ایک خوش الحان آدمی سارنگی بجایا کرتا تھا۔ اس کی آواز پر مرد، عورت، بچے سبھی قربان تھے۔ کبھی مست ہوکر گاتا ہوا جنگل سے گزرتا تو چرند پرند اس کی آواز سننے کے لیے جمع ہوجاتے۔ ان بھول بھلیوں میں جب یہ عمر گزار بیٹھا اور بڑھاپے کے آثار نمودار ہوگئے تو آواز پیری کے سبب بھدی ہوگئی، اور اس کی سارنگی میں بھی وہ سوز نہ رہا، تو عاشقانِ آواز بھی رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوگئے۔ اب وہ جدھر سے گزرتا، کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔
نام و شہرت رخصت ہوگئی۔ ویرانی اور گمنامی میں فاقے پر فاقے گزرنے لگے۔ اس پر بے کسی کا عالم تھا۔ خلق کی اس خودغرضی کو دیکھ کر ایک دن بہت مغموم ہوا اور دل میں کہنے لگا: ’’یااللہ جب میں خوش آواز تھا مخلوق مجھ پر پروانہ وار گرتی تھی اور ہر طرف میری تواضع ہوتی تھی۔ اب بڑھاپے کی وجہ سے آواز خراب ہوگئی ہے تو یہ ہوا پرست اور خودغرض لوگ میرے سائے سے بھی گریزاں ہوگئے ہیں۔
ہائے! ایسی بے وفا مخلوق سے میں نے دل لگایا۔ یہ تعلق کس درجہ پُرفریب تھا۔ کاش! تیری طرف رجوع ہوا ہوتا، اپنے شب و روز تیری ہی یاد میں گزارتا اور تجھ سے ہی امیدیں وابستہ رکھتا تو آج یہ دن نہ دیکھتا‘‘۔
سارنگی بجانے والا دل ہی دل میں نادم ہورہا تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے ایک آہ بھری اور خلقِ خدا سے منہ موڑ کر دیوانہ وار مدینہ منورہ کے قبرستان کی طرف روانہ ہوگیا، اور ایک پرانے غار نما گڑھے میں جا بیٹھا۔ روتے ہوئے اس نے عرض کیا:۔
’’اے اللہ! آج میں تیرا مہمان ہوں، ساری مخلوق نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو اب بجز تیری بارگاہ کے میرے لیے کوئی پناہ نہیں۔ اے اللہ! آشنا، بیگانے ہوچکے۔ اپنے، پرائے ہوچکے۔ اب سوائے تیرے میرا کوئی آسرا نہیں‘‘۔
سارنگی بجانے والا اس طرح آہ و زاری میں مشغول تھا اور اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ بارگاہِ الٰہی میں اس کے یہ ندامت کے آنسو قبول ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کو الہام ہوا کہ میرا فلاں بندہ جو اپنی خوش آوازی کے سبب زندگی بھر مخلوق میں مقبول و محبوب رہا، اور اب بوجہ پیری آواز خراب ہوجانے سے ساری خلقت نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔ اُس کی یہ ناکامی میری طرف رجوع کا سبب بن گئی ہے۔ اُس کے پاس جاکر اُس کی ضرورت کو پورا کریں۔ ہم نے اپنے فضل کو اُس کے لیے خاص کردیا ہے۔ اب اُسے مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں۔
حضرت عمرؓ فوراً اٹھے اور ضرورت کا سامان لے کر اُس کی طرف چل دیئے۔ قبرستان کے نزدیک شکستہ غار نما گڑھے میں ایک بزرگ انہیں سوئے ہوئے نظر آئے جن کا چہرہ اور داڑھی آنسوئوں سے تر تھی۔ اسی اشک ِندامت سے اُن کو یہ مقام ملا تھا؎۔
پیر جنگی کے بود خاص خدا
حبذا اے سر پنہان حبذا
(سارنگی بجانے والا بڈھا کب خاص اور مقبول ہوسکتا تھا، مبارک ہواے رازِ پنہاں مبارک ہو)
حضرت عمرؓ اس غارِکہنہ کے سامنے کھڑے ہوگئے، تاکہ بزرگ بیدار ہوں تو ان سے ملاقات کروں۔ اسی اثنا میں حضرت عمرؓ کو چھینک آگئی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ خلیفتہ المسلمینؓ کو دیکھ کر غلبۂ ہیبت سے وہ کانپنے لگے۔
حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ بزرگ لرزہ براندام ہیں تو ارشاد فرمایا کہ خوف مت کرو۔ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے بہت بڑی خوش خبری لایا ہوں۔
سارنگی والے کو جب آپؓ کی زبانِ مبارک سے حق تعالیٰ کے الطاف و عنایات کا علم ہوا تو اس مشاہدۃ رحمت الٰہی سے اس پر شکر و ندامت کا حال طاری ہوگیا۔ اپنے ہاتھ کو ندامت سے چبانے لگا اور اپنے اوپر غصہ ہونے لگا۔ اپنی غفلت اور حق تعالیٰ کی رحمت کا خیال کرکے ایک چیخ ماری اور کہاکہ اے میرے آقائے بے نظیر! میں اپنی نالائقی اور غفلت کے باوجود آپ کی رحمت ِ بے مثال کو دیکھ کر مارے شرم کے پانی پانی ہورہا ہوں۔
جب سارنگی والا بزرگ خوب رو چکا اور اس کا درد حد سے گزر گیا تو اپنی سارنگی کو غصے سے زمین پر پٹخ کر ریزہ ریزہ کردیا اور اس کو مخاطب کرکے کہاکہ تُو نے ہی مجھے حق تعالیٰ کی محبت و رحمت سے دور رکھا تھا۔ تُو نے شاہ راہِ حق سے میری رہزنی کی تھی۔ تُو نے ہی ستّر سال تک میرا خونِ جگر پیا۔ یعنی تیری ہی وجہ سے لہو و لعب اور نافرمانی کرتے کرتے بوڑھا ہوگیا۔
اس مردِ پیر کی گریہ و زاری اور آہ و بکا سے حضرت عمرؓ کی آنکھیں بھی اشک بار ہوگئیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’اے شخص تیری یہ گریہ و زاری اب تیرے قلب و باطن کی صفائی کی دلیل ہے‘‘۔
تیری جان اب حق تعالیٰ کے قرب سے زندہ اور روشن ہوگئی ہے۔ اللہ عزوجل کے حضور گناہ گار کے آنسوئوں کی بڑی قدر و قیمت ہے ؎۔
کہ برابر می کند شامجید
اشک را در وزن باخون شہید
۔(حق تعالیٰ گناہ گار بندے کے ندامت سے نکلے ہوئے ایک آنسو کو شہید کے قطرۂ خون کے ہم وزن رکھتے ہیں)۔
حضرت عمرؓ کی صحبتِ مبارکہ کے فیض سے اسے نئی زندگی ملی اور ندامت کے آنسوئوں کے سبب اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا فضل فرما دیا۔
درسِ حیات:٭ اپنی غلطیوں اور گناہوں پر نادم ہوکر تائب ہونے سے اللہ کریم معاف فرما دیتے ہیں۔
٭رب تعالیٰ کے ہاں گناہ گار کے آنسوئوں کی بڑی قدر و قیمت ہے۔