عرب اور اسرائیل

المیۂ فلسطین ماضی، حال اور مستقل کے آئینے میں

(نواں حصہ)

ہندوستانی یہودی

اسرائیل کا یہ مذہبی اصول کتنا خطرناک ہے، اس کا ایک ثبوت یہی ہے کہ ہندوستان اور خصوصاً بمبئی اور کیرالا کے علاقوں میں یہودی سینکڑوں برسوں سے عزت، اطمینان اور خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر مذہبی منافرت کی بنا پر کیے گئے اسرائیلی پروپیگنڈے کی بدولت آٹھ ہزار یہودی بوریا بستر باندھ کر اپنے سینکڑوں سال پرانے وطن کو چھوڑ کر اسرائیل چلے گئے، یہ بات اور ہے کہ اسرائیل میں چونکہ سفید نسل کے یہودیوں کی اکثریت ہے اس لیے وہاں پر ایشیائی اور افریقی یہودیوں کو دوئم درجے کے شہری سے بہتر نہیں سمجھا جاتا۔ ان لوگوں سے نوکری وغیرہ کے معاملے میں بھی امتیاز برتا جاتا ہے اور انہیں عام یہودیوں میں شادی کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ ہفتہ وار ’’بلٹز‘‘ کے 27 دسمبر 1944ء کے شمارے میں ایسے کئی یہودیوں کا ایک خط چھپا تھا جو اسرائیل میں یہودیوں ہی کے خلاف کیے جانے والے نسلی امتیاز کی بنا پر واپس ہندوستان آنا چاہتے ہیں، لیکن اسرائیلی حکومت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
سوال یہ ہے کہ جو ملک اس قسم کی تنگ نظری پر قائم ہو، کیا اُسے ہم کسی بھی طرح سے اپنا دوست اور ساتھی سمجھ سکتے ہیں؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں یہودی آبادی اتنی کم تھی کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، لیکن مذہبی بنا پر کسی ملک سے وفاداری کا اصول ماننے کا نتیجہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، ہندوستان جیسے ملک میں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔
6 جون کی صبح کو یعنی حالیہ حملے کے ایک دن بعد اسرائیلی وزیراعم ایشکول نے ’’دنیا بھر کے یہودی عوام‘‘ کے نام ایک پیغام نشر کرتے ہوئے کہا: ’’اس تاریخی موقع پر ہم اس روح پرور اتحاد کے مظاہروں کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتے جو دنیا بھر کے یہودیوں نے ہماری حمایت میں کیے، یہودی عوام اور اسرائیل کی مملکت کے اس احساسِ یک جہتی نے ہمارے اندر عزم اور اعتماد کی ایک نئی روح پھونک دی ہے، یہودی بھائی چارے اور اتحاد کے جذبے نے ہر قسم کے جغرافیائی اور سیاسی فاصلوں کو یکسر مٹا کر رکھ دیا ہے، ہمیں اعتماد ہے کہ دنیا کے جس کونے میں بھی کوئی یہودی دل دھڑکتا ہے اُس سے یہی آواز نکلتی ہے کہ اسرائیل کو فتح نصیب ہو‘‘۔
۔(یروشلم پوسٹ۔ 5 جون 1967ء)۔
ایشکول نے گویا یہودیوں کو ایسے مخاطب کیا جیسے وہ اسرائیل ہی کے وفادار ہوں۔ اس کی بنیاد یہ صہیونی نظریہ ہے کہ دنیا کا ہر یہودی خواہ وہ جرمن ہو یا روسی، امریکن ہو یا انگریز، مصری ہو یا ہندوستانی یا کسی اور ملک کا باشندہ… صرف اسرائیل ہی سے وفاداری رکھتا ہے۔ مذہب کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیلنے کی اس سے بدتر مثال شاید مشکل ہی سے ملے۔ دنیا کے کئی یہودی اسی اپیل پر کان دھرتے ہوئے عربوں کے خلاف لڑنے میدان میں آگئے، حالانکہ عربوں نے ان ملکوں کا کچھ نہیں بگاڑا تھا، جن کے وہ باشندے تھے، مگر مذاق یہ ہے کہ عربوں ہی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ جہاد کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
