اسلامو فوبیا اورسیکولرازم

نئے فرانسیسی سکے کے دورُخ

مغربی دانش وروں کی تشویش سے تاثر ابھرتا ہے کہ معصوم لڑکیوں کے سر پر بندھا اسکارف وہ مہلک میزائل ہے جس سے پوری مغربی تہذیب بھسم ہوسکتی ہے۔ یہ خوف نیا نہیں۔ پرانے دور کے کمال اتاترک سے تیونس کے حبیب بورقیبہ، اور دورِ حاضر کے آذربائیجانی الہام علیوف تک سب کو اسکارف انتہاپسندی کا پھریرا نظر آتا ہے

جارج ہولیوک (George Holyoake)کو سیکولر ازم کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔ اس برطانوی نژاد مصنف نے سب سے پہلے لفظِ سیکولرازم استعمال کیا تھا۔ جناب ہولیوک نے ”مذہبی عقائد سے ماورا سماج“ کو سیکولر معاشرہ قرار دیا تھا۔ تاہم اُس نے بہت صراحت کے ساتھ کہا کہ سیکولرازم مسیحیت (مذہب) مخالف دلیل و نظریہ نہیں بلکہ ایک آزاد طرزِ فکر ہے۔ ایک متنوع معاشرے میں اس کی آسان سی تعریف یہ ہے کہ ”اپناعقیدہ مت چھوڑو اور دوسروں کا عقیدہ مت چھیڑو“۔
لیکن یورپ میں ایک عرصے سے سیکولرازم کے نام پر اسلامی عقائد اور معاشرت، خاص طور سے حجاب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا حضرتِ آیت اللہ خمینی نے جامعہ تہران میں طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”دشمن ہمارے بموں اور میزائلوں سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا تمہارے سروں پر پڑی چادروں سے خوف زدہ ہے“۔ مسلم بچیوں کے اسکارف سے مغربی دنیا کی بے چینی و پریشانی بلکہ خوف دیکھ کر خمینی صاحب کی بات درست محسوس ہوتی ہے۔ مغربی دانش وروں کی تشویش سے تاثر ابھرتا ہے کہ معصوم لڑکیوں کے سر پر بندھا اسکارف وہ مہلک میزائل ہے جس سے پوری مغربی تہذیب بھسم ہوسکتی ہے۔ یہ خوف نیا نہیں۔ پرانے دور کے کمال اتاترک سے تیونس کے حبیب بورقیبہ، اور دورِ حاضر کے آذربائیجانی الہام علیوف تک سب کو اسکارف انتہاپسندی کا پھریرا نظر آتا ہے۔
اب فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں نے اسکارف کے ساتھ سیکولرازم کے نام پر فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے، اور اگر قانون سازی کے لیے ان کی مہم کامیاب ہوگئی تو عدم برداشت کےحوالے سے فرانس چین کے ہم پلہ ہوجائے گا۔
2 اکتوبر کو پیرس کے مضافات میں ”انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی“ بیان کرتے ہوئے جناب ماکروں نے فرمایا کہ ”اسلامی انتہا پسندی سے سیکولر اقدار کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی“۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف فرانس ہی نہیں بلکہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ جناب ماکروں نے فرانسیسیوں کو یقین دلایا کہ تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے مؤثر قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ دسمبر میں ایک مسودئہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے جس میں 1905ء کے اس قانون کو مزید تقویت دی جائے گی جس کے تحت گرجا اور ریاست کو علیحدہ کردیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم انتہا پسندی سے ہماری اندرونی سلامتی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔
دلچسپ بات کہ اسلامی ثقافت کے حوالے سے امامِ آزادی و جمہوریت فرانس اور مطلق العنان اشتراکی چین ہم مشرب و ہم خیال نظر آتے ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ بطور عقیدہ اسلام عظیم مذہب ہے لیکن چینی ثقافت کے متوازی اقدار و رسوم کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے خوراک، لباس اور رسوم و عبادات، حتیٰ کہ چینی زبان کے سوا کسی اور زبان میں روزمرہ تہنیتی الفاظ کو بھی ”ثقافتی آلودگی“ قرار دیتے ہوئے تطہیرِ افکار و خیالات کے لیے لاکھوں اویغور مسلمانوں کو بیگار کیمپ نما ”تربیتی مراکز“ میں داخل کردیا ہے۔
