بحیثیت اسکول نصابی کتاب ساتویں جماعت/ مساوی تعلیمی سطح
سچی بات یہ ہے کہ جن لوگوں سے میرا پیار کا رشتہ ہے اُن میں محترم پروفیسر محمد اسحق منصوری بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مولوی، عالم، فاضل علوم دینیہ، ایم اے عربی، پی ایچ ڈی ہیں۔ عربی زبان کا اعلیٰ ڈپلومہ ریاض یونیورسٹی (سعودی عرب) سے حاصل کرچکے ہیں۔ کئی سال وزارت ِتعلیم، شعبۂ نصاب سازی اسلام آباد کے رکن رہے۔ شعبہ عربی کراچی یونیورسٹی کے صدر رہے۔ قرطاس و قلم سے آج بھی بڑا مضبوط رشتہ قائم ہے۔
سادہ، دل نشین پیرائے میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’القرآن‘‘ بحیثیت اسکول نصابی کتاب (حصہ دوئم) جہاں آپ کے لیے توشۂ آخرت ہے، وہیں ساتویں جماعت اور اس کے مساوی تعلیم کے حامل طلبہ و طالبات کے لیے قرآن فہمی کا آسان ذریعہ بھی ہے۔ پروفیسر صاحب کی معاشرتی اقدار پر گہری نگاہ ہے۔ احوالِ دل یوں رقم کرتے ہیں:
’’جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو معاشرے میں قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے والے دن بدن کم ہوتے گئے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پڑھ کر جو طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہورہے ہیں اُن میں ایک فیصد بھی ایسے نہیں جنہیں اس پورے تعلیمی عمل کے عرصے میں ایک بار بھی قرآن مجید کا صرف ترجمہ پڑھایا گیا ہو۔
جبکہ قرآن مجید آسان کتاب ہے۔ سورۃ القمر آیت نمبر 17، 22، 32، 40 میں کہا گیا ہے کہ (ترجمہ): ’’ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا ہے، تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘ اسی طرح سورۃ ابراہیم آیت نمبر52 میں فرمایا گیا (ترجمہ): ’’یہ قرآن ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، تاکہ انہیں اس کے ذریعے خبردار کیا جائے‘‘۔ مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے ’’معارف القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’قرآن کریم نے اپنے مضامینِ عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کرکے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر و فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح جاہل، جس کو علوم سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ بھی عبرت و نصیحت کے قرآنی مضامین کو سمجھ کر متاثر ہوتا ہے، اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک اس کو آسان کردیا گیا ہے جس سے ہر عالم و جاہل، چھوٹا بڑا یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ (ج8، صفحہ 230)۔
پروفیسر صاحب مزید رقم فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم کے سہل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی تعلیمات آسان ہیں، ان پر عمل کرنا بھی آسان ہے، کیونکہ قرآن کریم کی راہ اصل فطرت کی راہ ہے۔ مثلاً اللہ ایک ہے، نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو، والدین اور اعزہ و اقربا کے ساتھ احسان و کرم کا معاملہ کرو، شراب و زنا سے بچو، وعدہ وفا کرو، بنی نوعِ انسان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئو، کسی بھی انسان کو ناحق قتل نہ کرو، رشوت اور لوٹ مار سے حاصل کیا گیا پیسہ حرام ہے… یہ وہ احکام ہیں جنہیں ایک عربی داں جس طرح سمجھ سکتا ہے ایک غیر عربی داں بھی اردو یا کسی بھی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی نگاہِ بصیرت افروز نے بھانپ لیا تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن مجید سے جوڑے بغیر حقیقی دین داری پیدا نہیں ہوسکتی، اس لیے اُس وقت کے برصغیر کی عوامی زبان فارسی میں ترجمہ کیا جس کا نام ’’فتح الرحمٰن فی ترجمتہ القرآن‘‘ رکھا، اس کے مقدمے میں شاہ صاحب نے لکھا کہ ’’یہ کتاب (قرآن مجید) بچپن ہی میں پڑھا دینی چاہیے تاکہ سب سے پہلے بچوں کے ذہن میں جو چیز آئے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے مطالب ہوں۔‘‘
اسی تناظر میں پروفیسر صاحب نے طلبہ و طالبات اور عام لوگوں کے لیے نصابی انداز میں ’القرآن‘‘ کو مرتب کیا۔ مبصر ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ محترم ارشاد الرحمٰن صاحب لکھتے ہیں: ’’اسی احساس کے تحت ایک عملی تدریسی منصوبے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے، متن و ترجمہ قرآن آمنے سامنے درج کرنے کے بعد نصابی کتب کے طریقے کے مطابق مشقیں دی گئی ہیں، جن میں مختلف نوعیت کے سوالات ہیں۔ مشقوں کی تیاری اور ترتیب میں بہت محنت کی گئی ہے، تحریری اور زبانی امتحان کے ماڈل پیپر بھی دیئے گئے ہیں۔ گویا طریقہ تدریس کے تمام کتابی لوازمات مکمل طور پر فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے قرآن کو نصابی کتاب کے طور پر پیش کرنے کی قابلِ قدر سعی فرمائی ہے‘‘۔
حصہ دوئم میں متنِ قرآن رموز و اوقاف کے ساتھ دیا گیا ہے، حصہ اوّل کی اشاعتِ ثالث میں بھی یہ تصحیح کردی گئی ہے۔ ’’القرآن‘‘ حصہ اوّل کی تدریس جن اسکولوں میں شروع کی گئی وہاں اس کے بہتر نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔
راقم نے بھی دورانِ مطالعہ کتاب میں ان تمام خوبیوں کو پایا جن کا ذکر اکابرین نے کیا ہے۔ میری بھی اربابِ حل و عقد سے یہ استدعا ہے کہ اس کاوش سے زیادہ سے زیادہ طلبہ و طالبات کو فیض یاب کرنے کے لیے اسے نہ صرف نصاب میں شامل کیا جائے بلکہ تمام چھوٹی بڑی لائبریریوں میں بھی اسے رکھا جائے۔ ہمارے قارئین بھی اسے خرید کر اپنے قریبی تدریسی مراکز میں رکھوانے کا بندوبست کریں۔ یہ صدقۂ جاریہ بھی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ’’القرآن‘‘ حصہ اول کا سندھی ترجمہ محترم انجینئر عبدالمالک میمن (کوٹری) نے خوب کیا ہے۔ کتاب پر نظرثانی پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری، محمد یوسف زکریا اور فیض احمد فیض (ڈائریکٹر الفاروق گروپ) نے فرمائی۔ حافظ غلام مجتبیٰ بھٹو نے زیورِ کتابت سے آراستہ کیا۔ خوش نصیب ہیں پروفیسر صاحب کی اہلیہ، بیٹا، بیٹیاں اور داماد جنہوں نے پروفیسر صاحب کے لیے آسانیاں مہیا کیں۔ آپ کے برادرِ محترم پروفیسر محمد یوسف منصوری جنہوں نے مسلسل رہنمائی اور معاونت فرمائی، اور وہ تمام اصحاب جن کے نام میں یہاں نہ درج کرسکا، جنہوں نے دامے، درمے، قدمے، سخنے پروفیسر صاحب سے تعاون کیا۔