مذہبی تنگ نظری پر قائم اسرائیل میں ہر غیر یہودی سے خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی، غلاموں سے بہتر سلوک نہیں کیا جاسکتا، اسرائیل میں باقی رہنے والے عربوں کو اتنی بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے علاقے کے فوجی حاکم کی منظوری کے بغیر اپنے شہر، قصبے یا گائوں کی میونسپل حدود سے باہر سفر کرسکیں۔ ان عیسائی اور مسلمان عربوں کو فوج، پولیس اور وزارتِ خارجہ میں سرکاری حکم کی بنا پر بھرتی نہیں کیا جاتا، یہ لوگ پرمٹ حاصل کیے بغیر رات کے وقت اپنے ہی وطن کے اندر گھوم پھر نہیں سکتے۔ پچھلے بیس سال سے اسرائیل کی غیر یہودی آبادی پر باقاعدہ قانونی طور پر ’’مارشل لا‘‘ کے ضابطوں کے تحت حکومت کی جاتی ہے۔ اسرائیلیوں نے صریحاً ’’نسلی امتیاز‘‘ کی اس پالیسی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ دنیا میں کہیں بھی مذہبی اور نسلی فرق کی بنا پر اتنا زیادہ ظلم نہیں کیا جاتا۔
اس کے مقابلے میں سب ہی عرب ملکوں میں سب ہی شہریوں کو ایک جیسے سیاسی اور قانونی حقوق حاصل ہیں۔ وہ ملک جو اسلام کو صرف مذہبی بنا پر اپنا سرکاری مذہب مانتے ہیں، قانونی طور پر کسی بھی شہری سے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں برتتے۔ مذہبی جہاد کا عربوں پر الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل کی بنیاد ہی یہودی فلاسفر ہرزل کے اس خیال پر ہے کہ یہودیوں کو خدا نے دنیا پر حکومت کرنے کے لیے بنایا ہے، اور ایک دن ساری دنیا پر ان کی حکومت ہوکر رہے گی۔ ایسی ہی تنگ نظری کے خلاف دنیا کے کئی یہودی لوگ کئی بار آواز اٹھا چکے ہیں، اپنے وقت کے سب سے بڑے سائنس دان آئن اسٹائن کو اب تک کی بیسویں صدی کا سب سے عظیم یہودی سمجھا جاتا ہے لیکن انہوں نے بھی صاف صاف کہا تھا کہ وہ مذہب کی بنیادوں پر فلسطین میں اسرائیل کے بنائے جانے کے سخت خلاف ہیں، انہوں نے اسی لیے 1948ء میں اسرائیل کے بننے کے بعد اس کا صدر بننا نامنظور کردیا تھا۔
اب تک ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اسرائیل کیسے وجود میں آیا اور عرب اسرائیلی جھگڑے کی اصل وجوہات کیا ہیں، مگر جو لوگ جان بوجھ کر جھوٹ پھیلانا چاہتے ہیں وہ کئی اوٹ پٹانگ باتوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس بات کا ڈھنڈورا بار بار پیٹا جارہا ہے کہ فلسطین سے نکالے ہوئے لاکھوں عرب شرنارتھیوں کو اپنے پڑوسی عرب ملکوں ہی میں بسنا چاہیے، جن کا مذہب، بول چال اور رہن سہن بھی ان جیسا ہے، اور جن کا مجموعی رقبہ بھی اسرائیل سے ستّر گنا زیادہ ہے۔
یہ دلیل کچھ ایسی ہی ہے جیسے کوئی ڈاکو یہ کہے کہ میں جس شریف آدمی کے مکان پر قبضہ کیے بیٹھا ہوں اُسے اپنے بھائی کے گھر جاکر رہنا چاہیے، کیونکہ اس کے بھائی کا گھر اِس مکان سے کئی گنا بڑا ہے اور وہاں پر لوگوں کا رہن سہن بھی بالکل اسی جیسا ہے، اس کے برعکس وہ اگر اپنے مکان میں آنا چاہے تو وہ یہاں گزر نہیں کرسکے گا کیونکہ میرا رہن سہن اس آدمی سے کہیں اونچا ہے جسے میں نے دھکے دے کر اسے اس کے اپنے ہی مکان سے نکالا تھا۔