اسلام کے ”خطرے“ سے نبٹنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ مسلم انتہا پسندی قبول نہیں، حجاب پر مکمل پابندی کو یقینی بنایا جائے گا اور گلی کوچوں میں پھیلے مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ جناب ماکروں کا کہنا تھا کہ فرانس سیکولر ملک ہے، یہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی، کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم و رواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ ہم نے ”متوازی“ کہہ کر فرانسیسی صدر کے ارشادِ گرامی کو متوازن بنانے کی کوشش کی ہے، ورنہ موصوف نے اپنی تقریر میں قوم پرستی کا تڑکا لگانے کے لیے Islamic Separatismکہا تھا، یعنی مسلمان فرانس میں علیحدہ ریاست بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
فرانسیسی صدر نے اعلان کیا کہ گلی کوچوں کی سطح تک پہنچ جانے والی مسلم انتہاپسندی کے استیصال کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے جس کے ذریعے:
٭مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔
٭انتہا پسندی پھیلانے والی مساجد و مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی، اور
٭مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
٭پردے اور اسکارف پر پابندی کو سخت بنانے کے لیے نئے قانون میں سرکاری اسکول و جامعات، دفاتر، ساحلِ سمندر، پارک اور تفریحی مقامات کے ساتھ نجی اداروں میں بھی سر ڈھانکنے پر پابندی ہوگی۔
جناب میکروں نے مزید کہا کہ اگلے سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، اسکول جانا لازمی ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار جنونی۔ فرانس میں لازمی تعلیم کا قانون دہائیوں سے ناٖفذ ہے، لہٰذا ان کے ارشادِ گرامی کے اس حصے کی شانِ نزول میں ابہام ہے۔ مسلم حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ نئے قانوں سے حکومت کو نجی اسکولوں کا گلا گھونٹنے کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔
ستمبر کے آغاز میں جب فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے 2015ء میں چھاپے جانے والے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کیے تو اس کا دفاع کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے اس کی مخالفت کو فرانسیسی اقدار سے متصادم اور متوازی رجحان (Islamic Separatism)قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”گستاخی“ کی حد تک آزادیِ اظہارِ رائے فرانسیسی دستور کا حصہ ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہمارے آئین کا احترام کرنا ہوگا۔
اس مرحلے پر آزادیِ اظہارِ رائے کے باب میں فرانس ہی کا ایک اور واقعہ:
چالی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے تین سال قبل فرانس میں طنزو مزاح کے ایک اور رسالےکلوزر (Closer) نے برطانوی شہزادی کیتھرین ولیم کی نیم عریاں تصاوہر چھاپ دیں۔ کلوزر کے ساتھ یہ تصاویر ایک اور فرانسیسی رسالے شائی (Chi) میں بھی شائع ہوگئیں۔ شہزادی صاحبہ کی یہ تصاویر ایک فوٹو گرافر نے اُس وقت بنائی تھیں جب یہ عفیفہ اپنے شوہر شہزادہ ولیم کے ہمراہ جنوبی فرانس کے شہر Luberonمیں چھٹیاں منارہی تھیں۔ اکثر تصاویر میں شہزادی صاحبہ غسلِ آبی و آفتابی فرما رہی ہیں۔ ان تصاویر کی اشاعت کے ساتھ ہی برطانیہ کے شاہی خاندان نے اس کے خلاف فرانسیسی عدالت میں اپیل دائر کردی۔ عدالتی کارروائی کے دوران رسالے کی انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ کیمرے سے کھینچی ہوئی تصویریں ہیں اور محل کے باہر سے لی گئی ہیں۔ شہزادی صاحبہ کھلے عام بے لباسی کا مظاہرہ فرما رہی تھیں لہٰذا رسالے کے قارئین بھی اس منظر کو دیکھنے کا حق رکھتے ہیں، اور پابندی سے اظہارِ رائے کا حق مجروح ہوگا۔ لیکن عدالت نے دو دن کی سرسری سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ ان تصاویر کی اشاعت سے برطانوی عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور تصویرکشی شاہی جوڑے کے تخلیے میں مداخلت ہے۔ عدالت نے رسالے پر 2600ڈالر جرمانہ کرتے ہوئے مزید تصاویر کی اشاعت پر پابندی لگادی اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ شہزادی کی تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ تصاویر فوری طور پر شاہی خاندان کو واپس کردی جائیں۔ واپسی میں تاخیر کی صورت میں 13000ڈالر یومیہ کے حساب سے جرمانہ ہوگا، اور اگر مزید تصاویر شائع ہوئیں تو ڈیڑھ لاکھ ڈالر جرمانہ کیا جائے گا۔ فرانس کے ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ یہ ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ تھا اور حالیہ فیصلے کی روشنی میں فرانس کی وزارتِ انصاف رسالے کی اس ”صریح جسارت“ کے خلاف فوجداری مقدمے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ شہزادی صاحبہ کی یہ تصاویر آئرلینڈ کے ایک اخبار آئرش اسٹار نے بھی شائع کی ہیں جس کی پاداش میں اخبار کے ایڈیٹر کو فوری طور پر معطل کردیا گیا۔ انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے سب سے بڑے ادارے eBay نے اپنے کسی بھی لنک پر کلوزر، شائی اور آئرش اسٹار کو اپ لوڈ کرنے پر بھی پابندی لگادی جو کئی برس برقرار رہی۔
چارلی ہیبڈو نے جب فروری 2007ء میں شریعہ ہیبڈو کے نام سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا تھا تو اس کے خلاف مسلمان تنظیموں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں کا مؤقف تھا کہ توہین آمیز خاکوں سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے جبکہ تمام مذاہب کا یکساں احترام فرانسیسی دستور کا حصہ ہے۔ عدالت کے روبرو اپنے ایک تحریری بیان میں اُس وقت کے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے خاکوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ طنز و مزاح فرانسیسی ثقافت کاحصہ ہے۔ جبکہ اُن کے بعد آنے والے صدر فرانکو ہولیندے نے تو عدالت میں پیش ہوکر رسالے کا دفاع کیا اور کہا کہ مذہبی جذبات کے نام پر اظہارِ رائے کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے مسلمانوں کی درخواست مسترد کردی اور فیصلہ سنایا کہ یہ کارٹون محض طنزو مزاح ہیں اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے چارلی ہیبڈو کے ایڈیٹر اسٹیفن عرف شارب نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ رسالہ نہ پڑھیں بالکل ایسے ہی جیسے میں ان کی مسجد نہیں جاتا۔ شارب نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی متبرک شخصیت نہیں سمجھتا، لہٰذا مجھ پر ان کا احترام لازم نہیں۔
پردے اور حجاب کے خلاف قانون سازی کے ساتھ فلم و ثقافت کا ہتھیار بھی بے شرمی سے استعمال ہورہا ہے۔ بے شرمی اس اعتبار سے کہ اب آٹھ سے گیارہ سال کی بچیوں کو بے لباس کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں Netflixپر ”پیاری“ (Curies) کے عنوان سے ایک فرانسیسی فلم جاری کی گئی ہے۔ یہ ”پابندیوں“ میں جکڑی ایک گیارہ سالہ سینیگالی مسلمان بچی ایمی کی کہانی ہے، جس کا گھٹن آمیز ماحول میں دم نکل رہا تھا۔ اس بچی کو رقص و موسیقی سے آراستہ مغربی کلچر تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا محسوس ہوا اور اس نے اپنی ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ ہنسنے بولنے کا سہارا تلاش کرلیا۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا، لیکن یہ فلم ایمی اور اس کی ہم عمر کم سن بچیوں کے نیم عریاں لباس میں بے باک رقص پر مشتمل ہے۔ نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے شوق میں غریب افریقی گھرانوں کی بے خبر، معصوم و بھولی بھالی بچیوں سے نیم عریاں لباس میں رقص کرانا بدطینت شیطانوں کے لیے بصری فرحت کا سامان اور معصوم بچیوں کا استحصال ہے، جس کی مہذب دنیا کو مذمت کرنی چاہیے۔
اسکارف اور پردے پر غیر ضروری پابندیوں سے دین دار مسلمانوں کے ساتھ اعلیٰ ظرف سیکولر طبقہ بھی پریشان ہے۔ ممتاز فرانسیسی دانشور محترمہ نجات ولید ابوالقاسم نے 2017ء میں کہا تھا کہ سیکولر سکھاشاہی مسلم بچوں کو انتہاپسندی کی طرف مائل کررہی ہے۔ محترمہ نے اس کے لیے Militant Secularity کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا لغوی ترجمہ تو سیکولر شدت پسندی ہوگا لیکن ہمیں متبادل کے طور پر سکھا شاہی کا لفظ زیادہ مناسب لگتا ہے۔ 43 سالہ مراکش نژاد نجات سابق صدر ہولیندے کابینہ کی وزیر تعلیم اور فرانس کی حکمراں جماعت سوشلسٹ پارٹی کی ایک سرگرم رکن ہیں۔ موصوفہ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ برائے علوم سیاسیات کی فارغ التحصیل ہیں۔ یہ ادارہ سیاسی و سماجی امور کی تعلیم کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ نجات یا نزہت کو فرانس کی پہلی خاتون وزیرتعلیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ خواتین کے حقوق، امورِ نوجوانان اور بلدیات کی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے نجات نے کہا کہ اسکولوں میں اسکارف اور کپاہ (یہودی ٹوپی) پر غیر ضروری پابندیوں سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نجات کا کہنا تھا کہ جب مسلم بچی یہ دیکھتی ہے کہ اسکول چھوڑنے کے لیے آنے والی اس کی اسکارف پوش ماں محض اس لیے اس کی کلاس تک نہیں آسکتی کہ ماں نے اپنا سر ڈھکا ہوا ہے تو اس نوخیز طالبہ کے دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مذہی شعائر اور علامات پر پابندی سے برداشت اور ہم اہنگی پیدا نہیں ہوسکتی، اور سیکولر شدت پسندی مسلمانوں میں احساسِ محرومی پیدا کررہی ہے۔ نجات ابوالقاسم نے کہا کہ گاڑی چلانے کے لیے حجاب اتارنے کی شرط لگا کر ہم اُن ملکوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ہی نہیں۔ یہ ایک قسم کا امتیازی سلوک ہے جس کا مہذب سیکولر معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ سیکولر انتہاپسندی معاشرے میں تناؤ اور ہیجان پیدا کررہی ہے۔ اسکولوں کے تفریحی دوروں میں باحجاب مائیں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں جاسکتیں، جس کی وجہ سے نوخیز بچوں کے ذہن میں سیکولرازم کے خلاف جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ نجات کے خیال میں غیرضروری سختی مسئلے کا حل نہیں، اور لباس کے انتخاب میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
آج اسلام اور مسلم ثقافت کو فرانس سے کھرچ دینے کا عزم رکھنے والے میکروں 2017ء کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کے ہمدرد بن کر ابھرے تھے۔ اُس وقت ان کی حریف محترمہ میرین لاپن کا بیانیہ وہی تھا جو آج کل میکروں صاحب کا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایمانویل میکروں نے لاپن کی تنگ نظری کو فرانس کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس دوران مساجد کے دورے میں نہ تو اسکارف انھیں غلامی کا نشان نظر آیا، نہ عمدہ عربی میں قرآن کی تلاوت کرتے فرانسیسی بچوں کو دیکھ کر انھیں اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔
تین برسوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ مسلمانوں کو گلے سے لگانے والے میکروں اب اسلامیوں کو مٹانے پر تل گئے ہیں! ان کے نئے رجحان کا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا جاسکتا ہے:
مسلمانوں سے موصوف کی نفرت کی بنیادی وجہ بحر روم میں ترکی کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔ ترک بحریہ، یونانی قبرص اور یونانی جزیرے کریٹ (Crete)کے قریب نشانہ بازی کی مشق کررہی ہے جس کی بنا پر گزشتہ کئی ماہ سے بحر روم میں یورپی جہازوں کی نقل و حرکت محدود ہوچکی ہے۔ تجارتی پابندی، ناکہ بندی اور مزہ چکھانے کی دھمکیوں کے بجائے جرمن چانسلر مذاکرات کے لیے صدر اردوان سے رابطے میں ہیں۔ ترکی کے تباہ کن ڈرون اور راکٹوں سے لیس لیبیا کی فوج نے مغرب کے دلارے حفتر کو کاری ضرب لگائی ہے، اور طرابلس پر قبضہ جنرل السیسی، متحدہ عرب امارات، روس، فرانس اور اسرائیل کے لیے ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ بحرروم کے ساتھ بحر خزر یا کیسپین کے مضبوط ملک اور ترک اتحادی آذربائیجان کی آرمینیا کے خلاف کامیاب کارروائی نے بھی صدر میکروں کے فرانسیسی تکبر پر کاری ضرب لگائی ہے۔
ترکی بلکہ عثمانیوں سے نفرت یورپی رہنماؤں کی فطرت میں داخل ہے۔ صدر اردوان ترکی کے قابلِ فخر ماضی کا ذکر کرتے ہوئے سلطان فاتح کے ساتھ عثمانی بحریہ کے امرائے بحر خیرالدین باربروسہ اور عروج رئیس کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ ان ماہر ملاحوں نے بحرروم اور بحر اسود کو دشمن جہازوں کا قبرستان بنادیا تھا۔ ان دلاوروں کا ذکر مغرب کو تیر کی طرح جگر میں گھپتا محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ معاملہ صرف میکروں تک محدود نہیں، مسلم حکمرانوں کے فدویانہ بلکہ غلامانہ انداز کے خوگر چچا سام کو بھی ترک صدر کی باغیانہ روش ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ میٖڈیا رپورٹس کے مطابق ترکی کی جنوبی سرحد غیر مستحکم کرنے کے لیے امریکہ دہشت گرد ملیشیا YPGکو 40 کروڑ ڈالر کی عسکری مدد فراہم کررہا ہے، حالانکہ YPG امریکی قانون کے تحت بھی دہشت گرد تنظیم ہے۔ جناب جوبائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ اگر صدر منتخب ہوگئے تو وہ ترکی میں تبدیلیِ اقتدار المعروف Regime Change کے لیے اپنے اتحادیوں سے مل کر کام کریں گے۔
