ایف اے ٹی ایف کی تلوار
ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم حکومت کے خلاف ٹیک آف کی تیاری میں ہے، گلگت بلتستان میں کونسل کے انتخابات کا میدان سج رہا ہے اور کراچی بچائو مہم، اب اسلام آباد کا رخ کررہی ہے۔ یہ تینوں محاذ حکومت کے لیے کسی بڑے سیاسی چیلنج سے کم دکھائی نہیں دے رہے۔ تاہم حکومت فکرمند نظر نہیں آتی، اس نے سب کچھ سرکار پر چھوڑ رکھا ہے کہ ’’اقتدار دلایا ہے تو مدت بھی مکمل کرائی جائے‘‘۔ حکومت کی نااہلی کے ساتھ مہنگائی، بے روزگاری اور ملک میں لاقانونیت کا جن بھی بوتل سے باہر نکل چکا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی محض چار ووٹ کی برتری کی بنیاد پر حکومت سازی کا حق حاصل کرسکی تھی، اس سے امید کی جارہی تھی کہ وہ خارجہ، داخلہ، معیشت اور اطلاعات و نشریات کے محاذ پر ایک ایسا مربوط نظام بنائے گی جس سے جمہوری مشین موجد اور تخلیق کار کی سوچ کے مطابق چلتی رہے۔ مگر حکومت نے صرف یہی سوچ اپنائی کہ اپوزیشن کو کرپشن کیسز میں لپیٹ کر نیب کی لحد میں اتار دیا جائے، مگر ناقص پراسیکیوشن کے باعث یہ کام بھی نہ کرسکی۔ دو سال کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن الزامات میں جان نہیں رہی، نوازشریف کو خود ہی بیرونِ ملک بھیج کر انصاف کا پورا نظام ہی تختہ مشق بنادیا گیا، اب پچھتاوے کے سوا حکومت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا۔ اپنے کارکن کو مطمئن کرنے کے لیے نوازشریف کی واپسی کے لیے اقدامات کا اعلان کررہی ہے جن کی حیثیت دکھاوے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ خارجہ محاذ پر ہمیں بھارت، افغانستان اور خطے میں بدامنی پھیلانے کی عالمی کوششوں کا سامنا ہے جس سے سی پیک جیسا بڑا منصوبہ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ یہ سوچ تھی کہ سی پیک منصوبہ ایک اتھارٹی قائم کرکے آگے بڑھایا جائے گا، مگر حکومت نے اپنے قیام کے بعد ایک سال تک اس پر کام ہی نہیں کیا، اور گزشتہ سال اکتوبر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اتھارٹی قائم کی گئی۔ قانون کا غلاف پہنانے اور اسے آئینی تحفظ دینے کے لیے آرڈیننس کو متعین مدت کے اندر اندر پارلیمنٹ میں پیش کرنا ضروری تھا۔ سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی میعاد ختم ہوچکی ہے، سی پیک اتھارٹی آرڈیننس اس لیے لایا گیا تھا کہ چین پاکستان کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرسکے۔ اربوں ڈالر مالیت کے اس منصوبے میں روڈ اور ریل نیٹ ورک شامل ہے، اس منصوبے کے لیے قابلِ عمل قانون سازی چاہیے، آئین کے تحت کسی بھی جاری کردہ آرڈیننس میں صرف ایک مرتبہ ہی توسیع کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ماہ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا تھا، جس میں ایف اے ٹی ایف سے جڑے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کی گئی، ساتھ ہی ساتھ کچھ قانون سازی ایسی بھی کی گئی جو مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی، مگر سی پیک اتھارٹی کو قانونی تحفظ دینے کے لیے کسی قانون سازی سے گریز کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وضاحت حکومت کے ذمہ ہے۔ پارلیمنٹ کی جماعتیں تجویز کررہی ہیں کہ 21 رکنی ایک غیر جانب دارانہ سی پیک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان بھی شامل ہوں، اور یہ سی پیک اتھارٹی کے کاموں کی نگرانی کرے۔ اس کے جواب میں اب تک حکومت کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی ہے۔ خارجہ محاذ پر ہمیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا مسئلہ درپیش ہے۔ عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا نہایت اہم اجلاس رواں ماہ کی 21 تاریخ کو ہونے والا ہے، پاکستان کے لیے ڈو مور کی گردان اب امریکہ کے بجائے اس فورم سے کروائی جارہی ہے۔ پاکستان کو فیصلے کے لیے 21 اکتوبر کے اجلاس کا انتظار ہے۔ دو ماہ قبل اگست میں اس فورم کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے فیٹف کی 40 میں سے 2 سفارشات پر مکمل، 25 پر جزوی اور 9پر کسی حد تک عمل کیا اور 4 پر بالکل عمل نہیں کیا۔ پاکستان نے 27 نکات پر عمل درآمد میں اچھی پیش رفت دکھائی اور اس حوالے سے 15معاملات پر قانون سازی بھی کی جو قابلِ تعریف ہے۔ مسئلہ اس وقت منی لانڈرنگ کا پیسہ باہر سے آنے کا ہے یہاں سے باہر جانے کا نہیں رہا۔ یہ عالمی فورم جیسے بھی اختیار رکھتا ہے مگر جانب دار بھی ہے کہ بھارت اعلانیہ سرگرم ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے دو خط لکھے گئے جن میں کہا گیا کہ بھارت ریاستی سطح پر ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے، اس کے 44بینکوں نے ایک ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کا مشتبہ لین دین کیا جس کا فیٹف نے کوئی نوٹس نہیں لیا جبکہ پاکستان کی صرف ایک ٹرانزیکشن کو بنیاد بناکر اسے گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا، عالمی فورم کو چاہیے کہ وہ انصاف سے کام لے، مگر ان خطوط کا کوئی جواب نہیں ملا۔
