پی ڈی ایم کا کوئٹہ میں جلسہ

صوبہ بلوچستان، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا اہم یونٹ ہے، کیوں کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اس اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی صوبے کے عوام میں اثر رسوخ رکھتی ہیں۔ اس بناء پر حکومت و اسٹیبلشمنٹ مخالف احتجاج میں بلوچستان نمایاں ہوگا۔ جماعت اسلامی اتحاد کا حصہ نہیں ہے جسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے متعلق تحفظات ہیں۔ ان دو بڑی جماعتوں نے یقیناً جمعیت علمائے اسلام، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کو مایوس کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ بے سود بنانے میں ان کی مصلحت آمیز سیاست کا دخل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا گناہ کچھ زیادہ ہے۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت گرانے میں آصف علی زرداری کا دماغ شامل تھا۔ صوبے میں عدم اعتماد کی تحریک میں شریک و مددگار جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی تھیں۔ پیپلز پارٹی کو مکافاتِ عمل کا سامنا ہے۔ چناں چہ اپنے اس کیے پر صوبے کی ان جماعتوں کو بھی معذرت و ندامت کرلینی چاہیے۔ بہرحال جماعت اسلامی حکومت مخالف بیانیہ رکھتی ہے، البتہ اگر وہ حزبِ اختلاف کے اس اتحاد کا حصہ بن جاتی ہے تو وسیع تر مقاصد کے لیے حزبِ اختلاف کی قوت میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پہلا جلسہ کوئٹہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، جس کے لیے 11 اکتوبر اور پھر 18 اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے اصرار پر اب 25 اکتوبر کے دن پر اتفاق ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے پی ڈی ایم کے اجلاس کے اس مسئلے کو بھی اختلاف ثابت کرنے کی کوشش کی، حالاں کہ اس کا تعلق مشاورت سے ہے کہ کون سا جلسہ کب اور کہاں منعقد ہونا ہے۔ کوئٹہ کا جلسہ یقینی طور پر بہت بڑا ہوگا، جس نے بلوچستان کی حکومت کو پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں جلسہ بدامنی پھیلانے کے لیے منعقد کیا جارہا ہے اور بلوچستان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی جام حکومت کا حصہ ہے، لہٰذا جام صاحب نے کہا ہے کہ اے این پی نے ماضی میں بھی اپنی مرکزی قیادت کو پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان حکومت کی اتحادی ہے، حکومت کا حصہ ہے اور کابینہ بلوچستان کی ترقی کے لیے جو بھی منظوری دیتی ہے، اس میں اے این پی کے اراکین شامل ہوتے ہیں۔ جام کمال کو امید ہے کہ اے این پی اس تناظر میں واضح مؤقف اپنائے گی۔
بہرحال فی الوقت اے این پی کی صوبائی جماعت پی ڈی ایم کے ساتھ ہے۔ کوئٹہ جلسے یا یہاں حکومت مخالف احتجاج میں اے این پی کی سیاست کیا ہوگی اس کا وقت آنے پر پتا چلے گا۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی میں اے این پی کی صوبائی جماعت مرکزی نظم کے برعکس اپنی ترجیحات کے تحت فیصلے کرچکی ہے، اس پر اپنے مرکز کو بھی آمادہ کرچکی ہے۔
حزبِ اختلاف کے جلسے کے بارے میں بلوچستان حکومت نے بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے ایرے غیروں سے بھی پریس کانفرنسیں کرائیں۔ حکومت کے ترجمان نے تو یہ تک فرمایا کہ جلسہ بری طرح ناکام ہوگا۔ ان کے بعض حمایتی کہتے ہیں عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر حکومت کو تذبذب اور پریشانی نہیں ہونی چاہیے، نہ وفاقی حکومت کی طرف سے اظہارِ رائے پر کسی قسم کی پابندی ہونی چاہے۔ ذرائع ابلاغ پر حزبِ اختلاف کے جلسوں کی کوریج پر قدغن میڈیا کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہوگی۔ سیاسی مخالفین پر بغاوت اور ریاست مخالف رجحانات جیسے مقدمات لوگوں کے ذریعے درج کرانا انتہائی غیر شائستہ عمل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پینتالیس سے زائد رہنماء جن میں دو سابق وزرائے اعظم میاں محمد نوازشریف، شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزراء، ریٹائرڈ جنرلز، سابق گورنر شامل ہیں، حتیٰ کہ آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم راجا فاروق حیدر کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا۔ خصوصاً وزیراعظم آزاد کشمیر پر مقدمے کی خبر کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا۔ یعنی اس عمل سے حکومت و ریاست کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس شخص کو حراست میں لیا جاتا، متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور ایس پی تک معطل کیے جاتے جنہوں نے ذہنی خباثت میں ساتھ دے کر قانون کو بے توقیر کیا ہے۔ میر حاصل خان بزنجو مرحوم نے ہارس ٹریڈنگ کے خلاف سینیٹ میں تقریر کی تو پنجاب کے مختلف تھانوں میں اُن کے خلاف اس نوعیت کے مقدمے درج کرائے گئے۔ کسی کو سڑک حادثے میں گھیر کر دہشت گردی کے مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں، تو کسی کی شہریت منسوخ کردی جاتی ہے۔ بلوچستان کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی کے اشارے پر سیاست دانوں کے خلاف تھانوں میں مقدمات درج کرا دیتے ہیں۔ چناں چہ ان اوچھی حرکتوں کا سدباب ہونا چاہیے۔