حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ظلم میں ان کی مدد کرنے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا۔ نبیﷺ نے اس سے فرمایا:” اس کو چھوڑ دے اس لیے کہ حیا ایمان کی ایک شاخ ہے“۔ (بخاری و مسلم)۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ حضورؐ ہدایتِ الٰہی کا تحفہ اور دینِ حق کا نور لے کر اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپؐ کو اس دنیا میں بھیجے جانے کا اوّلین مقصد یہ ہے کہ آپؐ نورِ ہدایت کے ذریعے انسانوں کا تزکیہ کریں، ان کی سیرت و کردار کی اصلاح کریں تاکہ انسانی معاشرے سے ظلم، جہالت اور گمراہی کا خاتمہ ہو۔ آپؐ کی ذات اور تعلیمات اہلِ ایمان کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں۔ اس مبدائے فیضؐ سے وہی خوش نصیب سیراب ہوسکتے ہیں جو آپؐ پر پختہ ایمان رکھتے ہوں اور آپؐ کے اطاعت گزار ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض افعالِ بد کا ارتکاب کرنے والے کو لیس منا (وہ ہم میں سے نہیں) لیس منِی (وہ مجھ سے نہیں) اور لا یومن (اس کے پاس ایمان نہیں کی وعید سنائی ہے۔ ایسی احادیث اور ان کے ترجمے اور تشریح کو عبدالحمید ڈار نے ایک کتابچے میں جمع کیا ہے۔ اس کتابچے سے ایک حدیث اور اس کی شرح ملاحظہ کیجیے۔
انسانی معاشرے میں ریاست ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے احکامات کو نافذ کرنے کے لیے قوت اور طاقت بھی رکھتا ہے۔ ریاست کا مقصدِ وجود لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اور ان کی فلاح و بہبود اور بھلائی کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس کا دائرۂ کار انسانی زندگی کے ہر شعبے، انفرادی و اجتماعی پر محیط ہے۔ اس کے فرائض کثیر اور ہمہ جہتی ہیں۔ اگر ریاست یا حکومت کا انتظام وانصرام اہل اور دیانت دار افراد کے ہاتھ میں ہوگا تو معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہوگا اور لوگوں کی زندگیاں آسودہ اور امن و سکون کی راحتوں سے معمور ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر ریاست و حکومت کے اختیارات نااہل، بددیانت اور خائن لوگوں کے پاس ہوں گے تو ہر طرف ظلم و استبداد کا دور دورہ ہوگا۔ لوگ اپنے حقوق سے محروم دکھ اور اذیت کی زندگی کے گرداب میں گھر جائیں گے اور معاشرے سے سکھ چین عنقا ہوجائے گا۔ ایسی ریاست اور حکومت بھی جلد اضمحلال کا شکار ہوکر فضائے عدم میں تحلیل ہوجائے گی۔
جس طرح کسی ناکارہ اور غلیظ چیز پر مکھیاں آگرتی ہیں اسی طرح عقل و شعور سے عاری حکمرانوں کے گرد مفاد پرست، چاپلوس جی حضوریوں کا ٹولہ جمع ہوجاتا ہے جو ان بے دانش اور نااہل حکمرانوں کو خوشامد کے شیشے میں اتارکر کاروبارِ حکومت اور عوام الناس کی اصلاحِ احوال کے کاموں سے بے خبر کردیتا ہے۔ یہ لوگ اپنی چرب لسانی سے ہر وقت حکمرانوں کے گرد مدح و توصیف کے جال بُننے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ ان حکمرانوں کے ہر جھوٹ کو سچ اور ان کے ظلم کو عوام کی بھلائی کا امرت رس ثابت کرنے کے لیے اپنی طلاقتِ لسانی سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ان کے دن کھیل تماشوں میں اور راتیں عیش و نشاط کی محفلیں سجانے میں گزر جاتی ہیں۔ یہ چاپلوس خوشامدی ان نادان حکمرانوں کو عوام کے مسائل کے بارے میں ہر وقت ’سب اچھا ہے‘ کی پینک (افیون کا نشہ) میں بدمست رکھتے ہیں، اور جب کبھی عوامی دکھ کا ریلا ان کے ایوانوں کے درودیوار تک پہنچ جاتا ہے تو اُس وقت نااہل اور غافل حکمران ان بے بس دکھی انسانوں پر ظلم کا کوڑا برسا دیتے ہیں۔ اس عملِ بد میں یہ خوشامدی چاپلوس اپنے جمے ہوئے مفادات کی خاطر ان ظالم حکمرانوں کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔ پھر عامۃ الناس کے لیے جیل، جلا وطنی اور پھانسی کی ٹکٹیاں لگ جاتی ہیں۔ یہی وہ ظالم و جابر گروہ ہے جس کے بارے میں زیرنظر حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وعید سنائی گئی ہے کہ انہیں روزِ محشر کی جھلسا دینے والی گرمی میں جب کہ ہر زبان عطش عطش (پیاس پیاس) پکار رہی ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر پر آنے اور پانی کا گھونٹ پینے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے برعکس جو خوش نصیب دنیا میں ان احمقوں کی مجلسوں سے دور رہے، ان کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ان کے ظلم و استبداد میں ان کے معاون و مددگار بننے سے مجتنب رہے، بلکہ ان جاہل حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہوکر کلمۂ حق بیان کرکے افضل الجہاد کا فریضہ انجام دینے کا شرف حاصل کیا (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی۔ ابی دائود، ابن ماجہ۔ احمد و نسائی) وہ خوش و خرم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض پر پہنچیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے جام کوثر سے ایسے شادکام ہوں گے کہ پھر دخولِ جنت تک انہیں پیاس محسوس نہ ہوگی۔ اول الذکر ظالموں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں، جب کہ مؤخر الذکر لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور قربت کی سعادت سے مشرف ہوں گے، اور یہی وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کی رضا کا پروانہ لے کر جنت کی نعمتوں اور راحتوں سے فیض یاب ہوں گے۔ (اللہ کرے ہمارا شمار ان ہی میں ہو۔ آمین) ایک روایت میں ہے کہ جو شخص جس قدر بادشاہ (حکمران) کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اسی قدر دور ہوجاتا ہے۔ (مشکوۃ۔ باب حکومت کا بیان، بحوالہ ابودائود)۔
حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور میرے ساتھ میرے چچا کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بعض ان کاموں پر امیر مقرر کردیں جن کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو والی بنایا ہے۔‘‘ دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی قسم ہم اس کام پر کسی ایسے شخص کو والی نہیں بناتے جو اس کا سوال کرے، اور نہ کسی ایسے شخص کو بناتے ہیں جو اس کی حرص رکھے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم اس کام پر کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ کرے۔‘‘ (مشکوٰۃ، باب حکومت کا بیان، بحوالہ بخاری و مسلم)۔
مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی بندہ ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ رعیت پر نگہبان بنا دے مگر وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی نہ کرے تو وہ جنت کی بو بھی نہ پائے گا۔
۔(مشکوٰۃ، بحوالہ بخاری و مسلم، راوی معقلؓ بن یسار)۔