اسی کے ساتھ جناب میکروں کو ملک کے اندر شدید سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ موصوف تین سال پہلے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور میرین لاپن کے اسلاموفوبیا کے سدباب کے ساتھ ملک میں دودھ و شہد کی نہر بہانے کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے۔ لیکن معیشت کی بحالی کے لیے ان کی قدامت پسندانہ اصلاحات کو مزدور اور غریب طبقے کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور زرد صدری (Yellow Jacket) مظاہرین نے سارے فرانس کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ ملک گیر مظاہروں، دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل گیا، جبکہ رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی۔ وبا سے نبٹنے کے لیے فرانسیسی حکومت کے غیر مؤثر اقدامات پر عام لوگ حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کی فکر میں میکروں حکومت لاک ڈاؤن سے گریز کرتی رہی جس کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور اس کا دورانیہ بھی طویل رہا۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات شروع ہی ہوئے تھے کہ کورونا کی نئی وبا سر پر آگئی۔ اگلے ہفتے سے پیرس اور تمام بڑے شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن کی تیاری کی جارہی ہے۔
فرانس کے مسلم حلقوں کا ٓخیال ہے کہ جناب میکروں معاشی بدحالی اور بے روزگاری سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے قوم کو اسلام فوبیا کی بتی کے پیچھے لگارہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں انھوں نے مسلمانوں کی پشتی بانی کا وعدہ کرکے ووٹ بٹورے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے لیے میرین لاپن کے پرچم تلے جانا ممکن نہیں، چنانچہ وہ سیکولرازم اور فرانسیسی قوم پرستی کا راگ الاپ کر اپنی ناکامیوں پر پردے کے ساتھ میرین لاپن کے مسلم مخالف ووٹ بینک میں نقب لگانا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ حکمت عملی الٹ بھی سکتی ہے۔ 2016ء میں امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی جارحانہ مہم سے خوف زدہ ہوکر سینیٹر ہلیری کلنٹن نے دائیں بازو کے ووٹ توڑنے کے لیے سیاہ فاموں اور ہسپانویوں کو نظرانداز کردیا تھا۔ سینیٹر صاحبہ کا خیال تھا کہ سیاہ فاموں کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینا ناممکن ہے۔ انتخاب کے دن سیاہ فاموں نے اپنی وفاداری تو تبدیل نہیں کی لیکن وہ مایوس ہوکر گھر بیٹھ رہے، جس کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی اپنے گڑھ مشی گن اور وسکونسن میں ہار گئی۔ فلوریڈا اور پنسلوانیا کے سیاہ فام علاقوں میں بھی ووٹ ڈالنے کا تناسب کم رہا، نتیجتاً یہ دونوں ریاستیں اور وہائٹ ہاؤس کی کنجی کے ساتھ کانگریس کے دونوں ایوان ہاتھ سے نکل گئے۔
فرانسیسی مسلمانوں کی تعداد 60 لاکھ اور آبادی میں ان کا تناسب 9 فیصد ہے۔ ساری دنیا کی طرح فرانسیسی مسلمانوں میں افزائش نسل کی شرح دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ مسلمان نوجوان کم عمری میں شادی کرتے ہیں، اور ان کے یہاں شادی محض ساتھ رہنے کی قانونی دستاویز نہیں بلکہ یہ خانہ آبادی کا نقطہ آغاز ہے۔ چنانچہ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عمرانیات کے علما ”خدشہ“ ظاہر کررہے ہیں کہ 2050ء تک فرانس مسلمان اکثریتی ملک بن سکتا ہے۔ شاید اسی خوف نے میری لاپن اور ایمانویل میکروں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی پیدا کردی ہے۔ لیکن مسلم دنیا کے سیکولر رہنماؤں کی طرح فرانسیسی صدر بھی اعتراف کی جرات سے محروم ہیں۔

اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