یہ دلیلیں اتنی بودی ہیں کہ پچھلے بیس برسوں میں کئی بار پیش کرنے کے باوجود ایک بار بھی اقوام متحدہ میں انہیں قبول نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے بارہ ریزولیوشن اسی مسئلے پر موجود ہیں، ان سب میں ایک ہی بات دہرائی جاتی ہے کہ اسرائیل ان شرنارتھیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کا حق دے، مگر اسرائیل نے ہمیشہ انہیں حقارت سے ٹھکرایا ہے۔ اسی اسرائیل کے بارے میں اس کے حمایتی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اسے یو۔این۔او نے بنایا تھا، لیکن جان بوجھ کر وہ یہ نہیں بتاتے کہ عرب شرنارتھیوں ہی کے سوال پر نہیں بلکہ کسی بھی اہم سوال پر اسرائیل نے یو۔این۔ او کا کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں کیا۔
اسرائیل کے حمایتی کبھی اس بات پر بھی بغلیں بجاتے ہیں کہ اس نے بہت بڑے عرب علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل انہیں خالی کرنے کا مطالبہ نہیں مان سکتا۔ ایک اسرائیل نواز ایڈیٹر نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’روس اور اس کے ساتھی اور بھارت کے ناسمجھ حاکم یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل عربوں کے علاقے خالی کرے۔ شاید یہ لوگ خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں، یہ سمجھ رہے ہیںکہ عربوں نے یہ علاقے رضامندی سے اسرائیل کو دیئے تھے… اسرائیل نے انہیں خون دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل نے یہ علاقے جنگ میں جیتے ہیں‘‘۔ آگے چل کر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد ایک دوسرے کے علاقے خالی ضرور کردیئے تھے مگر یہ مثال اس معاملے میں اس لیے ٹھیک نہیں بیٹھتی کہ کچھ علاقہ ہندوستان نے جیتا تھا اور کچھ پاکستان نے۔ اسی لیے ہم نے یہ علاقے خالی کرنے منظور کرلیے، مگر چونکہ اسرائیل کو مکمل فتح ہوئی ہے اس لیے وہ یہ اصول نہیں مان سکتا۔
ہمارے خیال میں کسی غیر ملک کی حمایت میں اپنے دیش سے دشمنی کی اس سے بدتر مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ فاتح ملک جیتے ہوئے علاقوں پر قبضہ قائم رکھنے کا حق رکھتا ہے تو ہم چین کو کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے علاقے خالی کرے، اور جب تک وہ ایسا نہیں کرتا اُس سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان اور پاکستان کی مثال دے کر بھی ان صاحب نے اپنی غلامانہ ذہنیت اور وطن دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان نے لاہور اور سیالکوٹ کے علاقے صرف اس لیے خالی کیے ہیں کیونکہ پاکستان نے بھی ہمارے کئی اہم علاقوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ حالانکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہم پاکستان کے مقابلے میں انتہائی اچھی پوزیشن میں تھے لیکن اس کے باوجود ہم نے یہ علاقے خالی کیے کیونکہ ہم جنگ سے معاملہ طے کرنے کا اصول ہی نہیں مانتے۔

