حضرت داتا گنج بخشؒ

سید علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا عرس ہر سال اسلامی مہینہ صفرالمظفر کی 18 سے 20 تاریخ تک منایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کو آپ سے بے حد عقیدت تھی، اقبال اکثر آپ کے مزار پر روحانی فیض کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ اقبال نے جب اپنا پہلا فارسی شعری مجموعہ ”اسرارِ خودی“ شائع کیا تو اُس میں ’حکایتِ نوجوانے از مرو کہ پیشِ حضرت سید مخدوم علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ آمدہ از ستم اعدا فریاد کرد‘ کے نام سے ایک باب شامل کیا۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سید علی ہجویریؒ امت کے سردار ہیں، آپ کا مزار بہت بڑے بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے لیے مانندِ حرم ہے، پنجاب کی سرزمین آپ کے دم سے زندہ ہوگئی، ہماری صبح آپ کے آفتاب سے منور ہوئی۔ آپ کی برکت سے ہمارے ہاں وہی دور تازہ ہوگیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اُس وقت کی اسلامی دںیا میں موجود تھا، اور ان کے ارشادات سے دینِ حق کا شہرہ عام ہوگیا۔
۔(تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی، علامہ اقبال اسٹمپ سوسائٹی)۔

محمد ابو زہرہ المصری

مصر کے کتنے ہی ادیبوں، شاعروں اور علماء کی شہرت عالمگیر ہوئی۔ انہی میں ایک علامہ محمد ابوزہرہ المصری ہیں۔ ان سے میری شناسائی زمانہ طالب علمی میں ہوئی، جب ان کی کچھ کتابیں نظر سے گزریں۔ زمانہ طالب علمی میں جن مصری اسکالرز کو تراجم کی مدد سے پڑھا اُن میں طہٰ حسین، عباس محمود العقاد، احمد امین المصری اور ابوزہرہ المصری شامل ہیں۔ ابو زہرہ 1898ء میں مصر کے شہر الکبری کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ احمدی، جو کہ مصر کے جنوبی صوبے کے ایک مشہور شہر طنطا میں واقع ہے، سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ 1916ء میں آپ جامعہ احمدی سے مدرسہ قضاء شرعی میں منتقل ہوگئے۔ 9برس کا عرصہ آپ نے اسی مدرسے میں گزارا اور 1925ء میں اسی مدرسہ قضاء شرعی سے شہادۃ عالمیہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے 1927ء میں گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کی، اور اس کے بعد درس وتدریس سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مدرسہ قضاء شرعی اور دیگر مدارس میں پڑھانے کے بعد 1933ء میں جامعہ الازہر کے کلیہ اصولِ دین میں استاد مقرر ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ 1934ء میں لا (LAW) کالج نے بھی آپ کی خدمات حاصل کرلیں اور 1942ء تک آپ دونوں جگہ یعنی لا کالج اور کلیہ اصول دین جامعہ ازہر میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1958ء میں آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور دیگر علمی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ جمعیتہ الدراسات الاسلامیہ اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کی بنیاد رکھنے اور داغ بیل ڈالنے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ 1962ء میں آپ کو مجمع البحوث الاسلامیہ،جامعہ ازہر کا تاحیات رکن منتخب کرلیا گیا۔ آپ نے کئی ممالک کے سفر کیے اور وہاں عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جنوری 1958ء میں ہونے والی اسلامی کانفرنس لاہور میں شرکت کی۔ آپ کی علمی تراث دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کےساتھ ساتھ اس قدر تحقیقی اور تصنیفی کام بھی کرسکتا ہے! آپ کی کتابوں کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ تحقیقی مقالات سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ خطبات اور اخبارات اور جرائد کےلیے مضامین، ریڈیو اور ٹی۔ وی کے لیے تقاریر اس کے علاوہ ہیں۔ ابوزہرہ المصری کا اسلوب ادبی ہے، وہ تحقیقی اور علمی کتابیں بھی ادبی پیرائے میں لکھتے ہیں، لہٰذا اُن کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہے۔ آپ کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے۔ فقہی شخصیات پر لکھی جانے والی آٹھ کتابیں اردو میں ترجمہ ہوکر قبولِ عام حاصل کرچکی ہیں۔ اگر ابوزہرہ کو عربی میں پڑھا جائے تو یقیناً اس کا اپنا لطف ہوگا۔ ترجمہ میں بہرحال وہ بات نہیں آتی۔
۔(نگار سجاد ظہیر)۔

زبان زد اشعار

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
(نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ)
……٭٭٭……
اہلِ دنیا ہیں تمام اپنی غرض کے بندے
پڑ گئی جب کوئی مشکل تو خدا یاد آیا
(میر دوست علی خلیلؔ)
……٭٭٭……
اے شمع! صبح ہوتی ہے، روتی ہے کس لیے
تھوڑی سی رہ گئی ہے، اسے بھی گزار دے
(حکیم آغا جان عیش)
……٭٭٭……
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
(جسٹس شاہ دین ہمایوں)
……٭٭٭……
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
(مولانا صفی)