اندرونی محاذ پر حکومت اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے دبائو میں ہے، پی ڈی ایم کی قیادت بھی پھونک پھونک کر قدم بڑھائے گی، اس کے داخلی اختلافات بھی چلتے رہیں گے۔ کہیں یہ بے عمل اور کہیں کہیں باعمل دکھائی دے گی۔ حکمت عملی شاید یہ ہے کہ حکومت پر نفسیاتی دبائو بڑھایا جائے اور اس کے اعصاب کا امتحان لیا جائے۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت تحریک انصاف کے مقابلے میں سیاسی لحاظ سے تجربہ کار ہے، اس کا نشانہ بھی صرف وزیراعظم ہیں، پوری حکومت میں تحریک انصاف کے ارکان، وزرا، اور کسی حد تک شیخ رشید احمد اپوزیشن کے سامنے کھڑے ہیں۔ حکومت میں شامل جنوبی پنجاب سے اتحادی، ایم کیو ایم اور سندھ الائنس اور بلوچستان کی بی اے پی پارٹی کے ارکان خاموش ہیں۔ سیاسی حقائق یہ ہیں کہ شیخ رشید احمد کا بولنا اور اتحادیوں کا خاموش رہنا ان کی مجبوری اور سیاسی حکمت عملی ہے۔ پی ڈی ایم جیسے اتحاد کے لیے حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، تاہم جس طرح حکومت کے کچھ اتحادی حکمت عملی کے تحت خاموش ہیں بالکل اسی طرح پی ڈی ایم میں بھی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی سندھ حکومت، اور اے این پی بلوچستان حکومت میں ہونے کے باعث خاموش ہیں۔ پنجاب چونکہ ایک بڑا سیاسی میدان ہے، مسلم لیگ(ن) اسے اپنا سیاسی بیس کیمپ سمجھتی ہے اسی لیے اے این پی اور پیپلزپارٹی بھی یہی چاہتی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں آگے بڑھے۔ حزب اختلاف کے نوزائیدہ اتحاد کی کئی اندرونی کہانیاں اختلافات افشاء کررہی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اتحاد کے فیصلے باقاعدہ مشورے سے نہیں ہورہے، اسی لیے کوئٹہ کا جلسہ ملتوی ہوا اور اسے گوجرانوالہ لے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت، اتحاد کی ایک رکن جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی چاہتی تھی کہ بلوچستان کے بجائے پنجاب سے آغاز کیا جائے، کیونکہ اے این پی صوبائی حکومت میں شامل ہے، اس کی سوچ ہے کہ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں جلسہ کرے، حکومت کوچیلنج دینا ہے تو پنجاب سے دیا جائے، کیونکہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ پنجاب میں پُرکشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم میں زیادہ دبائو مسلم لیگ(ن) پر ہے اور رہے گا۔ اپوزیشن اتحاد کی سربراہی جے یوآئی کے پاس ہے مگر اس کے پاس پنجاب میں افرادی قوت نہیں، مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے جلسوں کو گرما تو سکتے ہیں مگر پنڈال بھر نہیں سکتے، اسی لیے پنجاب میں سارا دارومدار مسلم لیگ(ن) پر ہوگا۔
دوسری جانب حکومت بھی امتحان میں گھری ہوئی ہے۔ مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری میں مسلسل اضافے جیسے مسائل بارودی سرنگوں سے کم نہیں ہیں۔ وزیراعظم کا رویہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، وہ کسی بھی قیمت پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے، ہاتھ ملانے اور مل کر پارلیمنٹ چلانے کے قائل نہیں ہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی پارلیمانی اور اقتصادی بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ دو سال سے نسبتاً خاموش اپوزیشن احتجاجی انداز میں پیش رفت کرنا چاہتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں نوازشریف کی تقریر سے احتجاجی موڈ اور جارحانہ انداز ظاہر ہوگیا تھا۔ اسی پالیسی کی روشنی میں مسلم لیگ(ن) کی ساری قیادت کے خلاف غداری اور سازش کا مقدمہ درج ہوا۔ وفاقی حکومت اور وزیراعظم کا یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں سرے سے مقدمے کے اندراج کا علم ہی نہیں تھا۔ دراصل غداری کے مقدمے پر جو ردِعمل آیا، اسے دیکھتے ہوئے ہی پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو مقدمے سے الگ اور دور کرنے کا سیاسی فیصلہ کیا۔ اگر حکومت عالی حوصلگی اور برداشت کا مظاہرہ کرے، جلسے جلوس ہونے دے تو اسے کم سیاسی نقصان ہوگا۔ جلسے جلوس کی اجازت دی گئی تو حکومت جمہوری ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے اور کریڈٹ لے سکتی ہے کہ اس نے جمہوری انداز میں کھلی چھوٹ دی اور جلسے جلوس ہونے دیے۔ مگر حکومت مخمصے کا شکار ہے، یہ اس کی سیاسی ناتجربہ کاری کا کھلا ثبوت ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کارکنوں کی گرفتاریاں کی جائیں، خوف و ہراس پھیلا کر اُسے محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر یہ کوشش اس کے گلے پڑسکتی ہے۔ پنجاب میں شریف خاندان نے پچھلے چند ماہ میں اپنی جو حکمت عملی بنا رکھی ہے اس کے جواب میں حکومت اسے اس کے گھر تک محدود کرنا چاہے گی۔ حکومت کو ایسا کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے۔ اب یہی وہ نکتہ ہے جہاں فیصلہ ہونا ہے کہ سیاسی جنگ میں کیا حربے اختیار کیے جائیں۔ اور یہ سب کچھ چند دنوں میں سامنے آ جائے گا۔
آرمی چیف نے گزشتہ ہفتے کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی حکومت کی مدد جاری رہے گی۔ آرمی چیف کے یہ الفاظ حکومت کے لیے کمک بھی ہیں اور پیغام بھی، مگر حکومت کے لیے اصل محاذ نوازشریف کا احتجاجی بیانیہ ہے، یہ اس کے لیے دو طرح کا ردعمل پیدا کرسکتا ہے۔پہلا ردعمل تو یہ ہے کہ حکومت نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) کا تیاپانچہ کردے، پارلیمنٹ میں اس کے خلاف فارورڈ بلاک بنایا جائے، مقدمات اور گرفتاریوں کے ذریعے دبائو بڑھایا جائے۔ مگر یہ آپشن پہلے ہی اختیار کیا جاچکا ہے۔ نیب مقدمات اسی آپشن کا نتیجہ ہیں کہ نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، انہیں مزید زخمی کرکے کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اپنے لیے ریلیف چاہتی ہے تو اسے اپوزیشن کو بھی سانس لینے کا موقع دینا ہوگا تاکہ اسے سیاسی نظام میں کوئی امید نظر آئے۔ اس تمام سیاسی پس منظر میں ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ وزیراعظم ایک بار پھر کابینہ میں تبدیلی چاہتے ہیں، وہ خود کہہ چکے تھے کہ مہلت دسمبر تک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ وفاقی کابینہ میں اہم ردوبدل کریں۔ مگر مسئلہ کابینہ نہیں بلکہ گورننس ہے۔ کیا کابینہ میں تبدیلی لاکر گورننس بہتر ہوسکے گی؟ اگر اس میں بہتری آگئی تو حالات سدھر سکتے ہیں، اور اگر حکومت اور اپوزیشن کا ملاکھڑا ہوگیا تو یہ بہت ہی خطرناک ہوگا۔
کہا جارہا ہے کہ نومبر اور دسمبر پاکستان کے لیے اندرونی اور بیرونی دونوں لحاظ سے اہم ترین مہینے ہیں۔ نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخابات ہونے ہیں، زلمے خلیل زاد اور امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش ہوگی کہ نومبر سے پہلے طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات میں کوئی اہم پیش رفت ہو، تاکہ صدر ٹرمپ کو انتخابات میں اس کا فائدہ مل سکے۔ پاکستان پر بھی دبائو ہے کہ وہ مزید متحرک ہو۔ گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے نمائندے ساجد تارڑ پاکستان آئے تھے، ان کے دورے کی کوئی تفصیلات سرکاری سطح پر افشاء نہیں کی گئیں۔ امریکی انتخاب سے قبل یہی ایام اپوزیشن کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ یہی ذہن بناکر نومبر اور دسمبر میں اپوزیشن اندرونی طور پر حکومت پر اپنا دبائو بڑھائے گی۔ اپوزیشن اپنی احتجاجی تحریک کو مارچ 2021ء میں سینیٹ الیکشن سے پہلے پہلے کامیاب بنانا چاہتی ہے تاکہ تحریک انصاف دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرکے اتنی مضبوط نہ ہوجائے کہ وہ اپوزیشن کو مزید دبا سکے۔ نوازشریف بھی اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے کوشاں ہیں اور نظر یہ آرہا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے جمہوری اصولوں پر بھی سمجھوتا کرلیں گے۔ مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے وقت ایک سمجھوتا کرچکی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی ترجیحات مسلم لیگ(ن) سے مختلف ہیں، پیپلز پارٹی کو کوئی چیز سب سے عزیز ہے جسے وہ بچانا چاہتی ہے تو وہ سندھ حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے تو استعفوں کا مطالبہ کرے گی لیکن خود استعفے نہیں دے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن گزشتہ دو عشروں میں پہلی بار اقتدار سے باہر ہیں۔ جمہوریت اور سول بالادستی کی خواہش صرف دھوکا ہے۔ اصل میں یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