بودی دلیلیں

بار بار یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستان عربوں کی حمایت صرف اس لیے کررہا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے بارے میں ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے حمایت نہ کی تو وہ ہمارے خلاف ہوجائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عین ایسا ہی بہتان اور الزامات مخالف ملکوں کے ریڈیو اور اخبار دن رات ہندوستان پر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہندوستان پر یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایسا الزام لگایا گیا ہو، آزادی سے پہلے جب گاندھی جی نے فلسطین کے عربوں کی حمایت کی تھی تو دنیا بھر کے یہودی حلقے باپو پر یہی بہتان لگاتے تھے کہ وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے عربوں کی حمایت کررہے ہیں۔ گاندھی جی نے نومبر 1939ء میں اپنے ایک مضمون میں صاف صاف یہ کہا تھا کہ وہ اسے اپنی بدترین توہین سمجھتے ہیں، وہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہ کسی کی حمایت کرتے ہیں اور نہ مخالفت، وہ اس لیے عربوں کی حمایت کررہے ہیں کیونکہ فلسطین ان ہی کا ملک ہے اور ہزاروں میل دور سے آنے والے یہودی انگریزی سامراج کی طاقت کی مدد سے وہاں کے عربوں کو دبا کر وہاں آباد ہونے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اب تک ہندوستان کی پالیسی باپو کے اسی نقشِ قدم پر کاربند ہے۔
ایک عام بات یہ کہی جاتی ہے کہ عرب اسرائیل کے خلاف اسلامی جہاد کے نعرے کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ بھی بالکل اوٹ پٹانگ اور بے ڈھنگی بات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرب رہنمائوں یا عرب جنتا کے کسی حصے نے مذہبی بنا پر بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کی کوشش کی ہو، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ ہم پر جارحانہ حملے کے وقت ہمارے ملک کے کئی فرقوں نے اپنے اپنے طور پر اپنے مذہب کے فرمانوں کی بنا پر دشمن کا مقابلہ کرنے کی قسم کھائی تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہندوستان مذہبی بنا پر جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ جس طرح ہندوستان کے کسی بڑے قومی لیڈر نے ان دونوں لڑائیوں کے دوران مذہبی تعصبات ابھارنے کی کوشش نہیں کی، اسی طرح عرب رہنمائوں نے خاص طور پر صدر ناصر نے کبھی اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے مذہب کا سہارا نہیں لیا۔
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ عرب پسماندہ ہیں اور اسرائیل ترقی پذیر ہے، اس لیے ہندوستان کو اسی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس باب کے شروع میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اسرائیلی ’’ترقی‘‘ میں ہندوستان کو نقصان ہی نقصان ہے، فائدہ کوئی نہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس ملک میں 80 فیصد یورپین اور امریکن آبادی ہو، اور جسے تقریباً پانچ لاکھ ڈالر روزانہ کے حساب سے غیر ملکی امداد ملتی ہو وہ آس پاس کے ایشیائی، افریقی پڑوسیوں کے مقابلے میں یقینا ترقی یافتہ ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گوا کی آزادی سے پہلے پرتگالی حاکم بھی یہی کہا کرتے تھے کہ گوا سماجی، اقتصادی اور ہر لحاظ سے ہندوستان سے زیادہ ترقی پسند ہے، فرض کیجیے وہاں کی آبادی کو نکال کر پرتگالی وہاں آباد کردیئے جاتے تو یہ لوگ عام ہندوستانیوں کے مقابلے میں یقینا زیادہ آگے بڑھے ہوئے ہوتے، مگر اس بنا پر گوا پر ہم اُن کا حق نہیں مان سکتے تھے۔ دو سو برس تک انگریز حاکم بھی تو یہی کہتے رہے کہ ہم پچھڑے ہوئے ہندوستانیوں کو ترقی کی راہ پر لے جارہے ہیں۔ اب جنوبی افریقہ اور جنوبی رہوڈیشیا کے گورے حکمران بھی تو یہی کہتے ہیں کہ وہ ’’تاریک افریقہ‘‘ میں نئی تہذیب کا نور پھیلانا چاہتے ہیں۔ اگر ان سفید فام سامراجیوں کی دلیلوں کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو فلسطین پر اسرائیلی سامراجیوں کے حق کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے!

