراعظم مافیاز کے گھیرے کا اعتراف کرنے کے باوجود آج تک ان مافیاز کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکے۔ آٹا، چینی، ادویہ، اور لینڈ مافیا مہنگائی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ جو کام حکومتی مشینری کے کرنے والے ہیں وہ ٹائیگر فورس کو دے کر وزیراعظم خود ہی ملک میں افراتفری اور انتشار کو دعوت دے رہے ہیں۔‘‘
سوچے سمجھے بغیر اندھا دھند اعلانات، دعووں اور اقدامات کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ سینیٹر سراج الحق کے اس انتباہ پر سنجیدگی سے غور کرے اور ٹائیگر فورس کو غیر آئینی اور غیر قانونی اختیارات سونپ کر ملک میں تکرار، بدنظمی اور افراتفری کو فروغ دینے اور عوام کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے بجائے اہلِ حل و عقد اور اربابِ فکر و دانش سے سنجیدہ مشاورت کے بعد ٹھوس پالیسی کا اعلان کرے، تاکہ عوام قدرے سُکھ کا سانس لے سکیں اور حکومتی اقدامات پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوسکے۔