ہندوستان کدھر اور کیوں؟

پچھلے صفحات سے یہ صاف واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل کے کسی دعوے اور دلیل میں کسی قسم کا کوئی اخلاقی یا قانونی وزن نہیں ہے، اسی لیے اس کے حمایتی اکثر خاصی اوٹ پٹانگ باتیں کرتے رہتے ہیں جو اصلی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں، مثال کے طور پر بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل جمہوری ملک ہے اس لیے ہندوستان کو اسرائیل ہی کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہر سویز بند ہونے سے ہندوستان کو بھاری نقصان ہورہا ہے جس کے لیے مصر ذمہ دار ہے۔ آخر میں اس بات کا بھی واسطہ دیا جاتا ہے کہ ہندوستان چونکہ غیر جانب داری میں یقین رکھتا ہے اس لیے اسے عربوں اور اسرائیل کے جھگڑے میں غیر جانب دار رہنا چاہیے۔
آیئے ایک ایک کرکے ان سب ہی دلیلوں کو جانچیں اور پرکھیں۔ جہاں تک عربوں کے آپسی اختلافات کا تعلق ہے یہ بات ظاہر ہی ہے کہ کئی اختلافات کے باوجود اس بات کے بارے میں سب ہی متفق ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ عرب ملکوں کی خرطوم میں ہونے والی چوٹی کانفرنس میں اس کا اچھی طرح سے ثبوت مل گیا تھا، اگر کچھ اختلافات ہیں تو وہ صرف اس سوال پر ہیں کہ اسرائیل کے خلاف کوئی فوری سخت قدم اٹھانا چاہیے یا کچھ دیر انتظار کرنا چاہیے کہ عالمی دبائو کے سہارے اسرائیل ٹھیک راستے پر آجائے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ عرب دنیا کے اختلافات سے اسرائیل کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کے علاقے کو ہتھیالے؟ یہ تو کچھ ایسی ہی بات ہوئی جیسے کوئی چور یہ کہے کہ میں نے جس گھر پر ڈاکا مارا ہے وہاں پر رہنے والے بھائی آپس میں اختلافات رکھتے ہیں، اس لیے اُن کے مال پر میرا حق ہے۔ سوچنے کی تیسری بات یہ بھی ہے کہ اختلافات کہاں نہیں ہوتے؟ ایک ہی خطے کے کئی ملکوں کو تو چھوڑیئے، کیا ایک ہی ملک میں اختلافات نہیں ہیں؟ ایک ہی مذہب کی الگ الگ شاخوں کے درمیان بھی گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ میں اپنے ہی دھرم آریہ سماج کی بات کرتی ہوں۔ میرے نانا آچاریہ رام دیو، سوامی دیانند سرسوتی کے خاص چہیتے چیلوں میں سے تھے، ان ہی کی سرکردگی میں گوروکل کانگڑی کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ اسی وقت آریہ سماج میں دو پارٹیاں کالج پارٹی اور گوروکل پارٹی بن گئی تھیں، اب تو خیر کم از کم چار گروپ موجود ہیں، ظاہر ہے کہ جس طرح یہ بات بالکل فروعی ہے اسی طرح یہ کہنا بھی عرب اسرائیل جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کہ اسرائیل کی حمایت اس لیے کرنی چاہیے کہ عربوں میں اختلافات ہیں۔ یہ دلیل کچھ ایسی ہی ہے جیسے چین یہ کہے کہ وہ ہمارے علاقے اس لیے خالی نہیں کرتا کیونکہ ہمارے اندر مذہب، زبان، صوبہ اور پارٹی بازی کی بنا پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

جارحانہ ’’جمہوریت‘‘ ۔

عین اسی طرح یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے اس لیے ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ملک کا وجود صرف ایک مذہب یعنی یہودی مذہب کے ماننے والوں کی برتری کی بنا پر ہو، اُسے ہرگز جمہوری نہیں کہا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل میں آباد مسلمان اور عیسائی عربوں کے خلاف کھلم کھلا اور باقاعدہ قانونی طور پر اس قسم کے نسلی اور مذہبی تعصب کا سلوک کیا جارہا ہے جس کے سبب انہیں دوئم درجے کے شہریوں کے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں، پچھلے بیس برسوں سے اسرائیل کے غیر یہودی باشندے مارشل لا کے قوانین میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کیا ایسے ملک کو جہاں مذہبی اور نسلی تعصب کی حالت یہ ہو، جمہوریت کا نام دیا جاسکتا ہے؟ اگر اسرائیل کو جمہوری ملک مان لیا گیا تو پھر جنوبی افریقہ اور جنوبی رہوڈیشیا سے بھی ہمیں اپنے تعلقات اچھے بنا لینے چاہئیں۔ یاد رہے کہ ان دو ملکوں کو بھی ہم صحیح معنوں میں جمہوری دیش صرف اس لیے نہیں مانتے کہ وہاں پر بسنے والے غیر گورے لوگوں کے خلاف نسلی امتیاز کی پالیسی برتی جاتی ہے، بالکل یہی حال اسرائیل کا ہے۔
ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ فرض کیجیے (حالانکہ یہ بالکل غلط ہوگا) کہ اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے بالکل ویسا جیسا کہ برطانیہ… مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے جمہوری ملک برطانیہ کو یہ حق دیا تھا کہ وہ ہم پر راج کرتا رہے؟ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عام قانون کی طرح عالمی قانون میں بھی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ مجرم کن عقائد کا ماننے والا ہے، بڑی بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ اگر اس نے جرم کیا ہے تو اس کی سزا اسے ملنی چاہیے، عین اسی طرح اسرائیل کو مجبور کرنا ہی پڑے گا کہ وہ عرب علاقے خالی کردے۔ اس سلسلے میں یہ سوال کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے یا غیر جمہوری۔

نہر سویز

جہاں تک نہر سویز کے بند ہونے سے ہندوستان کے بھاری نقصان کا تعلق ہے اس سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری اسرائیل پر ہے جس نے ابھی تک مصر کے بڑے علاقے اور سویز کے مشرقی کنارے پر اس طرح قبضہ جما رکھا ہے جسے عالمی غنڈہ گردی کی سب سے بڑی مثال کہیں تو بجا ہوگا، اسرائیل کے وزیراعظم نے حال ہی میں ہیکڑی کے ساتھ یہاں تک کہا کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کیے بغیر نہر سویز کو کھولا نہیں جاسکتا۔ ایک سیدھی سی بات یہ بھی ہے کہ نہر سویز کے بند ہونے سے ہندوستان اور دوسرے عرب ایشیائی ملکوں کو نقصان ہورہا ہے تو سب سے زیادہ نقصان مصر کو ہورہا ہے، جسے ہر روز تقریباً ایک کروڑ پائونڈ سویز میں سے گزرنے والے جہازوں سے وصول ہوتے تھے، ظاہر ہے کہ مصر خوشی سے یہ نقصان برداشت نہیں کررہا۔ اگر اسرائیل کے ہندوستانی حامیوں کو ہندوستان کے نقصان کا اتنا ہی غم ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے سرپرست اسرائیل پر زور دیں کہ وہ نہر سویز کا مشرقی کنارہ خالی کردے تاکہ وہاں پر جہازرانی شروع ہوسکے۔

غیر جانب داری کی دہائی

ہندوستان کی غیر جانب داری کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہی لوگوں نے جو مصر اور اسرائیل کے معاملے میں ہندوستان کو غیر وابستہ دیکھنا چاہتے ہیں، غیر وابستگی کی پالیسی کی کبھی حمایت نہیں کی، ہمیشہ وہ اس کا مذاق اڑاتے رہے ہیں، مگر اب اسی کا نام لے کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔ ہندوستان کی غیر جانب داری کی پالیسی کے بارے میں امن کے دیوتا سورگیہ پنڈت نہرو نے بار بار کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ کی ٹکر میں غیر جانب دار رہیں گے، ہم نے ہمیشہ امن اور آزادی کی طاقتوں کا ساتھ دیا ہے اور دیتے رہیں گے، اسی لیے ہندوستان نے ہمیشہ اور ہر جگہ آزادی پسندوں کی حمایت کی ہے اور سامراجیوں کی مخالفت۔ عرب اسرائیل جھگڑے میں بھی آج سے نہیں بلکہ پچھلے 35 سال سے ہندوستان کی پالیسی یہی رہی ہے۔ باپو نے کئی بار یہ کہاکہ فلسطین پر یورپ اور امریکہ کے یہودی کوئی حق نہیں رکھتے۔ پنڈت نہرو کی رہنمائی میں ہندوستان نے اسی غیر وابستگی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے 1956ء میں مصر پر تین طاقتی سامراجی حملے کی پُر زور مذمت کی تھی۔ گیتا کے خالق بھگوان کرشن کے آدرشوں میں وشواس رکھنے والا ہندوستان غیر وابستگی سے صرف یہی مراد لیتا ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے کسی ایک بلاک سے نتھی نہ ہوجائیں، مگر جہاں بھی انصاف اور ناانصافی کی ٹکر ہوگی ہم انصاف کے ساتھ ہوں گے۔ عرب اسرائیل جھگڑے کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی ہمیشہ سے واضح رہی ہے۔ نومبر 1938ء میں ایک اخباری مضمون کے دوران بھی پنڈت جی نے کہا تھا کہ فلسطین بنیادی طور پر ایک عرب ملک ہے اور وہاں پر عرب عوام ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
عرب ملکوں سے ہندوستان کے اچھے تعلقات کی بنیاد صرف اصولی یا جذباتی نہیں ہے، ہماری قومی تحریک نے جن اصولوں کی بنا پر عربوں کا ساتھ دیا ہے اس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے، لیکن ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ ہمارا اتنا گہرا اقتصادی اور سیاسی مفاد وابستہ ہے کہ اس کے سوا ہمارے لیے اور کوئی راستہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شریمتی گاندھی نے اسی لیے کہا ہے کہ عربوں کی حمایت ہم قومی آدرشوں کی بنا پر بھی کرتے ہیں اور قومی مفاد کے خیال سے بھی۔
یہ بات کتنی سچ ہے اس کا اندازہ ہمیں عرب دنیا کے ساتھ اقتصادی رشتوں پر ایک نظر ڈالنے سے ہوجائے گا، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عربوں کے ساتھ اقتصادی رشتے ہماری اقتصادی زندگی کے لیے ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی ملک کے لیے اقتصادی فائدے کا سب سے اہم روپ ہوتا ہے اس کی تجارت۔ یہ جان کر شاید بہتوں کو حیرانی ہو کہ عرب دنیا کے 13 عرب دیش ملاکر جتنی بڑی مقدار میں ہمارا مشینی سامان خریدتے ہیں اتنا اور کوئی نہیں خریدتا، تمام عرب دیشوں سے ہمیں مجموعی طور پر لگ بھگ ایک ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے، یہ آمدنی اس کے علاوہ ہے جو ہم اپنی چیزوں کے بدلے میں کچے مال کی صورت میں تبادلے کے طور پر منگواتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہم عرب ملکوں کو تقریباً تین ارب روپے کا سامان بھیجتے ہیں اور وہاں سے دو ارب روپے کا مال حاصل کرتے ہیں۔
عرب ملکوں سے آنے والے سامان میں تیل، مصری اور سوڈانی روئی، فاسفورس اور اسی قسم کی کئی ایسی چیزیں شامل ہیں جو ہماری صنعتوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے دیش میں بنی مصنوعات خاص طور پر بجلی کا سامان، ہلکی پھلکی مشینیں (سائیکل، سلائی مشینیں اور پنکھے وغیرہ)، ہوزری کا سامان اور سوتی، اونی، ریشمی اور ری آن کے کپڑے وغیرہ کے جتنے بڑے گاہک عرب ملک ہیں اتنا دنیا کا کوئی اور خطہ نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ عرب ملکوں کے تیل کی آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ ہمارے مال کی قیمت پونڈ اسٹرلنگ میں چکا سکتے ہیں، مثال کے طور پر ایک کویت ہی کے ساتھ ہم نے پچھلے سال 35 کروڑ روپے کی تجارت کی۔ عراق کو پچھلے ہی سال 26 لاکھ پونڈ کا مال بیچا گیا، اس میں چائے اور پٹ سن کے علاوہ بجلی کے پنکھے، سائیکل اور ڈیزل مشینیں شامل تھیں، سوڈان کے ساتھ ہماری تجارت 30 کروڑ روپے سے اوپر جاچکی ہے۔ متحدہ عرب جمہوریہ کے ساتھ اگلے برس تک ہماری تجارت کی کُل رقم سو کروڑ روپے سے بھی اوپر جاپہنچے گی۔ ان سب ہی ملکوں کے ساتھ ہماری تجارت کا توازن بہت زیادہ حد تک ہمارے حق میں ہے۔
(جاری ہے)